سلامتی کونسل کی ویٹو پاور کی سیاست نے اقوام متحدہ کے اعتبار کو کیسے مجروح کیا ہے

By admin, 10 May, 2025

جب امریکہ نے نومبر کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک اور قرارداد کو ویٹو کیا، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تو اس سے عالمی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا۔ 

ناقدین نے کہا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ، جو سلامتی کونسل کے دیگر 14 ارکان کے خلاف تھا، اس علاقے میں شہریوں کے مصائب کو طول دے گا اور مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کو بڑھائے گا۔

لیکن اس کا ایک اور وسیع تر اثر ہوا جو واشنگٹن کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ ویٹو نے سلامتی کونسل کے اعتبار کو مزید مجروح کیا جس سے اس کی تنظیمِ نو کے مطالبات نئے سرے سے سامنے آئے ہیں۔

یہ ادارہ، جسے بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے دنیا کا اولین ادارہ ہونا چاہیے، اپنے مستقل ارکان کے مفادات کی وجہ سے مفلوج ہو چکا ہے، جس سے عالمی بحرانوں سے نمٹنے کی اس کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ 

دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد 1946ء میں قائم ہونے والی سلامتی کونسل کی تشکیل بڑی حد تک غیر تبدیل شدہ رہی ہے۔ پانچ مستقل ارکان، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قراردادوں کو ویٹو کر سکتے ہیں، اگرچہ ان کی مخالفت میں بہت زیادہ ووٹ ہوں۔

اب اسے عمومی طور پر جنگِ (عظیم دوم) کے بعد کے عالمی نظام کے ایک ناکام جزو کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو دنیا کی آبادی کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرتا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے تنازعات کے دوران ان لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام رہتا ہے جو سب سے زیادہ مصیبت میں ہوتے ہیں۔ 

اعداد و شمار

  • 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں 45,000 سے زائد جانیں گئیں۔
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کا موجودہ عالمی آبادی میں 26 فیصد حصہ ہے۔
  • اسرائیل-حماس تنازعہ سے غزہ کی آبادی کا بے گھر ہونے والا تناسب 90 فیصد ہے۔
  • غزہ جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 8 قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کیا۔
  • 1970ء کے بعد امریکہ نے اسرائیل سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 49 قراردادوں کو ویٹو کیا۔

لینکاسٹر یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کے تحقیقی مرکز SEPAD کے ڈائریکٹر سائمن میبن نے عرب نیوز کو بتایا، ’’ہم نے غزہ میں جو کچھ دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایک بہت زیادہ سیاسی ادارہ بن گیا ہے، جو جغرافیائی سیاسی رقابتوں کے ذریعے مفلوج ہو چکا ہے۔‘‘

’’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سے اقوام متحدہ قائم ہوئی ہے یہی سلسلہ رہا ہے۔  ویٹو پاور پر مشتمل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ڈھانچہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کے ارکان انسانی مقاصد کے وسیع تر عزم کی بجائے فیصلوں کو اپنی تزویراتی ترجیحات کے حوالے سے دیکھیں۔‘‘

پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار امریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ کو دوسری جنگِ عظیم کے مرکزی فاتحین کے طور پر تسلیم کرنے کی بدولت ہے۔ 

عرب نیوز میں اقوام متحدہ کے امور کے صحافی افرائیم کوسیفی نے کہا، ’’امریکہ نے چین کی شمولیت کے لیے زور دیا، جبکہ برطانیہ نے ممکنہ جرمنی یا سوویت خطرات کے پیش نظر یورپی توازن کے طور پر فرانس کی وکالت کی۔‘‘

’’تاہم یہ ڈھانچہ تب سے غیر تبدیل شدہ رہا ہے، نتیجتاً‌ سلامتی کونسل میں اصلاحات کے ڈھیروں مطالبات سامنے آئے ہیں تاکہ وہ آج کے عالمی نظام کے حقائق کی عکاسی کر سکے۔‘‘

سلامتی کونسل امن برقرار رکھنے کے لیے تمام 193 رکن ممالک پر ایسے فیصلے نافذ کر سکتی ہے جن پر عملدرآمد لازمی ہے۔ اس کے 5 مستقل ارکان، جنرل اسمبلی کے منتخب کردہ 10 غیر مستقل ارکان کے ساتھ مل کر، سلامتی کے حوالے سے خطرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں (سلامتی کونسل کے) ارکان کے ایک دوسرے سے متضاد مفادات نے شام کی جنگ، کوویڈ 19، یوکرین پر روس کے حملے، اور حال ہی میں اسرائیل حماس تنازعہ جیسے عالمی بحرانوں کے حوالے سے مؤثر پیشرفت کرنے میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

