کسی بھی جماعت، طبقہ یا قوم کی ترقی کے لیے اجتماعی سوچ، باہمی تعاون اور خود پسندی سے گریز بنیادی اوصاف ہوتے ہیں۔ جب افراد یا ادارے اس بات پر بہت زیادہ زور دیں کہ کسی کام کا سہرا ان کے سر ہی بندھنا چاہیے، یا دوسرے لفظوں میں اس کا کریڈٹ انہی کو ملنا چاہیے ، تو وہ اصل مقصد یعنی ترقی و فلاح اور مسائل کے حل کو بڑی حد تک پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ کاموں کے کریڈٹ لینے کی روش بظاہر معمولی سی چیز معلوم ہوتی ہے مگر اس کے دور رس اثرات ہوتے ہیں اور اس کے مضمرات اجتماعی مقاصد کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر جب یہ رویہ ناجائز طور پر اپنایا جائے یا ضرورت سے زیادہ عام ہو جائے تو یہ صرف باہمی تعلقات کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ قومی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ آئیے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کریڈٹ لینے کا مزاج قومی سوچ کی راہ میں حائل ہوتا ہے
جب کوئی فرد یا ادارہ یہ سوچنے لگے کہ صرف وہی نمایاں ہو اور کامیابی کا سہرا اُسی کے سر بندھے، تو اجتماعی سوچ دم توڑنے لگتی ہے۔ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ان کے افراد ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ کی سوچ اپناتے ہیں، کیونکہ کریڈٹ لینے کا مزاج افراد کو ذاتی طور پر مفاد پرست بنا دیتا ہے اور یوں قومی مفاد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ایک اجتماعی سوچ کو پنپنے کی راہ نہیں ملتی۔ قومی مفاد کے منصوبوں کے حوالے سے یہ رجحان عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ افراد یا ادارے اس بات کی فکر میں ہوتے ہیں کہ ان کا نام نمایاں ہو، بجائے اس کے کہ کام کی افادیت یا قومی ترقی کو اہمیت دی جائے۔ یہ مزاج قومی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے اور باہمی تعاون کی فضا ختم کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں بسا اوقات بڑے اور دیرپا فائدے والے منصوبے یا تو تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں یا ان کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔
ناحق کریڈٹ لینا رفقاء اور ہم عصروں میں بغض کا باعث بنتا ہے
جب کوئی شخص یا گروہ کسی اور کے کام یا کاوش کا کریڈٹ ناحق اپنے نام کر لیتا ہے، تو وہ افراد جنہوں نے اصل محنت کی ہوتی ہے، ان کے دل میں رنجش، بغض اور مایوسی جنم لیتی ہے۔ اس سے ٹیم ورک متاثر ہوتا ہے اور آئندہ تعاون کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ ناحق کریڈٹ لینا یا اپنے نام کو نمایاں کرنے کی کوشش کرنا رفقاء اور ہم عصروں میں بغض اور حسد کو جنم دیتا ہے۔ جب کوئی فرد دوسروں کی محنت کا پھل سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے یا اپنے معمولی کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، تو اس سے اس کے ساتھیوں میں ناراضگی اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویہ کام کی جگہ پر منفی ماحول پیدا کرتا ہے کیونکہ اس سے ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی بجائے عدمِ تعاون کا ماحول بنتا ہے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی نوبت بھی آجاتی ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی بھی ادارے یا گروہ میں ایسا سلسلہ اس کی کارکردگی کو بہت متاثر کرتا ہے۔
کریڈٹ یا ذات کو نمایاں کرنے کا مزاج حسد پیدا کرتا ہے
جب کوئی شخص بہت زیادہ اپنی تعریف کرتا ہے، اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، یا مسلسل توجہ کا مرکز بننے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ دوسروں میں حسد کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:
جب کوئی شخص اپنی قابلیت اور کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو ایسا کرنا سننے والوں کو یہ احساس دلا سکتا ہے کہ وہ خود کم تر یا ناکام ہیں۔
اپنی ذات یا کریڈٹ کو نمایاں کرنے کی کوشش بعض اوقات غرور یا تکبر کے طور پر دیکھی جاتی ہے، لوگ ایسے شخص سے ناپسندیدگی محسوس کرتے ہیں۔
سماجی محافل اور اجتماعات میں جب ایک شخص دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی لگاتار کوشش کرتا ہے اور اسے دکھاوے کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ عمل دیکھنے والوں کو چڑانے کا سبب بنتا ہے۔
