1957ء میں امریکی دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان حسین شہید سہروردی کا انٹرویو

By admin, 24 May, 2025

قوم! آپ حسین شہید سہروردی، وزیر اعظم پاکستان کو ’’فیس دی نیشن‘‘ پر تجربہ کار نامہ نگاروں کے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ ان میں واشنگٹن پوسٹ اور ٹائمز ہیرالڈ کے سفارتی نامہ نگار چالمیرز رابرٹس، سی بی ایس نیوز کے بل ڈاؤنز، اور نیوزویک کے واشنگٹن بیورو سے جان میڈیگن شامل ہیں۔ اور اب، سی بی ایس نیوز اور پبلک افیئرز سے سٹیورٹ نووینس کی جگہ ’’فیس دی نیشن‘‘ کے میزبان جارج ہرمین ہیں۔

جارج ہرمین: جہاں تک مغربی پالیسی کا تعلق ہے، ایک قوم پریشان مشرقِ وسطیٰ اور ممکنہ طور پر پریشان کن مشرق بعید کے درمیان زمینی پل کا کام کرتی ہے۔ یہ قوم پاکستان ہے، ایک مسلم جمہوریہ، جس کے ایک محاذ پر ایران اور عرب دنیا ہے، اور دوسرے پر برما اور ایشیائی دنیا ہے۔ پاکستان کی مغربی حامی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم حسین شاہد سہروردی ہیں، جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور مزدور تنظیموں کے لیے کام کرنے کا پس منظر رکھتے ہیں اور وسیع ترین ممکنہ جمہوریت کے دلدادہ ہیں۔ ان کی شہرت صاف گو اور بے باک تقریر کے لیے ہے، اور اب ہم یہ دیکھیں گے جب ہم مسٹر میڈیگن سے اپنا پہلا سوال لیں گے۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، آپ نے اور صدر آئزن ہاور نے اپنی کانفرنسوں میں کیا حاصل کیا جو سفارتی سطح پر یا ہمارے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور آپ کے دفتر خارجہ کی ملاقاتوں کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا؟

سہروردی: جی، مجھے لگتا ہے کہ ذاتی رابطوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، اور ہم ذاتی رابطے سے امریکی نظریے اور امریکی سیاست کے بارے میں کچھ مزید سمجھتے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ صدر آئزن ہاور اور سیکریٹری ڈالس بھی میرے ذہن کو اس سے بہتر سمجھتے ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں۔

بل ڈاؤنز: مسٹر سہروردی، اعلامیے میں فوجی امداد کا کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔ آپ کی قوم سیٹو اور بغداد پیکٹ کے درمیان ایک پل ہے۔ کیا آپ کو اضافی فوجی امداد ملی؟

سہروردی: مجھے نہیں معلوم، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہم ہر وقت اپنی فوجی ضروریات کا جائزہ لے رہے ہیں، مسٹر ڈاون۔ صورتحال دراصل یہ ہے کہ ہم اتنی زیادہ فوجی امداد نہیں مانگ رہے ہیں جس سے ہمیں ملنے والی تمام امداد کو ہضم کرنا مشکل ہو جائے۔ ہم صرف اتنی فوجی امداد چاہتے ہیں جو ہمیں جارحیت سے بچا سکے۔

چالمیرز رابرٹس: جناب، آپ نے صدر اور سیکریٹری سے بات کرتے ہوئے کچھ اضافی فوجی سازوسامان مانگا تھا، کیا یہ درست ہے؟

سہروردی: ہم نے اس کا جائزہ لیا ہے اور جو صورتحال ہے ہم مسلسل اپنی ضروریات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس وقت میری رائے یہ ہے کہ ہمیں کافی فوجی امداد نہیں ملی ہے۔

چالمیرز رابرٹس: جو اعلامیہ آپ نے صدر کے ساتھ مشترکہ طور پر جاری کیا ہے، اس میں آپ کی حکومت پر آپ کی فوجی افواج کو برقرار رکھنے کے حوالے سے سنگین مالی دباؤ کی بات کی گئی ہے، جو کہ یقیناً امریکی افواج کے ساتھ دنیا کے اُس حصے میں دو مخصوص معاہدوں میں اتحادی ہیں۔ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے، وہ مالی دباؤ کیا ہیں اور آپ ہم سے ان کو کم کرنے میں مدد کے لیے کیا کرنے کو کہہ رہے ہیں؟

