’’ ابراہیم معاہدات‘‘ کئی معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس کے تحت امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل اور متعدد عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر لائے گئے۔ ابتدائی معاہدوں پر اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے وائٹ ہاؤس میں دستخط کیے تھے۔
یہ دراصل امریکہ کی طرف سے ایک ایسا اقدام ہے جس کے ذریعے وہ علاقائی سلامتی کے ضامن کے طور پر اپنا اثر و رسوخ ظاہر کرنا چاہتا ہے، نیز مشرقِ وسطیٰ کے لیے امن کوششوں کی آڑ میں اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کو پس پشت ڈالنا چاہتا ہے۔
ان معاہدات کا بنیادی مقصد اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان مکمل سفارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنا ہے۔ اس میں سفارت خانے کھولنا، سفیروں کا تبادلہ کرنا اور تجارت، سیاحت، ٹیکنالوجی اور سلامتی جیسے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔
اگرچہ ایک عام اعلامیہ موجود ہے لیکن ابراہیم معاہدات میں اسرائیل اور تعلقات قائم کرنے والے ہر ملک کے درمیان مخصوص دو طرفہ معاہدے بھی شامل ہیں۔
ابتدائی دستخط کنندگان میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں جنہوں نے 15 ستمبر 2020ء کو معاہدہ پر دستخط کیے۔ جبکہ سوڈان نے 23 اکتوبر 2020ء کو اور مراکش نے دسمبر 2020ء میں دستخط کیے۔
اس سے پہلے اسرائیل کا 1979ء میں مصر کے ساتھ اور 1994ء میں اردن کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے۔
حالیہ ابراہیم معاہدات کے محرکات میں ایران کے علاقائی اثر و رسوخ پر اسرائیل اور عربوں کی مشترکہ تشویش، اور تجارت و سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی فوائد کے امکانات نمایاں ہیں۔
’’ابراہیم معاہدات‘‘ کا نام یہودیت اور اسلام کی مشترکہ ابراہیمی میراث کو اجاگر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، جس میں بقائے باہمی اور بھائی چارے کے امکان پر زور دیا گیا تھا۔
ان معاہدات کے نتیجے میں دستخط کرنے والے ممالک کے درمیان حکومتی سطح پر تجارت، سیاحت اور سکیورٹی کے تعاون میں پیش رفت ہوئی۔ البتہ عرب ممالک میں اسے عوامی پذیرائی نہیں ملی جبکہ حالیہ اسرائیلی فلسطینی کشیدگی نے ان معاہدوں کو بڑی حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے۔
ڈکلیریشن
’’ہم، دستخط کنندگان، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں باہمی افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی بنیاد پر امن برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، نیز انسانی وقار اور آزادی کے احترام کو بھی، بشمول مذہبی آزادی کے۔
ہم تینوں ابراہیمی مذاہب اور تمام انسانیت کے درمیان امن کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ چیلنجوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ تعاون اور مکالمہ ہے اور یہ کہ ریاستوں کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنا مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں دیرپا امن کے حصول میں مدد دے گا۔
ہم ہر شخص کے لیے رواداری اور احترام کے خواہاں ہیں تاکہ اس دنیا کو ایک ایسی جگہ بنایا جا سکے جہاں سب لوگ اپنی نسل، عقیدے یا قومیت سے قطع نظر، وقار اور امید کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ہم سائنس، فن، طب اور تجارت کی حمایت کرتے ہیں تاکہ بنی نوع انسان (کی سوچ) کو متاثر کیا جا سکے، انسانی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے اور قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے۔
ہم انتہا پسندی اور تنازعات کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ تمام بچوں کو ایک بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
ہم مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے ایک تصور کی پیروی کرتے ہیں۔
اس جذبے کے تحت، ہم اسرائیل اور خطے میں اس کے پڑوسیوں کے درمیان معاہدۂ ابراہیمی کے اصولوں کے تحت پہلے سے قائم کیے گئے سفارتی تعلقات میں ہونے والی پیش رفت کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہم مشترکہ مفادات اور ایک بہتر مستقبل کے لیے مشترکہ عزم کی بنیاد پر ایسے دوستانہ تعلقات کو مستحکم اور وسیع کرنے کی جاری کوششوں سے بھی حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں۔‘‘