اور جب دیکھنے والوں کو ایسا لگے کہ یہ شخص صرف اپنی تعریف کی وجہ سے زیادہ اہمیت حاصل کر رہا ہے نہ کہ اپنی اصل قابلیت کی وجہ سے، تو ان میں ناانصافی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
جب کریڈٹ نہ بننے کی صورت میں مفید منصوبے روک دیے جائیں
بسا اوقات افراد یا اداروں میں یہ سوچ جڑ پکڑ لیتی ہے کہ اگر اس کام میں ہمارا نام یا کریڈٹ نہیں ہے تو اسے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجتاً وہ اصلاحات یا منصوبے جو ادارے یا معاشرے کے لیے انتہائی فائدہ مند ہو سکتے تھے محض ذاتی مفاد کی بنیاد پر روک دیے جاتے ہیں۔ یعنی کریڈٹ کے حصول کا یہ مزاج اس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے کہ بسا اوقات ایسے مفید منصوبے یا کام چھپا لیے جاتے ہیں یا انہیں روک دیا جاتا ہے جن میں ذاتی یا طبقاتی کریڈٹ نہ بنتا ہو۔ یہ ایک نہایت افسوسناک صورتحال ہے جس میں قومی اور اجتماعی مفاد پر ذاتی انا اور مفاد حاوی ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہترین آئیڈیاز اور منصوبے دبے رہ جاتے ہیں اور ان سے جو فوائد متوقع ہوتے ہیں وہ حاصل نہیں ہو پاتے۔
دوسروں کے کاموں کی مخالفت صرف اس لیے تاکہ انہیں کریڈٹ نہ ملے
دوسروں کے کاموں کی مخالفت صرف اس لیے کرنا تاکہ انہیں کریڈٹ نہ ملے، ایک مضر رویہ ہے جو عموماً حسد، عدمِ تحفظ، یا کسی منصب کی خواہش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حسد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص دوسروں کی کامیابی برداشت نہیں کر پاتا اور چاہتا ہے کہ انہیں ان کی محنت کا صلہ نہ ملے۔ عدمِ تحفظ کے شکار افراد کو یہ خوف ہوتا ہے کہ دوسروں کی ترقی سے ان کی اپنی اہمیت کم ہو جائے گی، اس طرح اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے دوسروں کے کاموں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ اس منفی رویے کے نتائج سنگین ہوتے ہیں، جس شخص کے کاموں کی مخالفت کی جاتی ہے وہ ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی ذاتی کارکردگی کم ہوتی ہے۔ یہ رویہ ٹیم ورک اور باہمی تعاون کو متاثر کرتا ہے اور مجموعی طور پر کام کے ماحول کو خراب کرتا ہے جس سے تنازعات اور کشیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
کریڈٹ سمیٹنے کا مزاج دیگر ارکان میں کاہلی اور بیزاری پیدا کرتا ہے
جب کوئی ٹیم ممبر یا جماعتی رکن کسی منصوبہ یا کامیابی کا کریڈٹ خود سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ باقی ٹیم یا جماعت میں سستی اور لاتعلقی پیدا کرنے کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے ممبران یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل کسی اور کو مل رہا ہے تو ان کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی کوششوں کو سراہا نہیں جا رہا اور ان کی جائز پہچان نہیں بن رہی، اس احساس سے ان کے کام کرنے کی لگن اور جوش میں کمی آتی ہے، وہ سوچنے لگتے ہیں کہ جب کریڈٹ کسی اور کو ہی ملنا ہے تو اتنی محنت کرنے کا کیا فائدہ۔
چنانچہ اس صورتحال سے ذمہ داری کا احساس کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر کسی گروہ میں کوئی ایک فرد یا چند افراد ہمیشہ کریڈٹ لینے کے عادی ہوں تو باقی ٹیم ممبران غیر شعوری طور پر یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کریڈٹ تو آخرکار وہی لے لیں گے ۔ اس سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگتے ہیں اور کام کو لٹکانے یا مطلوبہ معیار سے کم پر کام کرنے کا رجحان اپنا لیتے ہیں۔
جبکہ ٹیم ورک اور باہمی تعاون کے لیے بھی یہ رویہ بہت نقصان دہ ہے کیونکہ جب کوئی ممبر صرف اپنے لیے کام کرتا ہے اور دوسروں کی شرکت کو نظر انداز کرتا ہے تو ٹیم کے اندر اعتماد اور ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ ممبران معلومات شیئر کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کی محنت کا کریڈٹ چھین لیا جائے گا، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اس سے ٹیم کے مجموعی اہداف متاثر ہوتے ہیں اور مقاصد یا منصوبہ پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اہلِ اختیار اور مناصب پر فائز افراد کا کریڈٹ میں کتنا حصہ ہے؟