سہروردی: مسٹر رابرٹس، صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ریونیو اور ہماری آمدنی ہماری فوجی سازوسامان کو مناسب معیار پر برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ جب میں مناسب معیار کہتا ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہمیں جارحیت سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ہماری اس حد تک مدد کرے کہ ہم کسی بھی طرف سے حملے کے خوف کے بغیر اپنے تعاون پر مبنی اور تعمیری کام جاری رکھ سکیں۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، جارحیت کی اگر بات کریں تو ہندوستانی کہتے ہیں کہ انہیں کشمیر کے علاقے میں پاکستان کی طرف سے حملے کا خدشہ ہے۔ کیا آپ وہ علاقہ حاصل کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس پر آپ کے خیال میں آپ کا حق ہے؟

سہروردی: یقیناً نہیں، ہم بیوقوف نہیں ہیں، ہندوستانی ہم سے بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ یہ ہندوستانی تھے جنہوں نے اپنی افواج کو پاکستان کی سرحدوں پر دو بار منتقل کیا، ایک بار 1950ء میں، اور دوسری بار 1951ء میں۔ ہم نے کبھی اپنی افواج کو ان کی سرحدوں پر (اس طرح) منتقل نہیں کیا۔

چالمیرز رابرٹس: جناب وزیر اعظم، اور آپ نے ابھی صدر کے ساتھ اس اعلامیے میں کہا ہے کہ آپ نے اپنے ہندوستانی پڑوسی کے ساتھ اس کشمیر کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنے کا عہد کیا ہے۔ جب کہ ایک تقریر میں جو آپ نے اپنی پارلیمنٹ میں یہاں آنے سے کچھ عرصہ پہلے کی تھی، آپ نے کہا تھا کہ ’’ہم اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کے حوالے سے اپنی آخری کوشش کر چکے ہیں، ہم ان حالات میں مزید نہیں رہ سکتے، ہم اس معاملے کو ہندوستانیوں کے ساتھ براہ راست حل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے، آپ اسے کیسے حل کریں گے؟

سہروردی: مسٹر رابرٹس، میرا خیال ہے کہ آپ مجھے غلط سمجھے ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ جہاں تک ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا تعلق ہے اور کشمیر کا مسئلہ ہے، ہم نے باہمی بات چیت اور رابطوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ اس لیے ہم نے اب اقوام متحدہ سے رجوع کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اقوام متحدہ انصاف کرے گی۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، کیا آپ کو لگتا ہے کہ صدر آئزن ہاور آپ کو امریکہ کے ذریعے اقوام متحدہ میں مضبوط حمایت مہیا کریں گے، تاکہ آپ کے مطالبات کو پورا کیا جا سکے؟

سہروردی: جی، مجھے اس کا یقین ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو میں بہت مایوس ہوں گا، کیونکہ میں ان سے اس احساسِ انصاف کی توقع کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں تاکہ ہمارے درمیان معاملات حل ہو جائیں۔

جان میڈیگن: انہوں نے ایسا کہا ہے، اور آپ نے اعلامیے میں یہ بتایا ہے کہ انہیں امید ہے کہ یہ (کشمیر کا معاملہ) ایک منصفانہ بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے تحت حل ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ اصطلاح ہے جو استعمال کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے اقوام متحدہ میں امریکہ کی طرف سے واضح طور پر کیا کارروائی کی جانی چاہیے؟

سہروردی: مسٹر میڈیگن، مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کو سلامتی کونسل میں اور بعد میں جنرل اسمبلی میں، اگر ہمارے لیے جنرل اسمبلی میں جانا ضروری ہو تو، اپنا وزن اور اثر و رسوخ اور اپنی قائل کرنے کی صلاحیت استعمال کرنی چاہیے تاکہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی ہمارے مقدمے کی سچائی جان سکیں۔

جان میڈیگن: آپ کہتے ہیں کہ امریکہ کو ایسا کرنا چاہیے۔ کیا صدر نے کہا ہے کہ ہم ایسا کریں گے؟

