بالفور ڈکلیریشن 1917ء : اسرائیلی ریاست کے قیام کی برطانوی حمایت

By admin, 29 March, 2025

اعلانِ بالفور 1917ء ( Balfour Declaration ) مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کی ایک انتہائی اہم لیکن متنازعہ دستاویزات میں سے ایک ہے جو خاص طور پر فلسطینی اسرائیلی تنازعہ کے متعلق ہے۔ اعلانِ بالفور دراصل برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کی طرف سے برطانوی یہودی آبادی کے ایک راہنما لارڈ والٹر روتھس چلڈ کو بھیجا گیا ایک خط تھا۔ 2 نومبر 1917ء کے اس اعلان میں برطانوی حکومت کی جانب سے فلسطین کی سر زمین پر ’’یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن‘‘ کے قیام کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔ فلسطین اس وقت خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا اور اس کے ایک سال بعد جنگِ عظیم اول کے آخری مرحلہ میں برطانیہ کے قبضہ میں آیا تھا۔

یہ صیہونیت کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم مرحلہ تھا جس نے وہ بنیاد رکھی جس پر تین دہائیوں بعد 1948ء میں ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ ان تین دہائیوں کے دوران برطانیہ کے زیرقبضہ فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کی آمد اور آبادکاری ہوئی۔ اعلانِ بالفور کی اہمیت سمجھنے کے لیے اس کے مندرجات کے ساتھ ساتھ وہ سیاق و سباق دیکھنا بھی ضروری ہے جس میں یہ اعلان جاری ہوا اور جس کے مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے۔

پس منظر اور معروضی صورتحال

(۱) یہودی قوم پرستی اور صیہونی تحریک (1897ء)

اعلانِ بالفور کا صیہونی تحریک کے ساتھ گہرا تعلق ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں ہوا۔ صیہونیت ایک سیاسی تحریک کے طور پر ابھری تھی جس نے یہ کہہ کر فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا عزم ظاہر کیا کہ یہودی عوام کے نزدیک اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ مشرقی یورپ میں یہود دشمنی اور ان کے قتلِ عام کے دور کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا اور اس نے اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین پر واپسی کا تصور دنیا بھر کے یہودیوں کے سامنے ایک یقینی مستقبل کی صورت میں پیش کیا۔

(۲) مشرقِ وسطیٰ میں برطانوی مفادات اور جنگ عظیم اول (1914ء-1918ء)

پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ جب مشرقِ وسطیٰ میں جرمنی اتحاد کے خلاف فوجی پیش قدمیوں میں مصروف تھا تو زوال پذیر خلافتِ عثمانیہ کا مکمل خاتمہ اس کی اولین ترجیحات میں سے تھا۔ اس دوران خطے میں برطانوی حکومت کے مفادات میں سویز نہر کو کنٹرول کرنا، تیل کی رسد کو یقینی بنانا، اور ہندوستان کے راستوں تک رسائی کو محفوظ کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ان مقاصد کے لیے برطانیہ نے مختلف قوتوں کی حمایت حاصل کی تھی جس میں یہودی اثر و رسوخ کو نمایاں حیثیت حاصل تھی، خصوصاً‌ جنگِ عظیم میں ترکوں کے خلاف برطانیہ کو یہودیوں کی مدد حاصل تھی۔

(۳) میک موہن اور شریفِ مکہ حسین بن علی کے درمیان خط و کتابت (1915ء-1916ء)

پہلی جنگ عظیم کے دوران اعلانِ بالفور سے کچھ پہلے برطانیہ نے عرب دنیا کے ساتھ بھی وعدے کیے۔ برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میک موہن اور شریفِ مکہ حسین بن علی کے درمیان خط و کتابت کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے بدلے میں عرب سلطنت کے لیے حمایت کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم بعد میں اس وعدے کی کچھ خاص حیثیت نہ رہی کہ اس خطے کے لیے برطانوی پالیسیاں نئے رخ اختیار کرتی چلی گئیں۔ 

