’’ویسٹ فیلیا امن 1648ء ‘‘ (Peace of Westphalia) یورپی تاریخ کے اہم ترین مراحل میں سے ہے جس سے ایک تیس سالہ جنگ اور ایک اَسی سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ خاص طور پر ویسٹ فیلیا کے شہروں میونسٹر اور اور اوسنابرک کے دو معاہدوں نے یورپ میں جدید قومی ریاست کا ایک ایسا سیاسی اور مذہبی نظام تشکیل دیا جس نے آنے والی صدیوں میں نہ صرف یورپ بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی اثرات مرتب کیے۔ مغربی تاریخ کے اس اہم مرحلے کے حوالے سے ایک مختصر تحریر پیش خدمت ہے جس میں ’’ویسٹ فیلیا امن 1648ء‘‘ معاہدوں کے پس منظر، مذاکراتی حالات، اہم دفعات، اور یورپی و عالمی تاریخ پر اس کے طویل مدتی اثرات کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
تعارف
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ دراصل معاہدوں کی ایک سیریز ہے جس نے رومن سلطنت میں تیس سالہ جنگ (1618ء-1648ء) اور اسپین اور ڈچ ری پبلک کے درمیان اَسی سالہ جنگ (1568ء-1648ء) کا خاتمہ کیا۔ ویسٹ فیلیا کے شہروں میونسٹر اور اوسنابرک میں دستخط شدہ ان امن معاہدوں نے یورپ کا سیاسی نقشہ تبدیل کر دیا اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے دور رس نتائج مرتب کیے کہ آنے والے دور میں خودمختار مملکتوں کے بین الاقوامی نظام کی بنیاد انہی معاہدوں کی روشنی میں تشکیل پائی۔ ’’ویسٹ فیلائی نظام‘‘ (Westphalian System) کا تذکرہ بین الاقوامی سیاست کے معاملات میں اکثر کیا جاتا ہے، خاص طور پر ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت، اور دیگر ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدمِ مداخلت کے اصولوں کے حوالے سے۔
پس منظر اور وجوہات
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ دہائیوں کی پرتشدد کشمکش کے بعد آیا جس میں درج ذیل دو بڑی جنگیں شامل تھیں:
(۱) تیس سالہ جنگ (1618ء-1648ء)
رومن سلطنت کے اندر پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ریاستوں کے درمیان کچھ مذہبی تنازعات ہوئے جو آہستہ آہستہ یورپ کی تیس سالہ سیاسی اور علاقائی دشمنی کی جنگ میں تبدیل ہو گئے جس میں براعظم کی دیگر بڑی طاقتیں فرانس، سویڈن، اسپین اور ڈنمارک بھی شریک ہو گئیں۔ جنگ نے وسطی یورپ کے بیشتر حصہ تباہ کر دیا جس سے معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ بے پناہ جانی نقصان بھی ہوا۔
(۲) اَسی سالہ جنگ (1568ء-1648ء)
یہ تنازعہ ہسپانوی سلطنت اور ڈچ ری پبلک کے درمیان تھا۔ ڈچ ری پبلک آزادی چاہتے تھے جس پر جنگ ہوئی اور جب دہائیوں کی لڑائی کے بعد صورتحال غیر فیصلہ کن ہو گئی تو دونوں فریق بالآخر پر اَمن تصفیہ کے ذریعے جنگ ختم کرنے پر آمادہ ہوئے اور نتیجے میں ڈچ ری پبلک کی آزادی کو تسلیم کیا گیا۔
مذاکرات اور معاہدوں کا مرحلہ
امن مذاکرات 1644ء میں ایسے ماحول میں شروع ہوئے جب خاص و عوام کئی دہائیوں کی وحشیانہ جنگوں کی بڑے پیمانے پر تباہ کاری اور معاشی بدحالی سے بے حال ہو چکے تھے اور پائیدار امن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ چنانچہ فریقین کے درمیان طویل مذاکرات کا مقصد یورپ کے لیے ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا تھا جو براعظم کو اس صورتحال سے نجات دلائے اور اس سلسلہ میں دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے گئے:
(۱) میونسٹر کا معاہدہ (1648ء)
یہ معاہدہ فرانس اور اسپین کے درمیان تھا جس نے ان کی وقفے وقفے سے جاری لڑائیوں کی اسی سالہ جنگ کا خاتمہ کیا۔ اس میں ڈچ ری پبلک کی آزادی کو تسلیم کیا گیا جو کہ عملی طور پر 1580ء کی دہائی سے آزاد ریاست تھی لیکن اسپین نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔
(۲) اوسنابرک کا معاہدہ (1648ء)