سہروردی: جی، مجھے امید ہے کہ وہ کریں گے۔

جان میڈیگن: انہوں نے ایسا کہا ہے؟

سہروردی: اگر انہوں نے ایسا کہا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ کریں گے۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، ہم لوگ کشمیر اور آپ کے ملک میں دریائے سندھ کے پانی کے تنازعات سے واقف ہیں۔ ہندوستانیوں نے ایسے ڈیم بنانے کی دھمکی دی ہے جو آپ کے آبپاشی کے پانی کا ایک بڑا حصہ بند کر دیں گے۔ ماضی میں ہمارے ہاں مغرب میں اس مسئلے پر جنگیں ہو چکی ہیں، اور اب بھی میرا خیال ہے کہ کیلیفورنیا اور باقی جگہوں پر (یہ مسائل ہیں)۔ اگر ہندوستان نے یہ ڈیم بنائے اور اس طرح سے آپ کا ذریعہ معاش بند کر دیا تو کیا آپ جنگ کریں گے؟

سہروردی: ہمیں ایسی فرضی باتوں کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ میں نہیں سوچ سکتا کہ ہندوستان کبھی اتنا، میں یہ لفظ کہوں گا، کہ اتنا وحشی ہو جائے گا کہ ہمارے دریاؤں سے پانی بہنا بند کر دے۔

بل ڈاؤنز: تو اس کا حل کیا ہے؟

سہروردی: آپ جانتے ہیں کہ چھ دریا ہیں، ان میں سے زیادہ تر کشمیر سے نکلتے ہیں۔ اسی لیے کشمیر ان پانیوں کی وجہ سے ہمارے لیے بہت اہم ہے جو ہماری زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ یہ ہندوستانی زمینوں کو سیراب نہیں کرتے۔ اب ہندوستان نے کیا کیا ہے، وہ دھمکی نہیں دے رہا، حقیقت میں، وہ آج کل ایک ڈیم بنا رہا ہے اور وہ تین دریاؤں کا پانی اپنی کچھ زمینوں کو سیراب کرنے کے مقصد سے بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اب اگر وہ بغیر کسی متبادل کے ایسا کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہم بھوکے مر جائیں گے اور لوگ پیاس سے مر جائیں گے۔ ان حالات میں (ویسے تو) مجھے امید ہے کہ ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہو گی، مگر آپ واقعی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح مرنے کی بجائے لوگ لڑ کر مریں گے، کیونکہ یہ جارحیت کی بدترین شکل ہو گی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے قیامِ امن کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور یہ ذمہ داری لیتے ہیں کہ ہمارے جیسے ممالک کے درمیان معاملات حل ہو جائیں، وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کریں گے کہ ہندوستان ایسا کوئی وحشیانہ کام نہ کرے۔

چالمیرز رابرٹس: جناب وزیر اعظم، یہ تو مستقبل کی ایک صورتحال ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں آپ سے کشمیر کے تنازعے کے بارے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہندوستانی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ سب سے پہلے آپ کو اپنی فوجیں کشمیر سے نکالنی چاہئیں۔ اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے دیگر تمام اقدامات اسی پر منحصر ہوں گے، بشمول استصوابِ رائے کے مطالبے کے۔ اور یہ کہ آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ پاکستان کا اس الزام کا کیا جواب ہے؟

سہروردی: پاکستان کی طرف سے اس الزام کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں، جس کی توثیق ابھی حال ہی میں غالباً‌ 23 یا 24 جنوری 1957ء کو ہوئی ہے، آخر یہ معاملہ ہندوستان نے سلامتی کونسل کے سامنے اٹھایا تھا، یہ دعویٰ مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صحیح تشریح نہیں ہے۔ یہ مسٹر نہرو کی طرف سے پیش کیے گئے محض بہانے دکھائی دیتے ہیں تاکہ ان کی ہٹ دھرمی کی کوئی مناسب توجیہ قائم کی جا سکے۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، اس پچھلے اتوار کو اسی شو میں، مسٹر نہرو نے آپ سے 100 فیصد اختلاف کیا تھا۔