(۴) سائیکس پیکو معاہدہ (1916ء)

برطانیہ اور فرانس نے ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پیکو (Sykes-Picot Agreement) کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ کے علاقوں کو یہاں کے نسلی اور مذہبی تحفظات کی پروا کیے بغیر آپس میں تقسیم کر لیا۔ اس معاہدے نے عربوں سے کیے گئے وعدوں اور اس کے بعد اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں سے کیے گئے وعدوں کے حوالے سے تضادات پیدا کیے، جو بعد میں عربوں کی طرف سے دھوکہ کے طور پر دیکھے گئے۔

مسودہ اور اہم نکات

اعلانِ بالفور نے فلسطین میں ’’یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن‘‘ کے قیام کے لیے برطانوی حکومت کی طرف سے حمایت کا اظہار اس طرح کیا:

’’عالی جاہ کی حکومت فلسطین میں یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، اور اس مقصد کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں کرے گی، یہ واضح طور پر سمجھا جائے کہ ایسا کچھ نہیں کیا جائے گا جو فلسطین میں موجود غیر یہودی برادریوں کے شہری اور مذہبی حقوق، یا کسی دوسرے ملک میں یہودیوں کو حاصل حقوق اور سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچائے۔‘‘

اعلانِ بالفور کے اہم نکات اس طرح سے سامنے آتے ہیں کہ

1- صیہونی اہداف کو تسلیم کرنا

فلسطین میں یہودی عوام کے ایک قومی وطن کے لیے برطانوی حکومت کی تائید کا مطلب صیہونی تحریک کے اہداف کو واضح طور پر تسلیم کرنا تھا، اگرچہ یہ یہودی ریاست کا براہ راست وعدہ نہیں تھا۔

2- غیر یہودی برادریوں کا تحفظ

اعلان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ فلسطین میں غیر یہودی برادریوں کے حقوق، جو بنیادی طور پر عربوں پر مشتمل تھے، محفوظ کیے جائیں گے۔ اس شق کا مقصد اگرچہ عرب آبادی پر اس اعلان کے اثرات کے بارے میں خدشات کو دور کرنا دکھائی دیتا ہے لیکن بعد کے حالات میں اس شق کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔ 

3- دنیا بھر کے یہودیوں کو یقین دہانی

اعلان نے یقین دہانی کرائی کہ اس سے دوسرے ممالک میں رہنے والے یہودیوں کے سیاسی حقوق متاثر نہیں ہوں گے، جو کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے ساتھ برطانیہ کی طرف سے ہمدردی اور حمایت کا اظہار تھا۔ 

4- اعلان کی مبہم زبان

اعلان کا مسودہ کسی معاہدہ یا منصوبہ کے انداز میں واضح نہیں ہے، مثال کے طور پر ’’قومی وطن‘‘ کے تصور اور نوعیت کے بارے میں کوئی خاکہ پیش نہیں کیا گیا، نیز اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ مبینہ وطن کے حصول میں برطانیہ کی شمولیت اور کوششوں کا دائرہ کار کیا ہو گا،وغیر ذالک۔

بین الاقوامی ردعمل

1- صیہونی ردعمل

چیم ویزمین نے اس اعلان کو ایک تاریخی کامیابی اور فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا۔ یہ ایک صیہونی رہنما تھے جن کی کوششوں سے برطانوی حکومت کی طرف سے اعلانِ بالفور جاری ہوا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کے خلاف برطانیہ کے لیے یہودی حمایت اورمدد کے عوض اس کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہودیوں کے نزدیک اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنے صیہونی مقصد کے لیے وہ بین الاقوامی حمایت حاصل ہو گئی ہے جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے کوشش کر رہے تھے۔ 