اس معاہدہ نے رومن سلطنت کی تیس سالہ جنگ کا خاتمہ کیا۔ اس میں ایک معاہدہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ریاستوں کے درمیان ہوا، اور ایک معاہدہ فرانس اور رومن سلطنت کے شہنشاہ فرڈیننڈ سوم کے درمیان ہوا۔
معاہدوں کی اہم دفعات
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ کی پہچان اس حوالے سے ہے اس نے سالوں کی کشمکش کا خاتمہ کیا اور کئی سیاسی مسائل حل کرتے ہوئے جدید قومی ریاستی نظام کی راہ ہموار کی۔ کچھ اہم دفعات درج ذیل ہیں:
(۱) خودمختار ریاستوں کو تسلیم کرنا
سب سے اہم نتیجہ ریاستی خودمختاری کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنا تھا اور معاہدوں نے یہ اصول قائم کیا کہ ہر ریاست کو اپنا علاقہ کنٹرول کرنے اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حکومت کرنے کا حق ہے۔
(۲) مذہبی رواداری
آگسبرگ امن معاہدہ (1555ء) کی رو سے قائم کردہ مذہبی تصفیہ کی توثیق کی گئی، جس نے حکمرانوں کو اپنے علاقوں کے مذہب کا تعین کرنے کا حق دیا تھا۔ تاہم ’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ میں کیتھولک اور لوتھرن کے ساتھ کیلونسٹوں کو بھی اس حق میں شامل کیا گیا۔ اس شق کا مقصد رومن سلطنت میں مذہبی تنازعات کو ختم کرنا اور مذہبی اقلیتوں کو بعض علاقوں میں اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت دینا تھا۔
(۳) علاقائی تبدیلیاں اور طاقت کا توازن
یورپ میں اہم علاقائی تبدیلیاں کی گئیں۔ مثلاً ڈچ ری پبلک کو باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا، جس سے اسپین کے ساتھ اس کی اَسی سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔
سویڈن نے شمالی جرمنی کے حصوں سمیت کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا، نیز اہم بندرگاہ کے شہر اسٹیتن (سزکزین) اور بحیرہ بالٹک سے متصل علاقے بھی حاصل کیے، اور اس طرح سویڈن شمالی یورپ میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا۔
فرانس نے رومن سلطنت کے مغربی حصے میں السیس اور میٹز کے علاقے حاصل کیے جس سے اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا۔
جبکہ رومن سلطنت کے علاقوں اور اختیارات میں بھی کمی آئی کیونکہ سلطنت کے اندر انفرادی ریاستوں کو زیادہ خود مختاری دے دی گئی۔ نیز جرمن شہزادوں نے اپنے علاقوں پر کنٹرول مستحکم کر لیاجس سے شہنشاہ کی طاقت کم ہوئی اور سلطنت کا اختیار مزید کمزور ہو گیا۔
(۴) ہیبسبرگ کے غلبے کا خاتمہ
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ سے یورپ میں ہیبسبرگ کے اثر و رسوخ میں کمی ہوئی۔ ہیبسبرگ طویل عرصے سے رومن سلطنت اور وسطی یورپ کے بیشتر حصوں پر حاوی تھے۔ امن معاہدوں نے ان کی طاقت کو کم کیا اور حریف طاقتوں کو آگے بڑھنے کاموقع دیا، جن میں فرانس اور سویڈن کے ساتھ ساتھ سلطنت کے اندر علاقائی طاقتیں بھی شامل تھیں۔
(۵) قانونی فریم ورک کی تشکیل
ان معاہدوں کی رو سے رومن سلطنت کے لیے ایک متفقہ قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد تنازعات کے حل اور امن کے قیام کے لیے قانونی نظام قائم کرنا تھا۔
(۶) پاپائی اثر و رسوخ کا خاتمہ
پاپائی شہنشاہیت، جس نے صدیوں تک یورپی سیاست میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، اسے امن مذاکرات سے باہر رکھا گیا۔ معاہدوں نے سیکولر معاملات پر پاپائی اثر و رسوخ کو کم کیا اور ریاستی خودمختاری کے اصول پر زور دیا۔ اور یہ بہت بڑی تبدیلی تھی جو یورپی سیاسی امور میں کیتھولک چرچ کے مقابلے میں سیکولر حکمرانوں کے غلبہ کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔
طویل مدتی اثرات اور اہمیت
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ کے یورپی اور عالمی تاریخ پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی نظاموں پر اس کے چند اہم اثرات درج ذیل ہیں:
