بین الاقوامی معاہدے جنہیں کنونشنز، ٹریٹیز اور اکارڈز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دو یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان سمجھوتے ہیں جو کسی خاص معاملے میں قانونی دستاویزات کا کام دیتے ہیں۔ یہ معاہدے بین الاقوامی تعلقات کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں اور ممالک کے لیے متفقہ بین الاقوامی معیارات قائم کرتے ہیں، ایسے معیارات جو بین الاقوامی قانون کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔
اس تحریر میں بین الاقوامی معاہدوں کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ان کی تشکیل، نوعیت اور عملداری کے تقاضوں پر بات کی گئی ہے۔
تعریف اور دائرہ کار
’’دو طرفہ معاہدے‘‘ ایسے سمجھوتے ہیں جن میں دو ممالک کے درمیان باہمی مسائل کے حوالے سے امور پر اتفاق کیا گیا ہو۔ جبکہ ’’ کثیر الجہتی معاہدے‘‘ متعدد ممالک کے درمیان مختلف شعبوں کے حوالے سے طے پانے والے سمجھوتے ہیں جو اکثر بین الاقوامی تنظیموں کے زیراہتمام تشکیل پاتے ہیں۔
بین الاقوامی معاہدوں کا مقصد باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کے لیے قانونی فریم ورک قائم کرنا ہے۔ یہ معاہدے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے ہو سکتے ہیں:
- سرحدوں کو محفوظ بنانا، جنگوں کو روکنا اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنا۔
- کرۂ ارضی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانا۔
- انسانی حقوق کی آگاہی و فروغ اور ان کی خلاف ورزی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔
- بین الاقوامی تجارت کے سلسلہ میں باہمی تعاون و اشتراک کا ماحول قائم کرنا۔
- اور ان جیسے دیگر عالمی مسائل پر ممالک کے باہمی افہام و تفہیم اور تعاون کو یقینی بنانا۔
تعداد کیا ہے؟
یہ بتانا بہت مشکل ہے جس کی وجوہات یہ ہیں:
- دو طرفہ (دو ممالک کے درمیان) اور کثیر الجہتی (متعدد ممالک کے درمیان) معاہدوں کی بے شمار تعداد موجود ہے۔ یہ معاہدے تجارت اور انسانی حقوق سے لے کر ماحولیاتی تحفظ اور ڈاک کی خدمات تک بہت سے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔
- اسی طرح ایگریمنٹ، کنونشن، اور ٹریٹی کی اصطلاحات کے معنی تھوڑے مختلف ہو سکتے ہیں جس سے ان کی درجہ بندی اور شمار مشکل ہو جاتا ہے۔
- اگرچہ اقوام متحدہ جیسی تنظیمیں بہت سے کثیر الجہتی معاہدوں کا ریکارڈ رکھتی ہیں لیکن تمام معاہدے ان کے پاس بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ البتہ اقوام متحدہ کے قانونی امور کے دفتر کے تحت 560 سے زائد کثیرالجہتی معاہدوں کا ریکارڈ موجود ہے اور اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے 250,000 معاہدات اور معاہداتی اقدامات کے بارے میں معلومات تک رسائی مہیا کی ہے۔ بہت سے ممالک اور تنظیموں کے پاس معاہدات کے اپنے ذخیرے موجود ہیں۔
اس لیے اگرچہ کوئی درست تعداد نہیں بتائی جا سکتی لیکن اندازہ یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں۔
تشکیل کے مراحل
ایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے:
(1) مذاکرات
ابتدائی مرحلے میں فریقین (شریک ریاستوں) کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک یا بین الاقوامی تنظیموں کے مذاکرات کار معاہدے کی شرائط کا مسودہ تیار کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ مہینوں یا سالوں تک جاری رہ سکتا ہے، خاص طور پر بین الاقوامی تجارت یا ماحولیاتی ضوابط جیسے پیچیدہ مسائل کے سلسلہ میں ممالک کے درمیان کئی سطحوں پر تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور سرگرمیاں جاری رہ سکتی ہیں۔
(2) منظوری
فریقین جب مسودہ پر اتفاق کر لیتے ہیں تو اسے باقاعدہ منظور کیا جاتا ہے۔ جبکہ زیادہ ممالک کی شراکت کی صورت میں عموماً کسی بین الاقوامی کانفرنس یا اقوام متحدہ جیسی بڑی تنظیم کے زیر اہتمام ایسے مسودات کی منظوری ہوتی ہے۔
(3) دستخط
منظوری کے بعد فریقین اس مسودہ پر دستخط کر سکتے ہیں۔ یہ دستخط کسی فریق کا یہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدہ کا پابند ہونا چاہتا ہے، لیکن صرف دستخط سے وہ قانونی طور پر اس کا پابند نہیں ہوتا۔
(4) توثیق
قانونی طور پر معاہدہ کا پابند ہونے کے لیے ملک کو اس کی توثیق کرنی ہوتی ہے۔ ایسی توثیق سے پہلے عموماً ملک اپنے ملک میں رائے عامہ کا اعتماد حاصل کرتا ہے جیسا کہ پارلیمنٹ سے منظوری کی صورت میں۔ معاہدہ کی توثیق کے بعد ملک قانونی طور پر اس کا پابند سمجھا جاتا ہے۔
(5) نفاذ
توثیق کرنے کے بعد وہ ملک حسبِ ضرورت اپنے ملک کے قانونی و سیاسی نظام کو اس بین الاقوامی معاہدہ کے ہم آہنگ بناتا ہے۔