2- عرب ردعمل

اعلانِ بالفور کو فلسطین کی عرب آبادی اور وسیع تر عرب دنیا میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عربوں نے اعلان کو برطانویوں کی طرف سے ایک دھوکہ کے طور پر دیکھا، خصوصاً‌ اس تناظر میں کہ میک موہن اور حسین کی خط و کتابت کے ذریعے ان کے ساتھ آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا، اور جس کے لیے انہیں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا۔ نیز عربوں کو بجا طور پر یہ خدشہ تھا کہ یہودی آباد کاروں کی آمد خطے میں ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کو خطرہ میں ڈال دے گی، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ فلسطین کے علاقے ان کی رضامندی کے بغیر یہودیوں کو دیے جا رہے ہیں۔

فلسطینی سیاسی شخصیت عونی عبد الہادی نے اپنی یادداشتوں میں اعلانِ بالفور کی مذمت اس طرح سے کی کہ یہ وعدہ ایک غیر ملکی انگریز نے، جس کا فلسطین پر کوئی دعویٰ نہیں تھا، ایک غیر ملکی یہودی سے کیا، جس کا فلسطین پر کوئی حق نہیں تھا۔ 

3- برطانوی رد عمل

یہ اعلان وزیرخارجہ آرتھر بالفور نے لکھا تھا یعنی خود برطانوی حکومت کی طرف سے جاری ہوا تھا ، اس لیے برطانیہ کی کوشش تھی کہ یہودی اور عرب مفادات کے درمیان کسی نہ کسی طرح کا توازن قائم ہو جائے۔ اس اعلان کے پیچھے محرکات واضح تھے، جس میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ کے اپنے مفادات کے علاوہ صیہونی اتحادیوں کی الگ وطن کی خواہش کے حوالے سے ان کی ہمدردی بھی شامل تھی۔ تاہم برطانوی حکومت کے اندر بھی کچھ مخالف آوازیں تھیں، مثال کے طور پر، کابینہ کے یہودی رکن ایڈوِن مونٹاگو نے اعلانِ بالفور کی اس خدشہ کے ساتھ مخالفت کی کہ اس سے یہود دشمنی میں اضافہ ہو گا۔ 

4- امریکی ردعمل

امریکی صدر وُڈرو وِلسن نے اس اعلان کی حمایت کی جسے برطانوی وزیرخارجہ بالفور نے خوش آئند قرار دیا۔ بعد کے صدر روزویلٹ نے بھی حمایت کی لیکن یہ کہا کہ امریکہ دونوں اطراف سے رابطہ کیے بغیر کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ اعلان بالفور کے تین دہائیوں کے بعد 14 مئی 1948ء کو جب اسرائیل کی عارضی حکومت نے ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو اسی تاریخ کو امریکی صدر ٹرومین نے اسے تسلیم کرنے کی پریس ریلیز جاری کی۔ امریکی حمایت کے پس منظر کے طور پر ہولوکاسٹ، دنیا بھر میں یہودی مہاجرین کی تعداد، اور جدید دور میں عالمی سطح پر بڑھتا ہوا یہودی اثر و رسوخ بتایا جاتا ہے۔

5- فرانسیسی ردعمل

فرانس نے بھی صیہونی خواہشات کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ 1917ء میں فرانسیسی سفارت کار جولس کیمبون کی طرف سے صیہونی رہنما نہم سوکولوف کو لکھے گئے خط میں فرانسیسی حکومت کی جانب سے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا گیا۔ 

مختصراً‌ یہ کہ بین الاقوامی سطح پر یہودی برادریوں نے خیرمقدم کیا خصوصاً‌ امریکہ اور مشرقی یورپ میں رہنے والوں نے، عرب دنیا میں شدید مخالفت ہوئی، جبکہ ایسے لوگوں نے تنقید کی جن کا خیال تھا کہ عرب آبادی کے حقوق کی قیمت پر ایسا کیا جا رہا ہے۔ 

طویل مدتی نتائج

1- فلسطین کے لیے برطانوی مینڈیٹ (1920ء-1948ء)

پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی اتحاد، جس میں خلافتِ عثمانیہ بھی شامل تھی، کو شکست ہو گئی اور اس کے نتیجے میں فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ نے 1922ء میں برطانوی فلسطین کے لیے باضابطہ طور پر ایک مینڈیٹ منظور کیا جس میں اعلانِ بالفور کو بھی شامل کیا گیا، جس سے اس اعلان کو بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس مینڈیٹ میں برطانیہ کو اعلانِ بالفور میں بیان کردہ اصولوں کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کے ساتھ ساتھ فلسطین کے غیر یہودیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی شامل تھا۔ 

اس کے بعد کی دہائیاں یہودیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی پر مشتمل ہیں کیونکہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور آبادکاری کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، جن میں وہ یہودی بھی تھے جو صیہونی ایجنڈے کے تحت قائم ہونے والے وطن میں آ رہے تھے، اور وہ بھی جو دنیا میں مختلف یہود مخالف علاقوں سے نکل کر پناہ کی غرض سے وہاں پہنچ رہے تھے۔ 

2- اسرائیلی فلسطینی تنازعہ

اعلانِ بالفور کو اکثر فلسطینی اسرائیلی تنازعہ میں ایک بنیادی مرحلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے یہودیوں نے ریاست اسرائیل کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھا، لیکن عربوں نے اسے اپنی سرزمین پر غیر ملکی تسلط کے وعدے کے طور پر دیکھا۔ اس متضاد ردعمل نے آنے والی کئی دہائیوں پر مبنی تشدد اور کشیدگی کی ایسی فضا قائم کی جسے سازگار بنانے کے لیے کئی سیاسی حل پیش ہوئے ہیں اور کئی اقدامات کیے جا چکے ہیں جن میں سے کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو پائیدار اور دیرپا ثابت ہوا ہو۔ 

1947ء میں ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ نے برطانوی فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس میں خطے کا 56 فیصد حصہ یہودی ریاست کے لیے اور 44 فیصد عرب ریاست کے لیے تجویز کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اسے مسترد کیا اور یہودیوں نے قبول کر لیا۔ 1948ء میں جب ریاست اسرائیل کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو یہودیوں نے منصوبے میں تجویز کیے گئے علاقے سے بڑھ کر 75 فیصد سے زائد فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ جس سے وہ صورتحال پیدا ہو گئی جسے خطے کی تاریخ میں ’’نکبہ‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے جس میں قتل عام سے بچنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں نے نقل مکانی کی۔ اس صورتحال میں ہمسایہ عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کی لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اعلانِ بالفور نے اگرچہ براہ راست کوئی ریاست قائم نہیں کی لیکن اس نے جنگ عظیم اول کے فاتحین کی طرف سے اس ریاست کے قیام کے لیے ہر طرح کی حمایت اور مدد کا ارادہ ظاہر کیا تھا، نیز اس اعلان کو ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اور ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ کے اقدامات میں بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ 

3- عرب دنیا کے اسرائیل سے تعلقات

اعلانِ بالفور کو عرب اسرائیل تعلقات کے حوالے سے ایک طرح کی مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ عرب اس اعلان کو مغربی سامراج کی علامت اور فلسطینیوں کی اپنے وطن سے دربدری اور مصائب کا ایک بڑا سبب سمجھتے ہیں، جبکہ فلسطین اور ہمسایہ عرب ممالک میں مہاجرین کیمپوں میں زندگی گزارنے والے فلسطینیوں کی لاکھوں میں تعداد اس تاریخی ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 

اختتامیہ

اعلانِ بالفور 1917ء مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس نے الگ وطن کے قیام کے لیے صیہونی منصوبے کی تائید کرتے ہوئے ریاست اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی اور فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایسا تنازعہ پیدا کر دیا جو کئی دہائیوں کی پر تشدد جدوجہد کے بعد بھی لاینحل ہے۔ فلسطینی اسرائیلی تنازعہ کے حوالے سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری جدوجہد کو سمجھنے کے لیے اعلانِ بالفور کے مندرجات، اُس وقت کی وسیع تر جغرافیائی سیاسی صورتحال، اور بعد کے مرحلہ وار حالات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