سہروردی: اچھا، میں مسٹر نہرو سے 100 فیصد سے زیادہ اختلاف کرتا ہوں، اگر یہ ممکن ہو۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اس وقت تک حقیقی امن ہو سکتا ہے جب تک آپ مذہبی مسئلے کو حل نہیں کر لیتے؟ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو شاید سولائزیشن کی تاریخ میں سب سے بڑا خون خرابہ ہوا تھا، لاکھوں لوگ مذہبی وجوہات کی بنا پر ذبح ہوئے تھے۔ کیا ہندو اور مسلمان کے درمیان تنازعے کا کوئی حل ہے؟

سہروردی: وہ معاملہ طے پا چکا ہے۔ ہندوستان اسی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا۔ یہ سانحات رونما ہوئے، خاص طور پر پنجاب کے دونوں حصوں کے درمیان، کیونکہ جذبات بہت زیادہ تھے۔ اس کے بعد حالات معمول پر ہیں۔ ہندوستان کی آبادی کا آٹھواں حصہ مسلمان ہے، جبکہ پاکستان کی آبادی کا آٹھواں حصہ غیر مسلم ہے۔ ہم اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، 1950ء کے بعد سے ہمارے ہاں کوئی ایک بھی فساد نہیں ہوا، جب نہرو اور مرحوم لیاقت علی خان نے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں کچھ معاہدہ کیا تھا۔ (اس کے برعکس) ہندوستان میں میری معلومات کے مطابق اس وقت سے اب تک 402 فسادات ہو چکے ہیں۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، چند ماہ پہلے جب مسٹر نہرو یہاں امریکہ میں تھے، ہمارے ایک ساتھی نے انہیں درمیانی راستہ اختیار کرنے والا پراسرار آدمی کہا تھا۔ یعنی وہ مسٹر نہرو کے غیر جانبداری اور غیر وابستگی کے موقف کا حوالہ دے رہے تھے۔ سرد جنگ میں مسٹر نہرو کے موقف کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

سہروردی: مجھے لگتا ہے کہ مسٹر نہرو خود اپنی پوزیشن نہیں سمجھتے۔ مسٹر نہرو کبھی ایک طرف جھکتے ہیں، کبھی دوسری طرف۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں دنیاؤں کا بہترین فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ ان کے لیے فائدہ مند ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ابھی تک وہ اس کی وجہ سے کسی مشکل میں نہیں پڑے۔

جان میڈیگن: لیکن جناب آپ بھی کچھ عرصہ پہلے تک غیر وابستگی کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

سہروردی: نہیں، مجھے نہیں لگتا، بالکل نہیں۔

جان میڈیگن: کیا آپ (اختلاف کریں گے)؟ آپ کو 1953ء، 1954ء تک کسی بھی فریق سے منسلک نہ ہونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ آپ نے اس وقت سے کچھ سیکھا ہے جس نے آپ کو مغرب سے مضبوطی سے جوڑ دیا ہے۔ کیا میں درست نہیں ہوں؟

سہروردی: جی ہاں، صورتحال یہ تھی، اگر میں اپنے ذہن کو پیچھے لے جاؤں تو یہ 1950ء کی بات ہے جب دفاعی معاہدوں اور اتحادوں کا معاملہ چل رہا تھا، تو کچھ عرصہ اس پر غور نہیں کیا گیا تھا اور دنیا کے تنازعے سے الگ رہنا مناسب سمجھا تھا۔ اور میں اب بھی یہ کہوں گا کہ جو پالیسی میں نے اپنے ملک کے لیے بنائی ہے وہ یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر سگالی کی جائے اور کسی کے ساتھ کوئی کینہ نہ رکھا جائے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم چمکتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر ہوا میں تلواریں چلانا شروع کر دیں۔ 1953ء یا 1954ء میں مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کبھی یہ کہا ہو کہ ہمیں کسی بھی ملک کے ساتھ خود کو منسلک نہیں کرنا چاہیے۔

اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے پاس ہماری سیاسی صورتحال اور تیاری کی صورتحال کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں۔ کیونکہ حکومت نے نہ تو ملک کو اور نہ ہی اپوزیشن کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس لیے میں نے کہا تھا کہ چونکہ میرے پاس کافی معلومات نہیں ہیں اس لیے میں اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ ہماری پالیسی کیا ہونی چاہیے۔

