’’دارفور امن معاہدہ‘‘ سے مراد ان تین امن معاہدوں میں سے کوئی ایک ہے جو سوڈان کی حکومت اور دارفور کے باغی گروہوں کے درمیان 2006ء، 2011ء اور 2020ء میں دارفور تنازع کو ختم کرنے کے ارادے سے طے پائے۔
(1) ابوجا معاہدہ 2006ء
2006ء کا دارفور امن معاہدہ جو ’’ابوجا معاہدہ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 5 مئی 2006ء کو عمر البشیر کی سربراہی میں سوڈان کی حکومت نے (سلیمان) منی مناوی کی قیادت میں سوڈان لبریشن آرمی (SLA) کے ایک دھڑے کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط کیا۔ تاہم، اس معاہدہ کو دو دیگر چھوٹے گروہوں، جسٹس اینڈ ایکویلیٹی موومنٹ (JEM) اور عبد الواحد النور کی قیادت میں سوڈان لبریشن آرمی کے ایک حریف دھڑے نے مسترد کر دیا۔
115 صفحات پر مشتمل یہ معاہدہ وسیع البنیاد تھا اور اس میں درج ذیل نوعیت کے مسائل اور اقدامات شامل تھے:
قومی اور ریاستی اختیارات کی تقسیم۔ جنجوید اور دیگر عسکری گروپوں کو غیر مسلح کرنا۔ سوڈان لبریشن آرمی اور جسٹس اینڈ ایکویلیٹی موومنٹ کے فوجیوں کو سوڈانی مسلح افواج اور پولیس میں ضم کرنا ۔ دارفور کے اقتصادی مفادات کے فروغ کے لیے وفاقی دولت کی تقسیم کا نظام۔ دارفور کی مستقبل کی حیثیت کے حوالے سے ریفرنڈم کا انعقاد۔ اور خطے میں انسانی امداد کی سہولتوں کو فروغ دینا وغیرہ۔
اس معاہدہ کو درج ذیل افراد نے ترتیب دیا:
مذاکرات کے سربراہ سلیم احمد سلیم جو افریقی یونین کی جانب سے کام کر رہے تھے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بی زولک۔ افریقی یونین کے نمائندے۔ ابوجا، نائیجیریا میں کام کرنے والے دیگر غیر ملکی عہدیدار۔
جبکہ افریقی یونین، نائیجیریا، لیبیا، امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ، مصر، کینیڈا، ناروے اور نیدرلینڈز کے نمائندوں نے معاہدہ کے گواہ کے طور پر کام کیا۔
معاہدہ کے تحت قومی اتحاد (GNU) کی سوڈانی حکومت نے اکتوبر 2006ء کے وسط تک عسکری گروپ جنجوید کو اس طرح سے غیر مسلح اور غیر متحرک کرنا تھا کہ اس کی تصدیق کی جا سکے۔ اس نے ’’پاپولر ڈیفنس فورسز‘‘ کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کیں اور ان کے سائز کو کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک تفصیلی ترتیب اور مرحلہ وار شیڈول وضع کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ افریقی یونین اس بات کی تصدیق کرے کہ جنجوید اور دیگر مسلح گروپوں کو تخفیف اسلحہ اور غیر متحرک ہونے کے حوالے سے باغی افواج کے اپنے طور پر جمع ہونے سے پہلے ہی غیر مسلح کر دیا گیا ہے۔
معاہدہ میں کہا گیا ہے کہ 4,000 سابق جنگجوؤں کو سوڈانی مسلح افواج میں اور 1,000 کو پولیس فورسز میں ضم کیا جائے، اور 3,000 کو تعلیم اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے مدد کی جائے۔ سابق جنگجوؤں کو 100-150 کے گروہوں میں ضم کیا جانا تھا اور ہر ضم شدہ بٹالین کا 33 فیصد بننا تھا۔
دارفور کے عوام کے لیے اپنے رہنماؤں کو منتخب کرنے اور ایک علاقے کے طور پر اپنی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے جمہوری عمل وضع کیے گئے۔ معاہدہ پر دستخط کرنے والے باغیوں کو سوڈان کی قومی اتحاد کی حکومت میں چوتھا اعلیٰ ترین عہدہ دیا گیا:
(۱) صدر کا سینئر معاون، اور (۲) نو تشکیل شدہ ’’ٹرانزیشنل دارفور ریجنل اتھارٹی‘‘ (TDRA) کا چیئرپرسن۔
TDRA (عبوری علاقائی حکومت) کو دارفور میں امن معاہدہ پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جس میں باغی تحریکوں کا اس ادارے پر مؤثر کنٹرول تھا۔