(6) عملدرآمد کی نگرانی
بہت سے بین الاقوامی معاہدات میں نگرانی کا طریق کار اور نظم بھی شامل ہوتا ہے کہ آیا معاہدہ میں شریک ملک اس پر عملدرآمد کا مؤثر طور پر انتظام کر رہا ہے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں جو معاہدہ کی خلاف ورزی کی رپورٹ جاری کرتی ہیں اور عملدرآمد کے لیے اقدامات تجویز کرتی ہیں۔
نوعیت اور مثالیں
یہاں چند ایسے بین الاقوامی معاہدوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو عالمی سطح پر زیادہ نمایاں ہیں اور ان پر وسیع پیمانے پر عملدرآمد ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ
The Universal Declaration of Human Rights (1948)
یہ اہم دستاویز ہے جس نے انسانی حقوق کے لیے ایک مشترکہ معیار قائم کیا ہے۔ اس میں بنیادی حقوق اور آزادیوں کا ذکر ہے جیسے کہ زندگی کا حق، آزادئ اظہارِ رائے، تعلیم اور انصاف وغیرہ۔ یہ اعلامیہ کسی بھی ملک یا شخص کے ساتھ نسل، مذہب، یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مخالفت کرتا ہے۔
جنیوا کنونشنز
The Geneva Conventions (1949)
یہ چار معاہدوں اور تین پروٹوکولز کا مجموعہ ہے جو جنگ کے دوران انسانی سلوک کے بنیادی اصول طے کرتے ہیں۔ یہ معاہدے جنگ میں شامل نہ ہونے والوں جیسے کہ زخمی فوجیوں، جنگی قیدیوں، طبی عملے اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا مقصد جنگ کے دوران ہونے والی اذیتوں اور غیر انسانی سلوک کو روکنا ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم کے تعین میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام ممالک کے لیے ان کنونشنز کی پابندی ضروری ہے۔
شہری اور سیاسی حقوق کا معاہدہ
The International Covenant on Civil and Political Rights (1966)
یہ معاہدہ دنیا بھر کے انسانوں کے بنیادی شہری اور سیاسی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے ہے جیسے کہ زندگی کا حق، آزادئ اظہارِ رائے، مذہبی آزادی، منصفانہ مقدمے کا حق، اور ووٹ ڈالنے کا حق وغیرہ۔ یہ معاہدہ حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے ان حقوق کا احترام کریں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ یہ نسل، مذہب، جنس، یا سیاسی رائے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ یہ انسانی حقوق کے عالمی قانون کا ایک اہم حصہ ہے اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے گائیڈ لائن کا کام دیتا ہے، اور اس کے تحت ملکوں کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں۔
انسانی حقوق پر یورپی کنونشن
The European Convention on Human Rights (1950)
علاقائی بین الاقوامی معاہدہ جو یورپ میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ معاہدہ یورپی کونسل کے رکن ممالک کے درمیان طے پایا اور اس کا مقصد زندگی کا حق، آزادئ اظہارِ رائے، منصفانہ مقدمے کا حق، اور نجی زندگی کے احترام جیسے بنیادی حقوق فراہم کرنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یورپی عدالت برائے انسانی حقوق قائم کی گئی ہے جو حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے شکایات سنتی ہے۔ یہ کنونشن یورپ میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم قانونی دستاویز ہے اور اس نے خطے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
افریقی یونین کے معاہدے
African Charter on Human and Peoples’ Rights (1981)
’’افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق‘‘ افریقی یونین کے رکن ممالک کے درمیان طے پانے والا ایک اہم معاہدہ ہے جو افریقہ میں انسانی حقوق اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اس میں زندگی کا حق، آزادئ اظہارِ رائے، منصفانہ مقدمے کا حق، تعلیم، ترقی، خود مختاری، اور امن و سلامتی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ چارٹر افریقی انسانی اور عوامی حقوق کی عدالت کے قیام کا بھی سبب بنا جو افراد اور ریاستوں کی شکایات سنتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مقدمات کے فیصلے کرتی ہے۔ یہ افریقہ میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک بنیادی دستاویز ہے۔
اقوام متحدہ کا سمندری قانون پر کنونشن
The United Nations Convention on the Law of the Sea (UNCLOS, 1982)