(۱) جدید ریاستی نظام کی بنیاد
معاہدوں نے علاقائی خودمختاری اور عدمِ مداخلت کے اصول دیے جنہوں نے آنے والی صدیوں میں بین الاقوامی تعلقات اور قومی ریاستی نظام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور جو اَب بھی جدید بین الاقوامی قانون کی بنیاد کے طور پر کام کرتے ہیں۔
(۲) مذہبی اور سیاسی توازن
معاہدوں نے مذہبی تنازعات حل کر کےرومن سلطنت میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ریاستوں کے درمیان ایک توازن قائم کر دیا، اگرچہ کشیدگی برقرار رہی لیکن معاہدوں نے مذہبی رواداری اور سلطنت کے اندر مختلف عیسائی فرقوں کے بقائے باہمی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔
(۳) یورپی طاقت کے معاملات میں تبدیلی
معاہدوں نے یورپ میں طاقت کا توازن تبدیل کر دیا۔ رومن سلطنت منتشر ہوئی، فرانس ایک غالب یورپی طاقت کے طور پر ابھرا، جبکہ سویڈن اور ڈچ ری پبلک نے بھی نمایاں علاقائی حیثیت حاصل کی۔ البتہ ہیبسبرگ کا اب یورپی سیاست میں مرکزی کردار نہ رہا کہ وہ اسپین اور آسٹریا دونوں میں کمزور ہو گئے۔
(۴) مستقبل کے سیاسی معاملات کے لیے مثال
معاہدوں نے بین الاقوامی سفارتکاری کے لیے ایک مثال قائم کر دی کہ تنازعات کے حل کے لیے کثیر الجہتی مذاکرات ایک عام طریقہ کار بن گئے۔ ’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ کے مذاکراتی عمل نے مذاکرات اور سمجھوتے کی اہمیت پر زور دیا جس کی عکاسی بعد میں دیگر امن معاہدوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی تشکیل میں ہوئی۔
(۵) نوآبادیاتی توسیع پر اثرات
البتہ اس کا ایک نتیجہ جس نے عالمی سطح پر بہت منفی اثرات مرتب کیے وہ یہ ہے کہ جیسے ہی یورپی طاقتوں نے اپنے علاقوں اور سرحدوں پر زیادہ کنٹرول حاصل کیا، وہ نوآبادیاتی توسیع پر بہتر طور پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہو گئے۔ ان معاہدوں کے ذریعے یورپ میں مذہبی اور علاقائی تنازعات کم ہو جانے سے یورپی طاقتوں کو اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو زیادہ آزادی کے ساتھ آگے بڑھانے کا موقع ملا۔
اگرچہ یہ معاہدے بنیادی طور پر یورپ کے داخلی معاملات کے بارے میں تھے لیکن بالواسطہ طور پر یہ نوآبادیاتی رجحانات کے حوالے سے اس طرح اثر انداز ہوئے کہ یورپی ممالک نے اندرونی طور پر مستحکم ہو کر بیرونی دنیا کے وسائل کے حصول کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ سمندر پار علاقائی توسیع اور اثر و رسوخ کے اضافے پر بھی توجہ دینا شروع کر دی۔ نیز ان معاہدوں کے ذریعے بین الاقوامی معاملات اور سفارتی تعلقات کے حوالے سے یورپی ممالک کے پاس ایک قانونی فریم ورک آگیا جو انہوں نے بعد کے نوآبادیاتی دور میں کامیابی سے استعمال کیا۔ مختصراً یہ کہ اگرچہ ’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ معاہدے براہ راست نوآبادیاتی توسیع کا سبب نہیں بنے لیکن انہوں نے ایک ایسا سیاسی ماحول بنانے میں مدد کی جس نے نوآبادیات کے سلسلہ میں سہولت فراہم کی۔
یورپ کے کئی ممالک نوآبادیاتی توسیع کی دوڑ میں شریک ہوئے جن کی شمولیت اور اثرات درجہ بدرجہ مختلف تھے:
- پرتگال ابتدائی نوآبادیاتی طاقتوں میں سے ایک ہے جس کی بحری مہم جوئیوں میں مہارت ابتدائی نوآبادیاتی سلسلوں کا باعث بنی اور انہوں نے جنوبی امریکہ (برازیل)، افریقہ اور ایشیا میں وسیع علاقے حاصل کیے۔
- اسپین نے امریکہ، خاص طور پر وسطی اور جنوبی امریکہ میں نوآبادیاتی توسیعات کیں، جبکہ افریقہ اور ایشیا کے علاقوں تک بھی کچھ توسیعات جا پہنچیں۔
- نیدرلینڈز کے ڈچوں نے جنوب مشرقی ایشیا (انڈونیشیا)، کیریبین اور جنوبی افریقہ میں نوآبادیات قائم کیں اور وہ اپنے نوآبادیاتی دور میں ایک بڑی تجارتی طاقت تھے۔