اسی طرح میں نے حال ہی میں کہا ہے کہ مجھے صورتحال کے بارے میں مزید معلوم ہوا ہے اور میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ پاکستان کو جارحیت سے محفوظ رکھنے اور مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی کو یقینی بنانے کا واحد طریقہ یہ دفاعی معاہدے ہیں جن میں ہم شامل ہوئے ہیں۔

چالمیرز رابرٹس: جناب وزیر اعظم، کچھ شواہد کہتے ہیں کہ پاکستان کے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ ان معاہدوں میں شمولیت اختیار کرنے کی وجہ، کم از کم جزوی طور پر، فوجی وجوہات کے علاوہ بھی کچھ ہے، یعنی ان کا تعلق اقتصادی وجوہات سے ہے کہ حقیقت میں آپ کے بجٹ کا تقریباً‌ 40 فیصد حصہ امریکہ کی طرف سے آتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

سہروردی: جی، ہمیں بجٹ میں کسی حد تک مدد ملتی ہے لیکن یہ وہ وجہ نہیں ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ منسلک ہوئے ہیں۔ ہم اسی موقف پر قائم ہیں جس کے لیے ہم لڑے تھے، ان بنیادی مذہبی اصولوں کی وجہ سے جو ہم مانتے ہیں۔ لہٰذا اس کا اقتصادی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخرکار اگر اقوام متحدہ ہماری مدد کر رہا ہے جیسا کہ وہ 40 دوسرے ممالک کی مدد کر رہا ہے، تو یہ بالکل مختلف معاملہ ہے۔ لیکن ہم اپنی آزادی کو، اپنی فکری آزادی کو، یہاں تک کہ عمل کی آزادی کو ان اقتصادی وجوہات اور اسباب کی بنا پر طے نہیں کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ اس (مالی امداد) کو روکنے کا فیصلہ کرتا ہے، تب بھی ہم اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔

چالمیرز رابرٹس: کیا 40 فیصد درست عدد ہے جو آپ کو کسی نہ کسی شکل میں امریکی مدد کے طور پر ملتی ہے؟

سہروردی: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے، میرا خیال ہے کہ ہمارے ترقیاتی مقاصد کے لیے دستیاب غیر ملکی زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ امریکہ سے آتا ہے، کیونکہ ہمارا زیادہ تر غیر ملکی زرمبادلہ ہماری اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختص ہے۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، آپ مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان ایک پل ہیں، اور آپ کے ٹھیک شمال میں چین نامی ایک بڑا ملک ہے، کمیونسٹ چین، اور میرا خیال ہے کہ آپ حال ہی میں وہاں گئے تھے۔ (ان کے ساتھ) پاکستان کے تعلقات کیسے ہیں؟ اور آپ اپنے شمال میں اس دیو قامت ملک کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟

سہروردی: میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ہماری پالیسی کسی کے خلاف کوئی کینہ نہ رکھنا ہے۔ اور جب تک چین ہمارے ساتھ کوئی مداخلت نہ کرے، مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم ان کے ساتھ کوئی مداخلت کریں۔ لیکن چین کی عالمی سیاست میں بہت اہم جگہ ہے، اور آپ کو انتظار کرنا ہو گا، یہ خود کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بل ڈاؤنز: تو آپ کے خیال میں امریکہ کو چین کو تسلیم کرنا چاہیے؟

سہروردی: یہ امریکہ کی اپنی پالیسی کا معاملہ ہے اور میرا خیال ہے کہ ابھی حال ہی میں آپ کے وزیر خارجہ مسٹر ڈالس نے وہ وجوہات دی ہیں جنہیں وہ چین کو تسلیم نہ کرنے کی بہت مناسب وجوہات سمجھتے ہیں۔

بل ڈاؤنز: کیا آپ ان سے متفق ہیں؟

سہروردی: کسی حد تک، مجھے کہنا پڑے گا۔

چالمیرز رابرٹس: جناب وزیر اعظم، آپ کی حکومت کے سفارتی تعلقات بیجنگ حکومت (پیپلز ری پبلک آف چائنہ) کے ساتھ ہیں یا فارموسا حکومت (ری پبلک آف چائنہ / تائیوان) کے ساتھ ہیں؟

