بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بائیس اپریل کو ہونے والے ایک خونریز واقعہ کے بعد چوبیس اپریل کو سندھ طاس معاہدہ (Indus Water Treaty) کو معطل کر دیا ہے اور بھارتی وزارت خارجہ نے اس واقعے کا تعلق پاکستان سے جوڑتے ہوئے اس پر دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے معاہدہ کی معطلی کو ’’جنگی اقدام‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے پانی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن حد تک جائے گا۔ نیز پاکستان نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں وہ بھارت کے ساتھ دیگر دوطرفہ معاہدوں بشمول شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ شملہ معاہدہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے مابین ہونے والا ایک سمجھوتہ ہے جس کی ایک شق یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل باہمی مذاکرات کے ذریعے سے حل کریں گے، اور یہ وہی نکتہ ہے جس کی آڑ میں عالمی ادارے اور قوتیں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کو معطل نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے، اور معاہدے میں ترمیم یا اسے ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ بہرحال بھارت نے held in abeyance کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی معاہدہ اس وقت زیر التوا ہے۔
اگرچہ بھارت نے معاہدے کو معطل کر دیا ہے لیکن فوری طور پر پاکستان کو آنے والے پانی کی روانی میں کوئی بڑی رکاوٹ متوقع نہیں ہے۔ البتہ اس اقدام سے بھارت کو مستقبل میں مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر اپنے منصوبوں کو بغیر کسی معاہدہ کی پابندی کے آگے بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے جس پر پاکستان کو پہلے ہی اعتراضات تھے۔ اس معاہدے کے زیادہ دیر معطل رہنے سے دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور پانی کی تقسیم ایک نیا اور بڑا تنازعہ بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ پاکستان کی زراعت کا بڑا انحصار ان مغربی دریاؤں کے پانی پر ہے اور اس حوالے سے اسے کافی تشویش لاحق ہے۔ تاحال اس معاملے پر عالمی سطح پر کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عالمی طاقتیں اور ثالثی کرنے والے ادارے دونوں ممالک پر زور دیں گے کہ وہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی تاریخ شروع ہی سے تناؤ اور کشیدگی سے عبارت رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 1965ء اور 1971ء کی دو بڑی جنگوں کے علاوہ کارگل اور سیاچن جیسے متعدد جنگی معرکے بھی ہو چکے ہیں۔ البتہ دونوں ممالک کے درمیان بعض مواقع پر سنجیدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی رویوں کا مظاہرہ بھی ہوا ہے جن میں سے ایک کا نتیجہ 1960ء میں ’’انڈس واٹر ٹریٹی‘‘ یا ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچہ یہ معاہدہ اب تک دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے بنیادی فریم ورک کا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے لیکن اب بھارت کی جانب سے اس کی معطلی نے خطے میں ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب پاکستان ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا تو اسے نہ صرف زمینی سرحدوں کی حفاظت بلکہ قدرتی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ ان وسائل میں سب سے اہم دریاؤں کا نظام تھا جو برصغیر کی زراعت اور معیشت کے لیے ناگزیر تھا۔ تقسیم سے قبل پورے خطے میں دریاؤں کا ایک مربوط نظام تھا جو برطانوی حکومت کے زیر انتظام تھا، لیکن تقسیم کے بعد چونکہ کئی دریا پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے بھارت کی حدود سے گزرتے تھے، اس لیے اس صورتحال نے پاکستان کے لیے پانی کی تقسیم کو ایک سنگین اور فوری مسئلہ بنا دیا۔
تقسیم کے اگلے ہی سال 1948ء میں بھارت نے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں کا پانی روک دیا تھا جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں زرعی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں ورلڈ بینک نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ طویل بات چیت اور تکنیکی مشاورت کے بعد بالآخر 19 ستمبر 1960ء کو کراچی میں اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان اور بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے ’’انڈس واٹر ٹریٹی‘‘ پر دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت چھ بڑے دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
(1) مشرقی دریا: ستلج، بیاس اور راوی — جن پر بھارت کو مکمل اختیار دیا گیا تھا۔
(2) مغربی دریا: سندھ، جہلم اور چناب — جن کا پانی پاکستان کے لیے مخصوص کیا گیا تھا، البتہ بھارت کو مخصوص غیر زرعی مقاصد کے محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔
معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو متبادل نہری نظام کی تعمیر کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی جس کے لیے ورلڈ بینک، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور نیوزی لینڈ وغیرہ نے مالی وسائل مہیا کیے، ان فنڈز سے پاکستان نے تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور مختلف نہروں کا ایک وسیع جال بچھایا۔
اگرچہ اس معاہدے کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا جاتا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اس پر سوالات بھی اٹھتے رہے ہیں مثلاً پاکستان کے کچھ حلقوں کی نظر میں یہ ایک منصفانہ معاہدہ نہیں ہے کیونکہ اس میں مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت کا مکمل اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بھی پاکستان کے تحفظات چلے آ رہے ہیں جنہیں وہ عالمی فورمز پر اٹھاتا رہا ہے۔
معاہدہ کی نگرانی کے لیے ’’انڈس واٹر کمیشن‘‘ قائم کیا گیا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے کمشنرز سال میں کم از کم ایک بار ملاقات کرتے تھے۔ اس معاہدے نے طویل عرصے تک دونوں ممالک کو پانی کے مسئلے پر کسی بھی کھلی جنگ سے محفوظ رکھا، اور یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس نے شدید سیاسی تنازعات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کو ایک منظم قانونی دائرہ کار میں رکھا۔ موجودہ دور میں جب پانی کی قلت ایک عالمی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، اس معاہدے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی، لیکن بھارت کی جانب سے اس کی حالیہ معطلی نے اس پورے منظرنامہ کو تبدیل کر دیا ہے اور خطے میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک نیا اور تشویشناک مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اس صورتحال کا نوٹس لے اور دونوں ممالک کو اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سے اس تنازعہ کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی طرف راغب کرے۔