- فرانس نے شمالی افریقہ، مغربی افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا (انڈوچائنا) اور کیریبین میں نوآبادیات قائم کیں۔
- بیلجیم کی نوآبادیاتی سرگرمیاں بنیادی طور پر کانگو میں مرکوز تھیں۔
- جرمنی نوآبادیاتی دوڑ میں بعد میں شامل ہوا جس نے افریقہ اور بحرالکاہل میں علاقے حاصل کیے۔
- اٹلی نے بھی نوآبادیاتی توسیع کی جو بنیادی طور پر افریقہ کے کچھ علاقوں میں ہوئی۔
- جبکہ برطانیہ سب سے بڑی نوآبادیاتی طاقت بن گیا جس کی سلطنت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی جس میں شمالی امریکہ، ہندوستان، افریقہ اور آسٹریلیا کے علاقے بھی شامل تھے۔
تنقید اور بحث
’’ویسٹ فیلیا امن‘‘ پر اس کی بہت زیادہ اہمیت کے باوجود پر تنقید اور بحث کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کچھ مبصرین کا استدلال ہے کہ معاہدوں نے بنیادی تنازعات خاص طور پر مذہبی کشیدگیوں کو مکمل طور پر حل نہیں کیا، اور یہ کہ اس کے خودمختاری کے اصول صدیوں تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ اس امن تصفیہ نے یورپی طاقتوں کو اپنے سامراجی عزائم پر کام کرنے اور اپنی سلطنتوں کو وسعت دینے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے علاوہ ان معاہدوں کے مذاکراتی عمل میں پاپائیت اور سلطنت عثمانیہ کی عدم شمولیت کو ان معاہدوں کی کمی کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس حوالے سے بھی اشکالات موجود ہیں کہ ان معاہدوں نے نہ تو عیسائی طاقتوں اور مسلم سلطنتوں کے درمیان کشیدگیوں کو حل نہیں کیا، اور نہ ہی اس نے غیر یورپی لوگوں کے حقوق پر بات کی۔
نتیجہ
’’ویسٹ فیلیا امن 1648ء‘‘ معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جسے یورپی اور عالمی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کے اہم اثرات یہ ہیں:
بنیادی طور پراس نے تیس سالہ تباہ کن جنگ (1618ء-1648ء) کا خاتمہ کیا جس میں بہت سی یورپی طاقتیں شامل تھیں اور اس نے رومن سلطنت کو تباہ حال کر دیا تھا۔
ایک اہم نتیجہ ریاستی خودمختاری کے اصول کا زیادہ مستحکم انداز میں سامنے آنا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر ریاست کو بیرونی مداخلت کے بغیر اپنی علاقائی اور داخلی امور پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے، اور اسے اکثر جدید قومی ریاستی نظام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
معاہدوں نےآگسبرگ امن (1555ء)معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے لوتھرن اور کیتھولک کے علاوہ کیلونسٹوں کو بھی مذہبی آزادی دی اور اس طرح مذہبی رواداری کے فروغ میں کردار ادا کیا۔
یورپ میں طاقت کا توازن اس طرح سے تبدیل کیا کہ یورپ پر کیتھولک حکمرانی ختم ہوئی اور رومن سلطنت کمزور ہو گئی، فرانس اور سویڈن مضبوط ریاستوں کے طور پر سامنے آئے، جبکہ آسٹریا اور اسپین کم طاقتور ہوئے۔
معاہدوں نے سفارتی سرگرمیوں اور مذاکرات کے ذریعے بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک مثال قائم کی، اور اسے بھی جدید بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مختصراً یہ کہ ’’ویسٹ فیلیا امن 1648ء‘‘ یورپی سیاست اور سفارتکاری میں ایک اہم تاریخی مرحلہ سمجھا جاتا ہے جس نے ایک نیا سیاسی منظر تشکیل دیتے ہوئے ایسے اصول قائم کیے جو جدید بین الاقوامی نظام کی بنیاد ہیں۔ اس میں ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت، اور دیگر ریاستوں کے معاملات میں عدم مداخلت کے جو اصول دیے گئے وہ آج بھی عالمی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اگرچہ اس کی خامیوں کے حوالے سے تنقید ہوتی ہے لیکن یورپ میں مذہبی جنگوں کے دور کا خاتمہ اور ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل اس کی اہم کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں۔