7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد اسرائیلی فلسطینی تنازعہ ایک بار پھر بھڑک اٹھا۔ جوابی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، جو کہ حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی علاقہ ہے، پر فضائی حملوں اور مکمل محاصرے کا حکم دیا۔ یہ اس تنازعے کا ایک نیا مہلک باب ہے جس کی جڑیں بیسویں صدی کے وسط میں پیوست ہیں۔ فرانس24 اس کی تاریخ کا جائزہ لیتا ہے:
1947ء
ہزاروں یورپی یہودی مہاجرین، جن میں سے بہت سے ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے تھے، اس وقت کے برطانوی زیرِ انتظام فلسطین کے لیے روانہ ہونے والے ایک بحری جہاز پر سوار ہوئے، جسے بعد میں ’’ایکسوڈس 1947ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ ’’وعدہ شدہ سرزمین‘‘ کی طرف جاتے ہوئے انہیں برطانوی بحری جہازوں نے روکا اور واپس یورپ بھیج دیا گیا۔ میڈیا کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوریج کی وجہ سے اس واقعے نے بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا کیا اور برطانیہ کو یہ یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا کہ فلسطین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی کی مدد سے حل ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس میں فلسطین کا 56.47 فیصد حصہ یہودی ریاست کے لیے، اور 43.53 فیصد عرب ریاست کے لیے تجویز کیا گیا۔ فلسطینی نمائندوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا، لیکن ان کے مدمقابل یہودیوں نے اسے قبول کر لیا۔
29 نومبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس منصوبے کی منظوری دی، 33 ممالک تقسیم کے حق میں تھے، 13 اس کے خلاف، اور 10 نے غیر جانبداری اختیار کی۔
1948ء - 1949ء
14 مئی کو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریئن نے عوامی طور پر اعلانِ آزادی پڑھا۔ یہ اعلان، جو اگلے دن نافذ ہونا تھا، فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے سے ایک دن پہلے ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، یہودی ریاست نے مینڈیٹ فلسطین کے 77 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔
فلسطینیوں کے لیے، یہ تاریخ ’’نکبہ‘‘ یعنی تباہی کے طور پر یاد کی جاتی ہے جو ان کی بعد میں ہونے والی نقل مکانی اور وطن سے محرومی کا پیش خیمہ ہے۔
دیر یاسین جیسے دیہات میں قتل عام کی خبریں سن کر لاکھوں فلسطینی مصر، لبنان اور اردن کے علاقے کی طرف بھاگے تو مصر، شام، لبنان، اردن اور عراق کی فوجوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس سے 1948ء کی عرب-اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔
عرب فوجوں کو پسپا کر دیا گیا، جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، اور نئی سرحدیں کھینچی گئیں جو اسرائیل کے لیے زیادہ سازگار تھیں۔ مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں، جبکہ غزہ کی پٹی مصر کے کنٹرول میں آگئی۔
1956ء
مصر کی جانب سے نہر سویز کو قومیانے کے بعد دوسری عرب-اسرائیل جنگ، یا سویز بحران پیش آیا۔ جواب میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے اتحاد قائم کیا اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں امریکی اور سوویت یونین کے دباؤ کے تحت اسرائیلی فوج نے اپنے دستے واپس بلا لیے۔
1959ء
یاسر عرفات نے غزہ اور کویت میں فلسطینی تنظیم ’’فتح‘‘ قائم کی۔ یہ بعد میں ’’فلسطین لبریشن آرمی‘‘ (PLO) کا مرکزی حصہ بن گئی۔
1964ء
فلسطین لبریشن آرمی (PLO) قائم ہوئی۔
1967ء
اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایہ ممالک کے درمیان تیسری عرب-اسرائیل جنگ، یا چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے نقشے کی ڈرامائی طور پر نئی تشکیل ہوئی۔ اسرائیل نے (اردن سے) مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم، (مصر سے) غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینائی، (شام سے) گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔
1973ء
6 اکتوبر کو یہودی تہوار یومِ کپور کے دوران مصری اور شامی فوجوں نے اسرائیل کے خلاف حملے شروع کیے جس سے ایک نئی علاقائی جنگ کا آغاز ہوا۔ یومِ کپور جنگ، جو 19 دن بعد اسرائیل کے عرب فوجوں کو پسپا کرنے کے ساتھ ختم ہوئی، اور کئی ہزار اموات کے ساتھ تمام فریقوں کے لیے بھاری جانی نقصان کا باعث بنی۔
1979ء
مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان 1978ء میں دستخط کیے گئے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد واشنگٹن میں ایک اسرائیلی-مصری امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کی شرائط کے مطابق مصر نے جزیرہ نما سینائی دوبارہ حاصل کر لیا، جو اس نے چھ روزہ جنگ میں کھو دیا تھا۔ سادات اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے والے پہلے عرب رہنما بن گئے۔
1982ء
وزیر دفاع ایریل شیرون کے تحت اسرائیلی فوج نے ’’آپریشن پیس آف گلیلی‘‘ نامی ایک متنازع فوجی مشن میں ہمسایہ ملک لبنان پر دھاوا بول دیا۔ اس آپریشن کا مقصد جنوبی لبنان میں فلسطینی گوریلا اڈوں کو ختم کرنا تھا۔ لیکن اسرائیلی فوجیں لبنانی دارالحکومت بیروت تک پہنچ گئیں۔
عرفات کے تحت فلسطین لبریشن آرمی (PLO) کی بعد ازاں پسپائی نے لبنان میں فلسطینی مہاجر کیمپوں کو غیر محفوظ چھوڑ دیا۔ 16 سے 18 ستمبر تک، لبنانی عیسائی فالانجسٹ ملیشیا، جن کے اسرائیل سے تعلقات تھے، بیروت میں صبرا اور شتیلا کے کیمپوں میں داخل ہوئے، جس سے ایک وحشیانہ قتل عام ہوا جس نے بین الاقوامی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس قتل عام کی اسرائیلی تحقیقات ہوئیں جسے عام طور پر کاہانے کمیشن کہا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں شیرون کو وزیر دفاع کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔
1987ء
غزہ میں فلسطینی مہاجر کیمپوں میں بغاوتیں مغربی کنارے تک پھیل گئیں، جس سے پہلی فلسطینی انتفاضہ (بغاوت) کا آغاز ہوا۔ ’’پتھروں کی جنگ‘‘ کے نام سے مشہور پہلی انتفاضہ 1993ء تک جاری رہی، جس میں 1000 سے زائد فلسطینی جان سے گئے۔ پتھر پھینکنے والے فلسطینی مظاہرین کی اسرائیل کی فوجی طاقت کے خلاف تصویر فلسطینی جدوجہد کی علامت بن گئی۔
اسی بغاوت کے دوران مصر کی اخوان المسلمون کی نظریاتی سوچ سے متاثر ہو کر ’’حماس‘‘ بھی وجود میں آئی۔ شروع سے ہی اس اسلامی تحریک نے مسلح جدوجہد کو ترجیح دی اور اسرائیلی ریاست کی کسی بھی قانونی حیثیت کو یکسر مسترد کر دیا۔
1993ء
مہینوں کی خفیہ بات چیت کے بعد، یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن نے ’’اوسلو معاہدے‘‘ پر دستخط کیے۔ ان معاہدوں کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا، جسے مغربی کنارے اور غزہ کا انتظامی کنٹرول ملا۔ 13 ستمبر کو وائٹ ہاؤس کے لان میں عرفات اور رابن نے امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں تاریخی مصافحہ کیا۔ اس واقعے کو دنیا بھر میں 400 ملین سے زائد ٹی وی ناظرین نے دیکھا۔
1995ء
4 نومبر کو رابن کو تل ابیب میں امن ریلی میں ایک یہودی دائیں بازو کے انتہا پسند نے قتل کر دیا۔
1996ء
بنیامین نیتن یاہو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
2000ء
28 ستمبر کو، شیرون نے دائیں بازو کی ’’لیکوڈ‘‘ پارٹی کے رہنما کے طور پر یروشلم کے الاقصیٰ مقام کا دورہ کر کے فلسطینیوں کو اشتعال دلایا، جس سے دوسری انتفاضہ شروع ہوئی جسے ’’الاقصیٰ انتفاضہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ 2005ء تک جاری رہی جس میں پانچ سالوں میں 3000 فلسطینی اور 1000 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
2001ء
شیرون اسرائیل کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور عرفات سے رابطہ منقطع کر دیا، جنہیں بعد ازاں رملہ میں ان کے کمپاؤنڈ تک محدود کر دیا گیا۔
2002ء
اسرائیلی حکومت نے ’’آپریشن ڈیفینسِو شیلڈ‘‘ شروع کیا، جو اسرائیل کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کے لیے ایک دیوار کی تعمیر تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار اسرائیل اور فلسطین کی دو ریاستوں کے درمیان بقائے باہمی کی بات کی۔ اسرائیلی فوج نے رملہ کا محاصرہ ختم کر دیا۔
2004ء
22 مارچ کو حماس کے معذور شریک بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کو اسرائیلی ہیلی کاپٹر حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ آٹھ ماہ بعد 11 نومبر کو فلسطین لبریشن آرمی (PLO) کے چیئرمین عرفات طویل علالت کے بعد پیرس کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔ عرفات کی موت متنازعہ رہی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی، جبکہ دیگر نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ انہیں پولونیم210 کے ذریعے زہر دیا گیا تھا۔
2005ء
محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ 38 سالہ قبضے کے بعد اسرائیل غزہ سے نکل گیا۔
2006ء
4 جنوری کو وزیر اعظم شیرون کو فالج کا دورہ پڑا اور وہ کوما میں چلے گئے، جس میں 2014ء میں وہ اپنی موت تک رہے۔ ایہود اولمرٹ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اور شیرون کی نئی قائم کردہ اعتدال پسند پارٹی ’’کادیما‘‘ کے سربراہ بنے۔