سہروردی: ہماری حکومت کے بیجنگ حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔

جان میڈیگن: آپ کے اور صدر آئزن ہاور کے اعلامیے میں مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ استعمال کرنے کی بات کی گئی تاکہ وہاں کے اسرائیلی-عرب مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ آپ کا خاص طور پر کیا مطلب ہے، کس قسم کا اثر و رسوخ اور آپ اسے کیسے استعمال کریں گے؟

سہروردی: میرے خیال میں اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امن کے بارے میں یقینی ہونا چاہتے ہیں تو فلسطینی مسئلہ یا اسرائیلی مسئلہ حل کرنا ہو گا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ تمام نیک خواہشمند افراد کا یہ فرض ہے کہ اسے حل کرنے کے حوالے سے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں۔

جان میڈیگن: خاص طور پر پاکستان یا امریکہ کیا کر سکتے ہیں؟

سہروردی: مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں فریقوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں اور بات چیت کی کوشش کر سکتے ہیں۔

جان میڈیگن: اقوام متحدہ سے باہر؟

سہروردی: ہاں، اقوامِ متحدہ سے باہر۔

جان میڈیگن: دوسرے الفاظ میں آپ امریکہ کو اس مسئلے میں انفرادی ثالث کے طور پر کام کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

سہروردی: وہ کر سکتا ہے۔

بل ڈاؤنز: پاکستان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ اس مسئلے میں ثالث بننے پر راضی ہوں گے؟

سہروردی: ہاں، بالکل۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، کچھ قیاس آرائیاں ہوئی ہیں کہ آپ مسلم دنیا کی قیادت کرنے کے خواہاں ہیں، یا کم از کم اسے اکٹھا کرنے کے خواہاں ہیں۔ (مصر کے) مسٹر ناصر کی بھی ایسی ہی خواہشات ہیں۔ مسلم دنیا کی اس جدوجہد میں آپ کہاں کھڑے ہیں؟ اگر ایسی کوئی جدوجہد ہے؟

سہروردی: میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسی جدوجہد ہے۔ اگر مسٹر ناصر کی خواہشات ہیں تو انہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے دیں۔ مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے۔ میری صرف یہ تمنا رہی ہے کہ مسلم دنیا کو اکٹھا کیا جائے تاکہ وہ ایک ہی میز پر بیٹھ کر آپس میں معاملات پر بات کر سکیں، وہ تمام تنازعات جو رکن ممالک کے درمیان موجود ہیں، انہیں حل کیا جا سکے۔ بین الاقوامی تنازعات کے حوالے سے ہم ایسی تجاویز پیش کر سکیں جو انہیں حل کرنے میں مدد کر سکیں۔ اور جہاں تک قیادت کا تعلق ہے، میرا واضح خیال ہے کہ اگر کوئی ملک مسلم دنیا کی قیادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسے اتحاد یعنی مسلم دنیا کو اکٹھا کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔

چالمیرز رابرٹس: جناب وزیر اعظم، پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے میں عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ایسی پوزیشن میں کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اثر و رسوخ استعمال کر سکے، جب کہ آپ نے حال ہی میں اسرائیل کے بارے میں کہا ہے کہ ہم نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا اور ہم اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ آپ اس تنازعے میں بالکل ایک جانب ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

سہروردی: میں کہوں گا کہ پاکستان کی یہی پوزیشن ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل کا قیام غلط تھا۔ لیکن آخرکار اسرائیل موجود ہے، اور ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عرب دنیا، جو اسرائیل کے وجود کو ناپسند کرتی ہے، اور اسرائیل کے درمیان ایک ایڈجسٹمنٹ اور ایک معاہدہ ہونا چاہیے۔ اب اس نوعیت کا معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کریں گے، اور اگر دونوں فریقوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس میں سے ایک فریق ختم نہیں ہوگا۔

چالمیرز رابرٹس: کیا آپ تمام مسلم اقوام کو، اسرائیل کو زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے کا مشورہ دیں گے؟