کسی شعبہ یا طبقہ کے کرتا دھرتا افراد جب اپنے اختیارات اور حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے کاموں کا کریڈٹ خود لے لیتے ہیں، یا دوسروں کے کاموں میں اپنا کریڈٹ شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس سے اصل کام کرنے والوں کی حق تلفی ہوتی ہے، مثلاً:
- جب کوئی نئی پالیسی یا قانون بنایا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ایک طویل تحقیق، مشاورت، اور ٹیم ورک ہوتا ہے۔ مگر جب یہ قانون یا پالیسی منظور ہو جاتی ہے تو اس کا کریڈٹ اس عہدیدار یا وزیر کو مل جاتا ہے جس نے اسے پیش کیا ہوتا ہے، جبکہ اصل کام کرنے والی ٹیم پس پردہ ہی رہتی ہے۔
- ایسے عوامی منصوبے جن کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں کئی ماہرین اور رضاکار وغیرہ شامل ہوتے ہیں، ان کی تکمیل پر افتتاح کسی اعلیٰ عہدیدار سے کروایا جاتا ہے جو اس منصوبے کا زیادہ تر کریڈٹ سمیٹ لیتا ہے، حالانکہ اس نے محض فنڈز کی منظوری دی ہوتی ہے یا کسی حد تک اس کی نگرانی کی ہوتی ہے۔
- عہدیدار اپنے نام اور تصویر کے ساتھ تشہیری مہمات چلاتے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی سڑک یا ہسپتال کی تعمیر یا کسی عوامی منصوبہ کی تعمیرِ نو کے بعد وہاں لگائے گئے بورڈز پر اکثر کسی وزیر یا عہدیدار کا نام اور تصویر نمایاں ہوتی ہے حالانکہ ان کاموں کی فنڈنگ عوامی ٹیکس سے ہوتی ہے اور ان پر مختلف سطحوں پر کئی افراد نے کام کیا ہوتا ہے۔
- مختلف اداروں اور شعبوں کے عہدیداران اپنے خطابات میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ فلاں کام انہوں نے کروایا ہے یا فلاں مسئلے کا حل انہوں نے دیا، حالانکہ اس کے پیچھے دوسرے لوگوں کی تحقیق اور مشاورت کا دخل ہوتا ہے۔
- بعض اوقات اہلِ اختیار ان منصوبوں اور کامیابیوں پر انعامات اور اعزازات حاصل کرتے ہیں جن پر انہوں نے براہ راست کام نہیں کیا ہوتا بلکہ کسی ٹیم نے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہوتا ہے۔
اس کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو کسی منصوبے پر کام کرنے والے تمام افراد کو ان کی مہارت اور شمولیت کے اعتبار سے درجہ بدرجہ کریڈٹ دینا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، اس سلسلہ میں اگرچہ مختلف صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں مگر ایک سادہ حل یہ ہے کہ نگرانی اور فیصلے کا اختیار رکھنے والا عہدیدار اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم کا مجموعی طور پر ذکر کر کے اس کی اہمیت اجاگر کرے، اس منصوبہ میں اپنے کردار و حیثیت کا تذکرہ بقدرِ شمولیت کرے، نیز اپنے حصے کے کریڈٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے گریز کرے۔
کریڈٹ لینے کا مقصد آخر کیا ہوتا ہے؟
یہ سوال اہم ہے کہ افراد کریڈٹ کیوں لینا چاہتے ہیں؟ اس کے پیچھے کئی محرکات ہو سکتے ہیں:
بعض اوقات کریڈٹ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد پر ترقی، انعام، یا کوئی مالی فائدہ مل جائے گا۔
سماجی یا طبقاتی مرتبہ اور قوت میں اضافہ بھی اس کا محرک ہو سکتا ہے۔ اور کسی خاص گروہ، ادارے یا شعبے کے اندر اپنی اہمیت اور مقام کو مضبوط کرنا بھی ایک مقصد ہو سکتا ہے۔
دوسروں پر اپنی فوقیت دکھا کر ذاتی انا کی تسکین حاصل کرنا بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
بعض اوقات لوگ اپنے مقصد یا نظریے کو فروغ دینے کے لیے کریڈٹ لیتے ہیں تاکہ ان کے خیالات کو اہمیت دی جا سکے۔
یہ مقاصد بذاتِ خود شاید غلط نہ ہوں لیکن جب ان کے حصول کے لیے ناجائز طریقے اپنائے جائیں، یا ان کے سبب سے دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہوں، یا ان کے ذریعے جائز مقاصد اور فوائد کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو، تو یہ مسائل اور ناکامی کا باعث بنتے ہیں، اور یاد رہے کہ حقیقی کامیابی اس وقت آتی ہے جب کام کے نتائج انفرادی سے کہیں زیادہ اجتماعی فائدہ پہنچائیں ۔
کریڈٹ نہ لینے کا مزاج کس حوالے سے فائدہ مند ہے؟