حماس نے فلسطینی علاقوں میں قانون ساز انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین نے فلسطینی حکومت کی براہ راست امداد منجمد کر دی۔
لبنانی اسلامی بنیاد پرست گروپ ’’حزب اللہ‘‘ نے اسرائیل پر راکٹ حملے کیے اور دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل نے طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کی اور بہت سے عام شہری ہلاک ہوئے جو زیادہ تر لبنانی تھے۔ اس جنگ کو اسرائیل میں بڑے پیمانے پر ناکامی سمجھا گیا، جس کی وجہ سے اولمرٹ سے استعفیٰ دینے کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔
2007ء
حماس اور فتح کی فورسز کے درمیان مہینوں کی باہمی فوجی لڑائی کے بعد حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
2008ء
27 دسمبر کو اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) نے غزہ پر اچانک حملہ کیا جس میں ایک ہی دن میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے فوراً بعد IDF نے غزہ پر دو ہفتوں کا زمینی حملہ کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس تنازعے کے دوران اسرائیل اور حماس دونوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔
2009ء
18 جنوری کو اسرائیل اور حماس نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا، جس سے 22 دن کی لڑائی ختم ہوئی، جس میں 1300 سے زائد فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ 13 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔
2011ء
27 مارچ کو اسرائیل نے آئرن ڈوم نامی ایک اینٹی راکٹ میزائل دفاعی نظام تعینات کیا، جو اسے غزہ سے مسلسل داغے جانے والے مختصر فاصلے کے راکٹوں کو روکنے کے قابل بناتا ہے۔
2012ء
اسرائیلی افواج نے 14 نومبر کو فضائی حملے میں حماس کے اعلیٰ کمانڈر احمد الجعبری کو ہلاک کر دیا اور آٹھ دن کی مہم کے دوران مزید حملے کیے، جس کے دوران حماس نے پہلی بار یروشلم پر راکٹ فائر کر کے جوابی کارروائی کی۔ 130 سے زائد فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پانچ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
2014ء
جون میں تین اسرائیلی نوجوانوں کو مغربی کنارے کے شہر الخلیل کے قریب سے اغوا اور قتل کر دیا گیا۔ اسرائیلی حکام نے اس واقعے کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا اور 8 جولائی کو غزہ پر متعدد فضائی حملے کیے، جس سے سات ہفتوں کی مدت میں حماس کے ساتھ راکٹ فائر کا تبادلہ ہوا۔ اسرائیلی میزائل حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 2200 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے۔
2018ء
30 مارچ کو ہزاروں فلسطینیوں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی سرحد کے قریب اسرائیل کی ناکہ بندی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ریلی نکالی۔ کئی مہینوں تک مظاہرے جاری رہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مقرر کردہ آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری کے مطابق مارچ سے دسمبر تک ان مظاہروں کے دوران کم از کم 189 فلسطینی ہلاک اور 6000 سے زائد زخمی ہوئے۔
2021ء
مئی میں یروشلم کے الاقصیٰ مسجد کمپاؤنڈ میں فلسطینی نمازیوں کی اسرائیلی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں، جو کہ ہفتوں سے بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد تھیں۔ حماس نے اسرائیلی افواج سے کمپاؤنڈ سے نکلنے کا مطالبہ کرنے کے بعد اسرائیل پر راکٹوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں سے جواب دیا جس سے 11 دن کا تنازعہ شروع ہوا، جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
2022ء
5 اگست کو اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے کیے، جس میں ’’اسلامی جہاد‘‘ گروپ کے ایک سینئر جنگجو کو ہلاک کیا، جس کے جواب میں فلسطینی علاقے سے راکٹ فائر ہونا شروع ہوئے۔ اس کے بعد تین دنوں کی لڑائی میں کم از کم 40 فلسطینی ہلاک ہوئے۔
2023ء
26 جنوری کو اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک فلیش پوائنٹ والے شہر پر چھاپے کے دوران نو ’’فلسطینی اسلامی جہاد‘‘ کے جنگجوؤں اور شہریوں کو ہلاک کیا۔ فلسطینی جنگجوؤں نے دو راکٹ فائر کر کے جوابی حملہ کیا، جس سے اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی ہوئی، مزید کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک ایک انوکھا کثیر جہتی حملہ کیا، جس میں جنگجوؤں فضائی، زمینی اور سمندری راستے سے کئی مقامات سے بھاری قلعہ بند غزہ سرحد میں گھس گئے۔ اسرائیلی افواج نے غزہ پر فضائی حملوں اور سرحد پر فوجی کمک کے ساتھ جواب دیا۔