جولائی 2010ء میں یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم ہونا تھا کہ کیا دارفور کو (سوڈان کے اندر) ایک واحد حکومت کے ساتھ ایک متحد علاقے کے طور پر قائم کیا جائے۔
معاہدہ کے مطابق انتخابات سے قبل تین سال کی مدت میں باغی تحریکوں کے لیے خرطوم میں قومی اسمبلی میں 12 نشستیں، دارفور کی ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں سے ہر ایک میں 21 نشستیں، ایک ریاستی گورنر اور دارفور میں دو ڈپٹی ریاستی گورنر، ریاستی وزارتوں میں اعلیٰ عہدے، اور مقامی حکومتوں میں کلیدی عہدے مقرر کیے گئے۔
معاہدہ نے بین الاقوامی برادری کو دارفور کے لیے اضافی فنڈز دینے کے لیے امدادی کانفرنس منعقد کرنے کا پابند کیا، اور TDRA کے چیئرپرسن کو اس کانفرنس میں اپنی ضروریات اور ترجیحات کا خلاصہ پیش کرنے کی دعوت دی۔
قومی اتحاد حکومت کو مینڈیٹ ملا کہ وہ ابتدائی طور پر 300 ملین ڈالر اور پھر اگلے دو سالوں کے لیے 200 ملین ڈالر سالانہ اس خطے کی تعمیر نو کے لیے حصہ ڈالے گی۔
ایک ’’مشترکہ جائزہ مشن‘‘ دارفور کی تعمیرِ نو اور ترقی کی مخصوص ضروریات کا تعین کرنے کے لیے قائم کیا جانا تھا۔ ویسا ہی مشن جیسا کہ ’’جامع (شمال-جنوب) امن معاہدہ‘‘ کے بعد جنوب کی تعمیرِ نو کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
خطہ کے بے گھر افراد کے کیمپوں اور انسانی امداد کے راستوں کے اردگرد بفرزون (محفوظ علاقے) قائم کیے جانے تھے۔ ایک کمیشن قائم کیا گیا تاکہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مہاجرین اور بے گھر افراد کو ان کے گھروں میں واپس جانے میں مدد دی جا سکے۔
معاہدہ میں کہا گیا ہے کہ سوڈانی حکومت تنازع کے متاثرین کو 30 ملین ڈالر معاوضہ ادا کرے گی۔
(2) دوحہ معاہدہ 2011ء
2011ء کا دارفور امن معاہدہ، جو دوحہ معاہدہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جولائی 2011ء میں سوڈان کی حکومت اور لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدہ میں یہ امور شامل تھے:
دارفور تنازع کے متاثرین کے لیے ایک معاوضہ فنڈ قائم کیا گیا۔ سوڈان کے صدر کو دارفور سے ایک نائب صدر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایک نئی دارفور علاقائی اتھارٹی قائم کی گئی تاکہ جب تک ریفرنڈم کے ذریعے جمہوریہ سوڈان کے اندر اس کی مستقل حیثیت کا تعین نہ کر لیا جائے، اس خطے کی نگرانی کی جا سکے۔
معاہدہ نے قومی سطح پر اختیارات کی تقسیم کا بھی بندوبست کیا:
جو تحریکیں معاہدہ پر دستخط کریں گی وہ وفاقی سطح پر …… وزراء مملکت نامزد کرنے، اور قومی قانون ساز اسمبلی میں 20 ارکان نامزد کرنے کے قابل ہوں گی۔ تحریکیں دارفور کے علاقے میں دو ریاستی گورنر نامزد کرنے کی بھی حقدار ہوں گی۔
(3) جوبا معاہدہ 2020ء
31 اگست 2020ء کو عبوری حکومت سوڈان نے سوڈان لبریشن آرمی اور جسٹس اینڈ ایکویلیٹی موومنٹ کے ساتھ ایک جامع امن معاہدہ پر دستخط کیے۔
معاہدہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں سابق باغی گروہ پرامن ذرائع سے سوڈان میں جمہوریت کی بحالی کے عمل میں شامل ہوں گے۔
معاہدہ کی شرائط کے تحت دستخط کرنے والے دھڑے خودمختاری کونسل میں 3 نشستوں، عبوری کابینہ میں کل 5 وزراء، اور عبوری قانون ساز اسمبلی میں ایک چوتھائی نشستوں کے حقدار ہوں گے۔ علاقائی سطح پر دستخط کرنے والے اپنی آبائی ریاستوں یا خطوں کی عبوری قانون ساز اسمبلیوں میں 30 سے 40 فیصد نشستوں کے درمیان حقدار ہوں گے۔