سہروردی: مجھے افسوس ہے کہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے، اور پاکستان کے لیے اس کے وجود کو کسی ایسی چیز کے طور پر قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جو ایک حقیقت ہے۔ یہ ایک بہت ناخوشگوار حقیقت ہے۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، کیا آپ کی یہاں چین، اسرائیل، مصر، امریکہ، روس کے بارے میں گفتگو آپ کو نہرو کی غیر وابستگی کی طرح کی پوزیشن میں نہیں لاتی، باقی سب کی طرح۔

سہروردی: اوہ نہیں، نہیں۔ دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی ایسے ملک کے معاملے میں جارحیت ہوتی ہے جس کے ساتھ ہم معاہدے میں شریک ہیں، تو پاکستان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کی جدوجہد میں شامل ہو۔

جان میڈیگن: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام معاہدے صرف دفاعی معاہدے ہیں، اور کمیونسٹ دنیا کے کسی بھی فریق پر کوئی اخلاقی یا اقتصادی دباؤ نہیں ڈالا جانا چاہیے؟

سہروردی: مجھے یقین ہے کہ یہ امریکہ کی بھی پالیسی ہونی چاہیے کہ جارحیت نہ ہو۔

جان میڈیگن: کیا ان قوموں پر دوسرے دباؤ ڈالنا آپ کی پالیسی ہے؟

سہروردی: جیسا کہ میں ان کے نظریے پر یقین نہیں رکھتا، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان چیزوں کے مطابق زیادہ عمل کریں جن پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ اور ممکنہ طور پر (ان کے ہاں) اندرونی دباؤ ہیں، جیسا کہ آپ اب ان ممالک میں دیکھ سکتے ہیں، جن سے کوئی یہ امید کر سکتا ہے کہ اندرونی پالیسی میں تبدیلی آنے والی ہے۔

جارج ہرمین: جناب وزیر اعظم، آپ ذاتی طور پر اپنے ملک میں وسیع عام انتخابات کے لیے زور دے رہے ہیں، جبکہ آپ کے جنوب (انڈونیشیا) میں ایک اور ممتاز مسلم رہنما مسٹر سوکارنو نے کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ایشیا کے لوگ ابھی اس وسیع قسم کی جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا جواب ہے؟

سہروردی: مسٹر سوکارنو اپنے ملک کے لیے ایسی بات کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے نہیں۔ مسٹر ہرمین، مجھے لگتا ہے کہ برطانویوں نے ہمیں کافی پس منظر دیا ہے، انہوں نے ہمیں اس جمہوری ماحول میں پروان چڑھایا ہے۔

جارج ہرمین: اگر میں آپ کے خیال کو سمجھا ہوں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ڈچ لوگوں نے انڈونیشیا کو اس قسم کا مناسب پس منظر دیا ہے؟

سہروردی: میں انڈونیشیا کی اندرونی تاریخ میں جانا پسند نہیں کروں گا۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، کیا آپ کو اپنے ملک میں شمال سے نظریاتی حملے کا خوف ہے؟ دوسرے الفاظ میں، کیا آپ کو پاکستان میں کمیونزم کا کوئی سیاسی خطرہ ہے؟

سہروردی: مجھے کہنا پڑے گا کہ ہمارے ملک میں دراندازی کی کوششیں کی گئی ہیں، اور کمیونزم کا ایک خاص حد تک پھیلاؤ ہوا ہے۔ اور بدقسمتی سے کمیونسٹ ممالک نے از خود اس حد تک براہ راست مداخلت یا دراندازی نہیں کی ہے بلکہ غیر جانبدار ممالک کا استعمال کیا ہے۔

چالمیرز رابرٹس: جناب، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کمیونسٹ خطرہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے سے آ رہا ہے، بجائے یہ کہ اس کا مرکز سوویت یونین اور چینی کمیونسٹ سفارتخانوں میں ہو؟

سہروردی: یہ کچھ شرمندگی والا سوال ہے، آپ جانتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں ہندوستانی ایجنٹ ہیں جو کمیونزم کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

بل ڈاؤنز: جناب وزیر اعظم، حال ہی میں ہمارے اتحادی برطانیہ نے اپنا ارادہ بدل لیا، یا کم از کم یہ کہہ لیں کہ ریڈ چائنہ کے ساتھ آزادانہ تجارت کے حوالے سے ہماری پالیسی سے ہٹ گیا ہے، کیا آپ بھی ریڈ چائنہ کے ساتھ آزادانہ تجارت کریں گے؟

