سائیکس-پیکو معاہدہ 1916ء: مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم کا خفیہ منصوبہ

By admin, 17 April, 2025

’’سائیکس-پیکو معاہدہ‘‘ پہلی جنگ عظیم کے دوران 1916ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پانے والا ایک خفیہ منصوبہ تھا جس میں سوویت یونین سے پہلے کے روس کی رضامندی بھی شامل تھی۔ ان طاقتوں کا مقصد جنگ میں کامیابی کی صورت میں خلافتِ عثمانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنا تھا۔ سرکاری طور پر ’’ایشیا مائنر معاہدہ‘‘ (Asia Minor Agreement) کا نام رکھنے والے اس معاہدے نے خطے کی جغرافیائی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب کیے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے تنازعات کی بنیادی وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے۔

معاہدہ کا پس منظر

بیسویں صدی کے آغاز میں خلافتِ عثمانیہ اس حد تک ناتواں ہو چکی تھی کہ اسے ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کہا جانے لگا۔ خلافتِ عثمانیہ کا اپنے وسیع رقبے کے بڑے حصے خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے عرب علاقوں پر کنٹرول کمزور ہو گیا تھا، اس صورتحال میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کو یہاں اپنا اپنا ایجنڈا اور اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملا۔

پہلی جنگِ عظیم (1914ء — 1918ء) کے دوران ایک طرف جرمنی، خلافتِ عثمانیہ، آسٹریا، ہنگری، اور بلغاریہ تھے۔ جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، روس اور امریکہ تھے۔ ان کے علاوہ جنگ میں کچھ چھوٹے ممالک بھی درجہ بدرجہ شریک تھے۔ خلافتِ عثمانیہ اپنے اس آخری دور میں تین حوالوں سے بطور خاص دباؤ میں تھی:

  • چونکہ خلافتِ عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لیے وہ اتحادی افواج کے ہدف پر تھی،
  • نیز عرب خطہ خصوصاً‌ فلسطین اس کے زیر اقتدار ہونے کی وجہ سے وہ صیہونی سازشوں کا بھی شکار تھی،
  • اس کے علاوہ خطہ میں تیل کے وسائل کی دریافت نے اسے مغربی استعماری قوتوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔

چنانچہ برطانیہ اور فرانس نے اپنے طور پر یہ منصوبہ بندی کی کہ جنگ میں فتح حاصل ہونے کے نتیجہ میں ان کے مفادات مثلاً‌ تیل کے وسائل اور تجارتی راستوں والے علاقوں میں سے کس کے کنٹرول میں کون سا علاقہ ہو گا۔

معاہدہ کا مقصد

معاہدے کا نام اس کے اہم مذاکرات کاروں کے ناموں پر رکھا گیا ہے (۱) برطانیہ کے سر مارک سائیکس، اور (۲) فرانس کے فرانسوا جارجز پیکو۔

مئی 1916ء کے دوران منظور ہونے والے ’’سائیکس-پیکو معاہدہ ‘‘ میں علاقوں کی تقسیم کا درج ذیل خاکہ پیش کیا گیا:

  • فرانس یہ علاقے کنٹرول کرے گا: لبنان، شام، اور جنوب مشرقی ترکی کے کچھ حصے ۔
  • برطانیہ یہ علاقے کنٹرول کرے گا: عراق، اردن اور شمالی سعودی عرب کے کچھ حصے ۔
  • روس کو ترکی کی بحری گزرگاہوں کے علاوہ آرمینیا اور کردستان کے منتخب علاقوں کا کنٹرول دینے کا وعدہ کیا گیا، اس طرح اس معاہدہ میں روس کی رضامندی بھی شامل ہو گئی۔
  • برطانیہ اور فرانس کے علاقوں میں ایک عرب ریاست یا فیڈریشن کا ذکر کیا گیا جس کا ایک حصہ برطانیہ اور دوسرا حصہ فرانس کے زیر اثر ہو گا۔
  • فلسطین کو اس کی مذہبی اہمیت کے پیش نظر بین الاقوامی انتظامیہ کے تحت رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت کے فلسطین میں آج کا اسرائیل اور فلسطینی علاقے سب شامل تھے۔
  • 1917ء میں اٹلی کے ساتھ ایک معاہدہ کے ذریعے سے مشرقی اناطولیہ کے کچھ علاقے اسے دینے کا وعدہ کیا گیا، کیونکہ اٹلی کی طرف سے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

