امینہ اَسِلمی کون تھیں؟

By admin, 16 February, 2025

امینہ اَسِلمی (پیدائشی نام جینس ہَف (Janice Huff) — 1945ء تا 5 مارچ 2010ء) ایک امریکی مسلم راہنما، ایمی ایوارڈ یافتہ براڈکاسٹر، مقرر، اور ’’انٹرنیشنل یونین آف مسلم وومن‘‘ کی ڈائریکٹر تھیں۔ انہیں 2009ء میں عمان (اردن) میں قائم ’’رائل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر‘‘ کی جانب سے دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔

اپنی بین الاقوامی تقاریر میں وہ عموماً‌ اسلام میں خواتین کی حیثیت پر گفتگو کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے ستمبر 2001ء میں امریکی پوسٹل سروس کی جانب سے عید کا ٹکٹ جاری کرانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا، جو کہ امریکی تاریخ میں کسی اسلامی تہوار کی یاد میں پہلا ٹکٹ تھا۔ امینہ اَسِلمی اسلامی قانون کے بنیادی مآخذ کی رو سے خواتین کے حقوق کی وکالت کرتی تھیں۔ ’’انٹرنیشنل یونین آف مسلم وومن‘‘ کی سیکرٹری خزانچی نادیہ بیکون سے اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل گفتگو میں اَسِلمی نے کہا:

’’میں ’حقوقِ نسواں‘ کی علمبردار نہیں ہوں۔ میں اپنے اسلام کو جانتی ہوں۔‘‘

ابتدائی زندگی اور قبولِ اسلام

کولوراڈو میں 21 مئی 1977ء کو اسلام قبول کرنے سے پہلے اَسِلمی کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں، سوائے اس کے کہ وہ اوکلاہوما میں پیدا ہوئیں، جنوب کی ایک بیپٹیسٹ کی حیثیت سے پرورش پائی، اور امریکی حقوقِ نسواں تحریک کا بھی حصہ تھیں۔ ان کے پاس تعلیم، براڈکاسٹنگ اور کمیونیکیشن میں ڈگریاں تھیں اور انہوں نے 1960ء کی دہائی کے آخر یا 1970ء کی دہائی کے اوائل میں کچھ گھریلو گاڑیوں کے اشتہارات میں ایک ماڈل کے طور پر مختصر وقت کے لیے کام کیا۔

اَسِلمی 1975ء کے دوران کالج میں ایک تھیٹر کلاس میں شرکت کے دوران پہلی بار مسلمانوں سے ملی تھیں جہاں متعدد مسلم طلباء بھی زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے یہ کورس چھوڑ دیا کیونکہ وہ انہیں ’’کافر‘‘ سمجھتی تھیں، لیکن اپنے خاوند کی حوصلہ افزائی پر انہوں نے یہ کورس جاری رکھا۔ مسلم طلباء کو عیسائی بنانے کی انہوں نے بہت کوششیں کیں۔ بشمول ایک کوشش کے جس میں وہ، اپنے ایک لیکچر کے مطابق، بھڑکیلی پتلون میں شراب کا گلاس لیے ان طلباء کے پاس گئیں لیکن انہوں نے شائستگی سے انکار کر دیا۔ اضطراب میں انہوں نے طلباء سے ان کی مقدس کتاب طلب کی جو انہوں نے فراہم کر دی۔ پھر قرآن کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں دیگر کتابیں پڑھنے کے بعد انہوں نے یہ مذہب قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

حجاب

اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد اَسِلمی نے حجاب اپنا لیا۔ اس کے باوجود کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو کہا تھا کہ

’’میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، لیکن میں کبھی اپنے بال نہیں ڈھانپوں گی اور اگر میرے شوہر نے دوسری شادی کی تو میں اسے خصی کر دوں گی۔‘‘

سر ڈھانپنے کے نتیجے میں وہ فوراً‌ ہی ریڈیو براڈکاسٹر کی ملازمت سے فارغ کر دی گئیں۔ انہوں نے نقاب پہننے کا تجربہ بھی کیا لیکن انہیں یہ بہت مشکل محسوس ہوا اس لیے وہ اسے جاری نہ رکھ سکیں۔ ایک موقع پر جب انہوں نے اپنا چہرہ ڈھانپ کر چیک کیش کرانے کی کوشش کی تو ایک بینک گارڈ نے ان پر بندوق تان دی تھی۔

اپنے لیکچرز میں وہ اکثر خواتین کے اسلامی لباس کے بارے میں ہراساں ہونے اور اس سلسلہ میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے بارے میں بات کرتی تھیں۔

مسلم کمیونٹی میں سرگرمیاں

اَسِلمی ایک پرجوش مقرر اور مسلم خواتین کے حقوق کی وکیل کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے کالج کیمپسز میں اور ریاستہائے متحدہ کے علاوہ دنیا بھر میں مسلم نوجوانوں کے پروگراموں میں لیکچرز دیے ہیں۔ انہوں نے 2004ء میں بارسلونا (اسپین) میں ’’دی کونسل فار دی پارلیمنٹ آف ورلڈز ریلیجنز‘‘ کی کانفرنس میں بھی خطاب کیا۔