سہروردی: ہم کسی حد تک ریڈ چائنہ کے ساتھ تجارت کرتے رہے ہیں۔ ہم انہیں اپنی کاٹن بیچتے رہے ہیں، اور ان سے کوئلہ لیتے رہے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہماری تجارت ایسی نوعیت کی ہو سکتی ہے جو چین کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل سمجھی جا سکے …

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، پروگرام کے آغاز میں آپ نے صدر آئزن ہاور کے ساتھ ذاتی رابطوں کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ایسے رابطے اچھے ہیں کیونکہ ان سے کچھ شکوک و شبہات دور ہوں گے۔ امریکہ یا صدر آئزن ہاور کے بارے میں آپ کو کیا شکوک و شبہات تھے؟

سہروردی: کیا میں نے یہ لفظ استعمال کیا تھا؟

جان میڈیگن: آپ نے ’’شک‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، آپ نے کہا کہ آپ ایک دوسرے کے ذہنوں میں واضح نہیں تھے کہ آپ کیا سوچ رہے تھے اور امریکہ کیا سوچ رہا تھا۔

سہروردی: نہیں، دوسری طرف، شاید ہم اپنے رویے کے بارے میں اپنے خیالات میں زیادہ پختہ ہوئے۔

جان میڈیگن: کیا آپ کو واشنگٹن میں وہ سب کچھ ملا جو آپ چاہتے تھے؟

سہروردی: میں یہاں کسی چیز کے لیے نہیں آیا تھا۔ آپ سب لوگوں کو یہ سوچنے میں کوئی مغالطہ ہو گیا ہے کہ جو کوئی یہاں آتا ہے وہ کچھ مانگنے کے ارادے سے آتا ہے۔ یقیناً یہاں آ کر آپ کے رہنماؤں سے بات کرنے کا مطلب ہے کہ میں بھی سوچ کے معاملے میں کچھ دے سکتا ہوں۔

جان میڈیگن: جناب وزیر اعظم، یہ توہین کے معنوں میں نہیں کہا گیا تھا، اس کا مطلب تھا کہ ایسی جائز خواہشات جو آپ کی ہو سکتی ہیں۔

سہروردی: دیکھیں، ہم سب صورتحال کو اور ہمارے درمیان موجود تعلقات کو جانتے ہیں اور بس اتنی ہی بات ہے۔ ہم یقیناً‌ یہاں دوست بنانے اور لوگوں کو مزید جاننے اور ذاتی رابطے کرنے اور آپ کے ملک کی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے آتے ہیں۔

چالمیرز رابرٹس: آپ ذہنوں کی ملاقات چاہتے ہیں، کیا آپ کا یہ مطلب ہے، یہ کسی ساز و سامان کے بارے میں نہیں ہے؟

سہروردی: مسٹر رابرٹس، میں اسے اس طرح کہوں گا، میرا مطلب ہے، یہ سچ ہے اور میں خود کو امریکہ کے برابر نہیں سمجھتا کسی بھی لحاظ سے۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس نے ایک مخصوص اخلاقی فلسفہ دیا ہے جو پہلے موجود نہیں تھا، یعنی ایک ملک کا دوسرے چھوٹے ممالک کی مدد کرنا، یہ، ایسی چیز ہے جسے لوگ نہیں سمجھ پائے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

جارج ہرمین: جناب وزیر اعظم، مجھے افسوس ہے کہ ہمارے پاس بس اتنا ہی وقت ہے، یہاں ’’فیس دی نیشن‘‘ پر آنے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ہمارے ممتاز صحافیوں کے پینل: واشنگٹن پوسٹ اور ٹائمز ہیرالڈ کے چالمیرز رابرٹس، سی بی ایس نیوز کے بل ڈاؤنز، اور نیوزویک کے جان میڈیگن کا بھی شکریہ۔

میں جارج ہرمین ہوں، ہم آپ کو اگلے ہفتے ’’فیس دی نیشن‘‘ کا ایک اور ایڈیشن دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمارا آج کا پروگرام واشنگٹن سے جاری نشر ہوا ہے۔