البتہ بعد میں روس اور اٹلی اس معاہدہ کا حصہ نہ رہے۔ روس میں انقلاب آگیا اور نئی حکومت نے جنگِ عظیم سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ جبکہ ترک افواج کی مزاحمت کی وجہ سے اتحادی افواج کی پیش قدمی رک گئی جس سے اٹلی کو وعدہ شدہ علاقہ نہ مل سکا۔

معاہدہ کا اِفشا

1917ء کے دوران روس میں انقلاب آیا جس کے نتیجے میں بعد میں سوویت یونین قائم ہوا تھا۔ اس نئی حکومت نے گزشتہ حکومت کا ’’سائیکس-پیکو معاہدہ‘‘ مشتہر کر دیا۔ جب یہ معاہدہ منظر عام پر آیا تو اس سے عرب دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑی اور عرب رہنماؤں خصوصاً‌ مکہ کے شریف حسین نے اسے برطانیہ کا دھوکہ قرار دیا، کیونکہ ’’ حسین-میک موہن خط و کتابت ‘‘ (1915ء-1916ء) میں برطانیہ نے ان کے ساتھ ایک آزاد عرب ریاست کا وعدہ کیا تھا جس کے بدلے میں انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔

معاہدہ کے تنقیدی پہلو

’’سائیکس-پیکو معاہدہ ‘‘ ایک متنازعہ معاہدہ ہے اور اس پر کئی اعتراضات ہیں جو اس تناظر میں ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے اب تک چلے آنے والے تنازعات میں اس معاہدہ کا بنیادی کردار ہے، مثلاً‌:

مصنوعی سرحدیں

ایک بنیادی اعتراض یہ ہے کہ معاہدہ بنانے والوں نے خطہ کی مذہبی، نسلی اور علاقائی صورتحال کو نظرانداز کرتے ہوئے مصنوعی سرحدیں قائم کیں۔ یہ سرحدیں مقامی آبادیوں کی ضروریات کی بجائے برطانیہ اور فرانس کے تزویراتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے کھینچی گئیں۔

عربوں سے بد عہدی

اس معاہدے نے ’’ حسین-میک موہن خط و کتابت‘‘ کے ذریعے عرب رہنماؤں سے کیے گئے برطانیہ کے وعدوں کے خلاف منصوبہ بنایا۔ عربوں نے آزاد عرب ریاست کی خواہش میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اس لیے جب انہیں خفیہ معاہدے کا علم ہوا تو انہوں نے اسے غداری کے مترادف سمجھا جس نے مغرب مخالف جذبات پیدا کیے۔

نوآبادیاتی تفاخر کا مظہر

اس معاہدے کو نوآبادیاتی تفاخر کی ایک بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں یورپی طاقتوں نے خطہ کے رہنے والے لوگوں کی خواہشات کا خیال کیے بغیر علاقوں کو تقسیم کر لیا۔ اس سے یہ احساس پیدا ہوا کہ قابض قوتوں نے مقامی خود ارادیت کو کوئی حیثیت نہیں دی، جس سے نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف تحریک کے جذبات سامنے آئے۔