بین الاقوامی معاہدہ جو سمندروں اور سمندری وسائل کے استعمال کے حوالے سے ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حدود، اقتصادی زون، جہاز رانی کے حقوق، سمندری ماحول کے تحفظ، سمندری سائنسی تحقیق، اور سمندری وسائل کے منصفانہ استعمال کے اصول طے کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ کنونشن سمندروں میں امن قائم کرنے اور سمندری تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اسے دنیا بھر کے ممالک کے لیے سمندری سرگرمیوں کو منظم کرنے اور سمندری وسائل کے پائیدار استعمال کو یقینی بنانے کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
حیاتیاتی تنوع پر کنونشن
The Convention on Biological Diversity (1992)
بین الاقوامی معاہدہ جس کا مقصد زمین پر موجود مختلف جانداروں اور ان کے ماحولیاتی نظاموں کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ معاہدہ تین اہم مقاصد پر توجہ مرکوز کرتا ہے: حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، حیاتیاتی وسائل کا پائیدار استعمال، اور جینیاتی وسائل سے حاصل ہونے والے فوائد کی منصفانہ تقسیم۔ یہ ممالک کو اس حوالے سے پابند کرتا ہے اور دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک اہم قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
کیوٹو پروٹوکول
The Kyoto Protocol (1997)
یہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ ایسی گیسوں کے اخراج سے زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ کیوٹو پروٹوکول نے خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کو پابند کیا کہ وہ ایسی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
پیرس معاہدہ
The Paris Agreement (2015)
بین الاقوامی معاہدہ جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنا ہے، اور 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ معاہدہ تمام ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے قومی سطح پر طے ہونے والے منصوبے سامنے لائیں۔ یہ معاہدہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔ پیرس معاہدہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔
چیلنجز اور مخالفت
اگرچہ بین الاقوامی معاہدے عالمی تعلقات کو تشکیل دینے اور بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن مختلف حوالوں سے انہیں چیلنجز کا سامنا رہتا ہے جو ان معاہدوں کے دائرہ اثر کو محدود کرتے ہیں:
- بہت سے معاہدوں کے مؤثر نفاذ کے لیے ملکوں کا طریقہ کار کمزور ہوتا ہے جس سے عملداری کو یقینی بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے کے لیے کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں لیکن عموماً ان کے پاس ممالک کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرنے کا اختیار یا ذرائع نہیں ہوتے۔
- بعض ممالک میں بین الاقوامی معاہدوں کو قومی رجحانات اور ترجیحات کے مخالف سمجھا جاتا ہے اور ان پر عملدرآمد کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ چنانچہ ایسے ممالک معاہدوں پر ابتدائی طور پر دستخط کرنے کے بعد ان سے دستبردار ہو سکتے ہیں، یا معاہدوں کی توثیق نہ کرنے کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
- ملکی نظام، سیاسی نظریات ، یا معاشی مفادات کے حوالے سے مختلف رجحانات رکھنے والے ممالک کو معاہدوں کی شرائط پر عملداری کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پذیر ممالک ایسے ماحولیاتی یا تجارتی معاہدوں کی مزاحمت کر سکتے ہیں جو ان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہوں۔ اسی طرح بڑی طاقتیں ان معاہدوں کے قومی مفادات سے متصادم ہونے کی صورت میں ان پر دستخط نہ کرنے یا ان کی پرواہ نہ کرنے کا طرزعمل اختیار کر سکتی ہیں۔
مستقبل کا منظر
چونکہ دنیا تیزی سے باہم مربوط ہوتی جا رہی ہے چنانچہ نئے بین الاقوامی معاہدے بھی تشکیل پا رہے ہیں اور پہلے سے موجود معاہدوں کا دائرہ اثر بھی بڑھ رہا ہے۔ خصوصاً موسمیاتی تبدیلی، سائبر سیکیورٹی، بین الاقوامی امن، اور عالمی صحت جیسے مسائل آنے والے بین الاقوامی معاہدوں کا خاص موضوع نظر آتے ہیں۔
عالمی برادری کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ ان بین الاقوامی معاہدات کو تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول بناتے ہوئے ان پر دیرپا اور مؤثر عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ بین الاقوامی معاہدے دنیا کو عالمی طور پر منظم کرنے کے حوالے سے ضروری ہیں اور ممالک کو بین الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے ملکی سرحدوں سے ماورا مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ بہرحال بین الاقوامی معاہدوں کی کامیابی کا انحصار ممالک کے سیاسی رجحانات، نفاذ کے مؤثر طریقہ کار، اور وسیع پیمانے پر باہمی تعاون جیسے عوامل پر ہے۔