ایسے افراد جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور کریڈٹ کی طلب نہیں رکھتے وہ عموماً زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ ذاتی منفعت کی فکر سے آزاد ہو کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کا کام اپنی افادیت ثابت کر دے تو پھر انہیں اس سلسلہ میں الگ سے کوششوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ایسے مزاج والے لوگ اپنے ادارے یا ماحول میں قدرتی طور پر دوسروں کے لیے اعتماد اور حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان سے کسی کو اپنا کریڈٹ چھن جانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ کریڈٹ نہ لینے کا مزاج عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے کیونکہ جب کوئی شخص اپنے کاموں کے کریڈٹ کی فکر کیے بغیر محض نیکی یا اجتماعی بھلائی کی نیت سے کام کرتا ہے تو اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز ایسا رویہ اجتماعی ذمہ داری کے احساس کو مضبوط کرتا ہے اور ٹیم ورک کو فروغ دیتا ہے۔
دوسروں کو جائز کریڈٹ دینے کا ثمرہ
جب کسی کے اچھے کام کو سراہا جاتا ہے اور اسے کھلے دل سے کریڈٹ دیا جاتا ہےتو وہ فرد یا ٹیم مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس سےحوصلہ افزائی ہوتی ہے، اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے، مقابلہ بازی کی مثبت فضا فروغ پاتی ہے، ٹیم ورک مضبوط ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ یہ کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور اخلاقی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ دوسروں کو ان کا جائز کریڈٹ دینے اور اس میں بخل نہ دکھانے سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلاً اس سے ممبران کو مزید بہتر کارکردگی دکھانے کا حوصلہ ملتا ہے، باہمی اعتماد اور احترام کی فضا قائم ہوتی ہے، اور سب سے اہم بات کہ باصلاحیت افراد کی نشاندہی ہوتی ہے اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے، جس کا ظاہر ہے کہ پورے منصوبہ کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اگر جائز کریڈٹ دینے سے منفی نتیجہ نکلے تو کیا کریں؟
بعض اوقات کسی کو کریڈٹ دینا عملی مسائل پیدا کر سکتا ہے، مثلاً کسی گروہ میں اختلاف، حسد، یا طاقت کے عدمِ توازن کی صورتحال کا احتمال ہونا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو جائز کریڈٹ دینے سے غیر مفید نتیجہ نکلتا ہو، مثلاً وہ شخص مغرور ہو جائے یا اس کریڈٹ کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگے۔ ایسی صورتحال میں حکمتِ عملی اپنانا اور سمجھداری سے کام لینا ضروری ہو جاتا ہے، مثلاً :
اگر کریڈٹ دینا ضروری ہو تو اس کے ساتھ ہی ذمہ داریوں اور مزید بہتر کارکردگی کی توقعات کو بھی واضح کیا جائے تاکہ اسے احساس ہو کہ یہ محض ستائش نہیں بلکہ مزید محنت کی تلقین ہے۔
کریڈٹ لینے والے فرد کے سامنے کام کی نوعیت اور اس کے اجتماعی فائدے کو زیادہ اجاگر کیا جائے تاکہ وہ کام کی اصل روح کو سمجھے۔
اگر کریڈٹ کی شہرت اس شخص کے لیے نقصان دہ ہو تو اس کی بجائے انعام وغیرہ کی صورت میں حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی فرد مطلوبہ کام اکیلے طور پر کر سکتا ہے لیکن احتمال ہے کہ وہ اس کے کریڈٹ کو سنبھال نہیں سکے گا، تو اس صورت میں اس کے کام کو بعض باقی ممبران میں تقسیم کر کے ذاتی کریڈٹ کو ٹیم کریڈٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
حاصل
کریڈٹ لینا بذاتِ خود کوئی منفی عمل نہیں مگر اس کی خواہش کا حد سے تجاوز کرنا، ناحق کریڈٹ لینا، یا دوسروں کی محنت کو دبانا اور چھپانا ایسے رجحانات ہیں جو افراد، اداروں اور قوموں کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگر ہم خلوصِ نیت سے کام کریں، دوسروں کی کاوشوں کو تسلیم کریں، اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اجتماعی فائدے کو ترجیح دیں، تو ہم ایک بہتر، مربوط اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ کریڈٹ لینے کا مزاج انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن اس کی زیادتی اور غلط استعمال معاشرتی اور اخلاقی پستی کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھانا چاہیے جو کام کی افادیت کو ذاتی کریڈٹ پر فوقیت دے۔ جب ہم سب اپنے کاموں کو دیانتداری، اخلاص اور باہمی تعاون کے ساتھ انجام دیں گے تو نہ صرف ذاتی ترقی ممکن ہو گی بلکہ قومی اور اجتماعی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوں گی۔ موقع بے موقع خود کریڈٹ لینے اور دوسروں کو جائز کریڈٹ سے محروم کرنے کا رجحان و مزاج کسی بھی جماعت، گروہ یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے مضر ہے، اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