یہ جولائی 1915ء سے مارچ 1916ء تک مکہ کے شریف حسین بن علی اور مصر میں برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری میک موہن کے درمیان دس خطوط کا ایک سلسلہ ہے جسے مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں بہت اہم اور حساس حیثیت حاصل ہے۔ 1908ء میں عثمانی خلیفہ عبد الحمید دوم نے عرب رہنما حسین بن علی کو شریفِ مکہ مقرر کیا تھا۔
خلافتِ عثمانیہ جب جرمنی کے ساتھ مل کر برطانوی اتحاد کے خلاف پہلی جنگ عظیم (1914ء - 1918ء) میں شریک ہو چکی تھی تو خلافتِ عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لیے برطانیہ نے عرب رہنماؤں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ میں نہر سویز اور تیل کے وسائل کے حوالے سے مفادات تھے۔ اس وقت ایک عرب قوم پرست تحریک بھی موجود تھی جو خلافتِ عثمانیہ سے آزادی چاہتی تھی۔
برطانیہ نے عرب رہنماؤں کو یہ پیشکش کی کہ خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کے عوض برطانیہ ایک آزاد عرب ریاست کے قیام کو یقینی بنائے گا۔ شریف حسین نے موجودہ شام، لبنان، فلسطین اور جزیرہ نما عرب کے کچھ حصوں سمیت بڑے علاقے پر مشتمل ایک عرب ریاست کو برطانیہ کی طرف سے تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جبکہ سر ہنری میک موہن نے مطلوبہ علاقہ میں سے دمشق، حمص، حما اور حلب کے مغرب میں واقع علاقوں کو خارج کر دیا گیا تھا، جس کے متعلق بعد میں تنازعہ کی صورتحال بن گئی تھی خصوصاً فلسطین کی شمولیت کے حوالے سے۔
اصل میں برطانیہ کی طرف سے وعدہ کردہ عرب ریاست کی حتمی حدود واضح طور پر متعین نہیں کی گئی تھیں جس سے مختلف قسم کے اندازے سامنے آئے۔ ایک بڑا ابہام یہ تھا کہ آیا فلسطین وعدہ کردہ عرب علاقے میں شامل تھا یا خارج تھا۔ عربوں کا خیال تھا کہ یہ شامل تھا، جبکہ برطانوی عہدیداروں کی طرف سے بعد میں یہ موقف سامنے آیا کہ فلسطین کو اس علاقے سے خارج کر دیا گیا تھا۔
دراصل عربوں کے ساتھ کیا گیا یہ وعدہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ کے متعدد متضاد فیصلوں میں سے ایک تھا۔ اس میں سائیکس-پیکو معاہدہ (1916ء) بھی شامل تھا جس کے ذریعے خفیہ طور پر اس خطہ کو برطانیہ اور فرانس نے آپس میں تقسیم کر لیا تھا۔ اور اس میں بالفور اعلامیہ (1917ء) بھی شامل تھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے برطانوی حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
بہرحال شریف حسین اور ان کے صاحبزادوں کی قیادت میں عرب بغاوت نے خلافتِ عثمانیہ پر اتحادی قوتوں کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں شریف حسین نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے لیے بالفور ڈکلیریشن جاری ہونے، اور عراق اور فلسطین میں برطانوی اور فرانسیسی تسلط کی مخالفت کی جس کی وجہ سے برطانیہ کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے، البتہ ان کے بیٹوں فیصل اور عبداللہ کو 1921ء میں بالترتیب عراق اور اردن کا حکمران بنا دیا گیا۔
مختصراً یہ کہ مذکورہ خط و کتابت کے ابہام نے برطانیہ کے ساتھ عرب دنیا کی ناراضگی اور عدمِ اعتماد پیدا کیا۔ نیز برطانیہ کی طرف سے کیے گئے متضاد وعدوں نے مشرقِ وسطیٰ میں آنے والے وقتوں کے دیگر تنازعات کی بنیاد رکھی جن میں فلسطین اسرائیل تنازعہ بھی شامل ہے۔