سلامتی کونسل کو اپنی تشکیل کے فوراً‌ بعد ہی اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کے سرد جنگ میں داخل ہونے کے ساتھ ہی امریکہ اور سوویت یونین کی دشمنی عالمی سطح پر ہاٹ سپاٹس (اتحادیوں/مفادات کی جگہوں) کے ذریعے پھیل گئی۔

نتیجے کے طور پر بہت کم کام ہوا۔ سوویت یونین نے 1991ء میں تحلیل ہونے تک 120 ویٹو استعمال کیے جو باقی ارکان سے بہت زیادہ تھے۔ ’’دی کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ کے مطابق 1948ء اور 1989ء کے درمیان صرف 18 امن مشنوں کی اجازت دی گئی۔

اس کے برعکس 1991ء سے سلامتی کونسل نے 48 امن مشنوں کی منظوری دی ہے۔

1970ء کے بعد امریکہ اپنے پہلے ویٹو کے استعمال کے بعد سے سلامتی کونسل کے ووٹوں کو ویٹو کرنے والا اولین مستقل رکن بن گیا ہے، جس نے کم از کم 85 بار یہ اختیار استعمال کیا ہے، ان میں سے نصف سے زیادہ ویٹو کا استعمال اسرائیل سے متعلق قراردادوں کو روکنے کے لیے تھا۔

حالیہ برسوں میں روس نے بھی اپنا ویٹو مسلسل استعمال کیا ہے، خاص طور پر شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے، جہاں اس نے صدر بشار الاسد کا دفاع کیا، اور یوکرین تنازعہ میں بھی۔

ویٹو ایک طاقتور ہتھیار ہے جو اکثر (مستقل ارکان کے) قومی مفادات، اتحادوں، اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکہ اور روس کے لیے ویٹو کا استعمال اپنے تزویراتی اتحادیوں کی حفاظت اور اپنے وسیع تر خارجہ پالیسی کے اہداف کو آگے بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔

سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے ایک اور بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1946ء کے بعد سے دنیا کی آبادیاتی صورتحال بدل گئی ہے۔ اس کے قیام کے وقت پانچ مستقل ارکان دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کی نمائندگی کرتے تھے، اب وہ صرف 26 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یوں یہ ادارہ یورپ اور مغرب کی طرف بہت زیادہ جھکا ہوا ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادیوں، دولت؛ اور ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اثر و رسوخ کو نظر انداز کر رہا ہے۔

فلسطین پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سابق خصوصی نمائندے مائیکل لنک نے عرب نیوز کو بتایا، ’’سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کی طرف سے ویٹو کا استعمال دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی (ناکام) باقیات ہے۔‘‘

’’یہ آج کی طاقت کی تقسیم یا جنرل اسمبلی میں موجود گلوبل ساؤتھ (ترقی پذیر ممالک) کی غیر معمولی طور پر بڑی موجودگی کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔‘‘

غزہ تنازعہ سے یہ عدمِ توازن واضح ہو گیا ہے، جس کے بارے میں لنک نے کہا کہ اس نے گہری عالمی تقسیم کو اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’غزہ پر اسرائیلی جنگ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کے درمیان ایک غیر معمولی چپقلش کو بے نقاب کرتی ہے۔‘‘ ’’ترقی پذیر اقوامِ متحدہ کے ووٹوں میں زبردست طور پر فلسطین کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ اس سے گریز یا مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

’’فلسطین کی حمایت میں عالمی اکثریت موجود ہے، لیکن امریکہ اسرائیل اتحاد کی قیادت میں ترقی یافتہ قوتوں کی طاقتی سرگرمیاں اس اکثریت کو نظر انداز کرتی ہیں۔‘‘

غزہ کے معاملے میں، امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم اتحادی اسرائیل کی حمایت میں 20 نومبر کو جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ جیووِش ورچوئل لائبریری کے مطابق یہ 49 واں موقع تھا جب امریکہ نے اسرائیل سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کیا۔

سفارتی حمایت کے علاوہ امریکہ اسرائیل کو سالانہ تقریباً 3 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔

لیکن ویٹو سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے دیگر اہم اتحادیوں کے ناراض ہونے اور واشنگٹن کے سفارتی موقف کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، خاص طور پر گلف کواپریشن کونسل کے ساتھ، جس نے حال ہی میں غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

قرارداد میں غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی قیادت میں ہونے والے حملے کے دوران پکڑے گئے تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی، اور بلاروک ٹوک انسانی امدادی سرگرمیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کا مقصد خوراک، پانی اور طبی دیکھ بھال جیسی ضروری خدمات تک رسائی کو یقینی بنا کر انسانی بحران سے نمٹنا تھا۔ یہ اسرائیل کو اس علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے سے روکتی، جسے 14 ماہ کی فوجی کارروائیوں سے تباہ کر دیا گیا ہے جس میں جنگجوؤں سمیت تقریباً 45,000 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