انہوں نے 1980ء میں ’’انٹرنیشنل یونین آف مسلم وومن‘‘ کی امریکی شاخ کے قیام میں مدد کی۔ دیگر شاخیں، جن میں سے ایک پاکستان میں تھی اور کچھ دیگر مسلم ممالک میں، حکومتی پابندیوں یا دباؤ کی وجہ سے بند ہو گئیں۔ ان کی وفات کے وقت IUMW کا صرف امریکی مرکز کام کر رہا تھا۔

1993ء میں جب ’’بوسنیا ٹاسک فورس یو ایس اے‘‘ نے خواتین کی عصمت دری کو جنگی جرائم میں شامل کرنے کے لیے کامیاب مہم کا آغاز کیا تو امینہ اَسِلمی نے ’’نیشنل آرگنائزیشن آف ویمن‘‘ (NOW) کو اس میں شمولیت دلوانے کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے 20 دسمبر 1993ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں اس کی تصدیق کی گئی۔ اس میں ان جرائم کے مقدمے چلانے کے لیے ایک بین الاقوامی ٹریبونل کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایک براڈکاسٹر کے طور پر میڈیا کی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی مسلمان ہونے کے بعد بھی برقرار رہی۔ وہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں ساؤنڈ ویژن، ریڈیو اسلام، اور اِثنا ویژن سمیت مختلف مسلم میڈیا سرگرمیوں میں شامل رہیں۔

عید کا ڈاک ٹکٹ

اَسِلمی نے ستمبر 2001ء میں ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس پوسٹل سروس‘‘ کی جانب سے عید کی چھٹی کی یاد میں ایک ٹکٹ جاری کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نیواڈا ریاست کے ایلیمنٹری اسکول کے طالب علم محب بیکون کی، جنہوں نے یہ خیال پیش کیا تھا، پوسٹ ماسٹر جنرل کے نام خطوط، ای میلز، فون کالز، درخواست اور پوسٹ کارڈز کے ذریعے ایک ملک گیر مہم شروع کرنے میں مدد کی۔

عید کا یہ ٹکٹ امریکی تاریخ میں پہلا ٹکٹ ہے جو کسی اسلامی تعطیل کو تسلیم کرتا ہے۔ امریکی مسلمان خطاط محمد زکریا کے ڈیزائن کردہ اس ٹکٹ میں گہرے نیلے پس منظر پر سنہری حروف میں ترکی طرز کی خطاطی کے ساتھ عربی میں ’’عید مبارک‘‘ لکھا ہوا ہے۔ انگریزی لفظ EID خطاطی کے اوپر جبکہ GREETINGS خطاطی کے نیچے درج ہے۔

شادی اور بچے

اَسِلمی نے چار بار شادی کی، دو بار اسلام قبول کرنے سے پہلے اور دو بار بعد میں۔ ان کی بیٹی عنبر ان کی پہلی شادی سے، بیٹا وٹنی ان کی دوسری سے، اور بیٹا محمد ان کی تیسری شادی سے پیدا ہوئے۔

بیماری اور وفات

اَسِلمی ہڈیوں کے کینسر کے علاوہ میلانوما کے انتہائی مرحلے سے صحتیاب ہوئیں۔ ایک موقع پر وہ وہیل چیئر پر آگئیں، تاہم وہ بعد میں صحتیاب ہو کر دوبارہ چلنے کے قابل ہو گئیں۔ اَسِلمی نے دو بار حج کیا جن میں سے ایک وہیل چیئر پر تھا۔ ایک حج میں وہ سعودی عرب کے بادشاہ کی خصوصی مہمان تھیں اور کعبہ کے قریب ان کے محل میں قیام کیا۔

امینہ اَسِلمی جمعہ 5 مارچ 2010ء کو تقریباً 3:30 بجے نیوپورٹ، ٹینیسی کے بیرون میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں، جہاں وہ تقریباً ایک سال سے رہ رہی تھیں۔ اَسِلمی نیویارک میں ایک تقریر سے واپس آ رہی تھیں جب یہ حادثہ پیش آیا۔ ان کا بیٹا محمد بھی ان کے ساتھ گاڑی میں تھا جو زخمی ہوا لیکن بچ گیا۔

ان کی نماز جنازہ اگلے روز اسلامک سینٹر آف ناکس ول، ٹینیسی میں ہوئی اور تقریباً 100 مسلمانوں نے شرکت کی، جہاں ان کے تمام بچے اور ان کا ایک نواسہ بھی موجود تھا۔

اپنی وفات کے وقت وہ ایک مرکز قائم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی تھیں جو مسلم خواتین کو ان کے اسلامی حقوق سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے اعتکاف اور کیمپوں کی میزبانی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے۔

اَسِلمی اپنی بیٹی عنبر اور اپنے بیٹوں وٹنی اور محمد کے ساتھ ساتھ کئی نواسے نواسیوں کو سوگوار چھوڑ گئیں۔

www.soundvision.com