متضاد وعدے اور عدمِ اعتماد

  • ’’ حسین-میک موہن خط و کتابت ‘‘ (1915ء-1916ء) میں برطانیہ نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے بدلے میں عربوں کے ساتھ ایک آزاد سلطنت کے قیام کا وعدہ کیا۔
  • ’’سائیکس-پیکو معاہدہ ‘‘ (1916ء) میں خفیہ طور پر برطانیہ نے فرانس کے ساتھ علاقوں کی تقسیم کا منصوبہ بنا لیا۔
  • ’’ بالفور اعلامیہ‘‘ (1917ء) میں برطانیہ نے فلسطین میں ’’یہودیوں کے لیے قومی گھر‘‘ کے قیام کے لیے حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔

چنانچہ یہ حقیقت کہ برطانوی حکومت نے ایک ہی عرصہ کے دوران مختلف گروہوں سے متضاد وعدے کیے، اس نے بڑے پیمانے پر عدمِ اعتماد پیدا کیا۔

طویل مدتی عدمِ استحکام

اس معاہدہ کے اثرات سے ابھی تک مشرقِ وسطیٰ نجات حاصل نہیں کر سکا کیونکہ اس کی بنائی گئی سرحدوں نے اسرائیلی فلسطینی تنازعہ، شام کی خانہ جنگی، عراق کی فرقہ وارانہ کشمکش، اور کرد اور دیگر اقوام کی مختلف ممالک میں تقسیم وغیرہ جیسے مسائل اور تنازعات میں پیدا کیے۔

خلاصہ یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات اور عدمِ استحکام کے موجب ’’سائیکس-پیکو معاہدہ‘‘ کی مختلف حوالوں سے مذمت کی جاتی ہے۔

فاتحین کا مینڈیٹ سسٹم

چونکہ پہلی جنگِ عظیم کے فاتحین نے ہی عالمی تنظیم ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی تھی، جن میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، چنانچہ اس عالمی تنظیم نے مینڈیٹ سسٹم متعارف کرایا جس کے ذریعے برطانوی اور فرانسیسی اثر و رسوخ کے علاقوں کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔

1920ء میں سان ریمو کانفرنس میں اتحادی طاقتوں نے سابقہ خلافتِ عثمانیہ کے علاقوں کی تقسیم طے کی ، جس کی رو سے برطانیہ کو عراق اور فلسطین پر، جبکہ فرانس کو شام اور لبنان پر مینڈیٹ ملا۔ یعنی ان علاقوں کے مستقبل وہ اپنی ترجیحات کے اعتبار سے طے کر سکتے تھے۔

اسی مینڈیٹ کی رو سے برطانیہ نے فلسطین پر تقریباً‌ تین دہائیوں تک یہودی آباد کاری کی۔ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا اصل مقصد مستقبل کی جنگوں کو روکنا تھا لیکن 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہو گئی جسے اس عالمی تنظیم کی ناکامی قرار دیا گیا اور پھر 1946ء میں اسے تحلیل کر دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945ء میں اسی طرز پر ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ کی عالمی تنظیم قائم ہوئی اور اس نے 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جس کی رو سے 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس منصوبے میں اصل فلسطین کے 44 فیصد علاقے پر مشتمل نئی فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل تھا لیکن وہ آج تک معرضِ وجود میں نہیں آ سکی۔

نتیجہ

’’سائیکس-پیکو معاہدہ‘‘ مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے جو بیسویں صدی کے اوائل کی نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسی ذہنیت جس نے حقِ خود ارادیت پر سامراجی مفادات کو ترجیح دی، اور اگر دیکھا جائے تو اس ذہنیت کا تسلسل ختم نہیں ہوا بلکہ مختلف صورتوں خصوصاً‌ بین الاقوامی معاہدات کی جکڑبندیوں کے ذریعے طاقتور قوتوں کی طرف سے کمزور ممالک اور طبقات کے ساتھ جبر کا سلسلہ اب بھی موجود ہے۔ اور اس کی ایک مثال یہ ’’سائیکس-پیکو معاہدہ‘‘ بھی ہے جس کے اثرات ایک صدی گزر جانے کے بعد نہ صرف موجود ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ سالوں میں اور بھی شدت سے سامنے آئے ہیں۔