قرارداد کو ویٹو کرتے ہوئے امریکہ نے استدلال کیا کہ شرائط کے بغیر جنگ بندی حماس کو دوبارہ منظم ہونے اور اسرائیل پر حملے جاری رکھنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے قرارداد پر یہ تنقید کی کہ جنگ بندی کو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ خاص طور پر مشروط نہیں کیا گیا۔

لنک نے کہا، ’’یہ غلط ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد نے یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ جنگ بندی کو مشروط کیا تھا بلکہ اسی پیراگراف میں ایسا کیا گیا تھا۔ ویٹو کے استعمال کے بعد امریکہ پر غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو سہولت دینے کا الزام لگایا گیا۔

تنازعہ شروع ہونے کے بعد سلامتی کونسل نے 12 قراردادوں پر ووٹ دیا۔ ان میں سے آٹھ کو ویٹو کیا گیا، چھ امریکہ کی طرف سے، اور چار مواقع پر امریکہ واحد مستقل رکن تھا جس نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

لنک نے کہا، ’’یہ سلسلہ اسرائیل کے لیے امریکہ کے سفارتی ڈھال کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔‘‘ ’’عملی طور پر یوں ہوتا ہے کہ اسرائیل مخالف قراردادوں کو امریکہ روک دیتا ہے، یا پھر ایسی صورت میں منظور ہونے دیتا ہے کہ ان پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔‘‘

خلیج میں، سعودی عرب اور قطر نے کہا کہ ویٹو نے سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ظاہر کی ہے۔

غزہ کے متعلق فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ادارے کی ناکامی عالمی قیادت کو متاثر کرنے والے وسیع تر مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ 

یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی اس تجزیہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ ستمبر میں انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’’سچ کہوں تو ہمارے پاس کوئی حقیقی طاقت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا وہ ادارہ جس کے پاس کچھ طاقت ہے وہ سلامتی کونسل ہے، اور آپ جانتے ہیں، سلامتی کونسل مفلوج ہے۔‘‘

کوسیفی نے خبردار کیا کہ اس طرح کی بے بسی اقوام متحدہ پر عوام کے اعتماد کو ختم کرتی ہے۔ 

انہوں نے کہا، ’’جب سڑک پر چلنے والا شخص دیکھتا ہے کہ سلامتی کونسل امن اور سلامتی کو خطرہ بننے والے انتہائی دباؤ والے حالات میں، ایک رکن کے استحقاق (ویٹو) کے استعمال کی وجہ سے، کارروائی کرنے میں ناکام ہے، تو پوری تنظیم پر سے اس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔‘‘

لینکاسٹر یونیورسٹی کے میبن نے کہا کہ جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے میں سلامتی کونسل کی نااہلی سے واضح ہو گیا ہے کہ تزویراتی فیصلے انسانی ضروریات اور مفادات پر غالب آ رہے ہیں، جو میرے خیال میں اس وقت عالمی سیاست کی نوعیت (جو بن گئی ہے، اس) کی علامت ہے۔

’’یہ عالمی منصوبے کی ایک بڑی ناکامی، عالمی قوموں کی ایک بڑی ناکامی، اور انسانیت پر ایک دھبہ ہے۔‘‘

غزہ پر بین الاقوامی برادری کا ردعمل اس بڑھتے ہوئے اتفاقِ رائے کو اجاگر کرتا ہے کہ اقوام متحدہ جیسے کثیر الجہتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

آنے والے برسوں میں اقوام متحدہ کی اثرانگیزی اور قانونی حیثیت پر بحث جاری رہے گی، کیونکہ عالمی سفارت کاری کو تشکیل دینے میں بڑی طاقتوں کے کردار کا اب مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے۔

لنک نے ایسی اصلاحات تجویز کیں جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو، انتہائی اکثریتی ووٹ کے ذریعے سے، سلامتی کونسل کے ویٹو کو کالعدم کرنے کے قابل بنائیں گی  اور یوں ’’پانچ مستقل ارکان کے شکنجے کا مقابلہ کرنے کے لیے جمہوری نگرانی‘‘ متعارف کرائیں گی۔

ان مستقل پانچ ارکان کو ان اصلاحات پر رضامند کرانا یقیناً‌ ایک مسئلہ ہے، جو ان کے ویٹو اختیارات کو کمزور یا ختم کرتی ہیں۔ لنک نے کہا، ’’لیکن اس طرح کی اصلاحات کے لیے لڑنا فائدہ مند ہو گا۔‘‘

جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ آج کے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں، غزہ میں جانوں کے تحفظ میں سلامتی کونسل کی ناکامی سے، ممکنہ طور پر بین الاقوامی امن کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار اس ادارے کی اصلاحات کی طرف تیزی سے پیش رفت ہو سکتی ہے۔

www.arabnews.com