الجزائر کی تحریکِ آزادی اور اس میں پاکستان کا کردار

By admin, 26 May, 2025

الجزائر پر فرانسیسی نوآبادیاتی قبضہ 1830ء میں شروع ہوا جب فرانس نے الجزائر پر حملہ کر دیا جس کے پیچھے اس کے اقتصادی مفادات اور نوآبادیاتی توسیع جیسے محرکات تھے۔ اس سے پہلے الجزائر ایک نیم خودمختار ریاست کے طور پر خلافتِ عثمانیہ کا حصہ چلا آ رہا تھا۔ حملے کے بعد فرانسیسی فوج نے کئی سال تک الجزائر میں مزاحمت کا سامنا کیا جن میں خاص طور پر امیر عبدالقادر کی قیادت میں الجزائر کی جدوجہدِ آزادی معروف ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ فرانس نے اپنی فوجی برتری کے ذریعے پورے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ کئی دہائیوں کی شدید لڑائیوں اور خونریزی کے ان مراحل کے بعد 1848ء میں الجزائر کو باضابطہ طور پر فرانس کا حصہ قرار دے دیا گیا اور اسے تین فرانسیسی صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کے بعد فرانس نے الجزائر میں بڑی تعداد میں یورپی آباد کاروں کو بسایا، جبکہ دوسرے درجے کے شہری کے طور پر الجزائریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جدوجہدِ آزادی میں 1875ء تک آٹھ لاکھ سے زائد الجزائری شہید ہوئے۔

الجزائر کی جدوجہدِ آزادی کا اگلا دور 1954ء-1962ء کی جنگِ آزادی سے شروع ہوتا ہے جو فرانسیسی نوآبادیاتی استعمار کے خلاف ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے جس نے الجزائری عوامی کو قومی خودمختاری اور آزادی کی منزل تک پہنچایا۔ اگرچہ اس تحریک کا آغاز پہلی جنگِ عظیم 1914ء-1918ء کے دوران ہوا لیکن اس نے دوسری جنگِ عظیم 1939ء-1945ء کے دوران شدت اختیار کی جب فرانسیسی حکومت نے الجزائری عوام کے ساتھ داخلی خودمختاری کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے، اور اس صورتحال نے الجزائر کے عوام کو حصولِ آزادی کی خاطر مسلح جدوجہد کے آغاز پر مجبور کیا۔

1954ء میں نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) نے گوریلا جنگ کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے ایک طرف فرانسیسی حکومت پر الجزائر کا قبضہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا، اور دوسری طرف اقوامِ متحدہ میں الجزائر کی آزادی کو سفارتی سطح پر تسلیم کرانے کی کوششیں شروع کر دیں، جس کا مقصد بالآخر ایک آزاد اور خودمختار الجزائر کا قیام تھا۔ یہ جنگ مبینہ طور پر زیادہ تر سرحدی اور دیہی علاقوں میں لڑی گئی لیکن بالآخر ایک فیصلہ کن جنگ الجزائر کے دارالحکومت میں 1956ء-1957ء کے دوران ہوئی جس میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے سلسلہ وار حملے کیے۔ اس کے مقابلے میں فرانس نے الجزائر پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے افواج میں اضافہ کیا جس کی تعداد جنگ کے دوران پانچ لاکھ تک جا پہنچی۔

یہ جنگ اتنی شدید تھی کہ اس میں دس لاکھ سے زائد الجزائریوں کی جانیں گئیں، دس لاکھ کے قریب آبادی نے ہجرت کی، پچیس سے تیس ہزار کے قریب فرانسیسی افواج کی ہلاکتیں ہوئیں، اور پانچ سے چھ ہزار کے قریب یورپی شہری مارے گئے۔ چنانچہ جنگ کی شدت نے بالآخر فرانسیسی قیادت کو اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کر دیا اور نتیجتاً‌ 1959ء میں فرانسیسی صدر شارل ڈیگال نے اعلان کیا کہ الجزائر کے عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے، اس طرح 1962ء میں ایک معاہدہ کے ذریعے الجزائر نے ایک آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشے میں اپنی جگہ بنائی۔

فرانسیسی نوآبادیاتی استعمار سے آزادی کے حصول کے لیے الجزائری عوام کی یہ جانگسل جدوجہد نہ صرف ان کی اپنی قومی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر نوآبادیاتی دور کی جدوجہد کی ایک عظیم مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

الجزائر جب 1950ء کی دہائی میں فرانسیسی نوآبادیات کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھا تو پاکستان نے اس کی تحریکِ آزادی میں نمایاں سفارتی کردار ادا کیا اور اقوام متحدہ میں الجزائر کی آزادی کے حق میں آواز اٹھائی۔

1958ء میں جب ’’عبوری حکومت الجزائر جمہوریہ‘‘ (GPRA) قائم ہوئی تو پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اسے تسلیم کیا اور عالمی سطح پر اس کے موقف کو اجاگر کیا۔ اس عبوری حکومت کے صدر فرحت عباس تھے جنہوں نے فرانسیسی فوج کی طرف سے جنگِ عظیم دوم میں حصہ لیا تھا اور وہ فرانس کی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے تھے۔

اسی سال جب فرانس نے الجزائر کی تحریکِ آزادی کے رہنما فرحت عباس کی امریکہ میں داخلے کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں تاکہ وہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شریک ہو کر الجزائر کا موقف پیش نہ کر سکیں، تو اس موقع پر پاکستان نے سفارتی محاذ پر الجزائر کی آزادی کی تحریک کو تقویت پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور فرحت عباس کو ایک سفارتی پاسپورٹ جاری کیا جس پر انہوں نے امریکہ پہنچ کر اقوام متحدہ کے اجلاس میں مؤثر انداز سے اپنا موقف پیش کیا۔ پاکستان کے اس اقدام سے فرانس سخت ناراض ہوا کیونکہ وہ اس وقت الجزائر پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ نیز فرانسیسی حکومت نے اقوام متحدہ میں الجزائر کی تحریک کی مخالفت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جانب سے فرحت عباس کو سفارتی حیثیت دینے پر اعتراضات بھی اٹھائے۔

بہرحال پاکستان نے نہ صرف اقوام متحدہ کے اجلاس میں الجزائر کے موقف کی حمایت کی بلکہ عالمی سطح پر نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ایک مضبوط سفارتی موقف اختیار کیا جو کہ الجزائر کی تحریکِ آزادی میں ایک مؤثر اخلاقی اور سفارتی تعاون ثابت ہوا۔ 1962ء میں جب الجزائر نے آزادی حاصل کی تو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم ہوئے اور اس کے بعد الجزائر نے کئی مواقع پر پاکستان کی حمایت کو سراہا اور اسے اپنی آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم ستون قرار دیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس دور کا یہ سفارتی کردار نہ صرف الجزائر بلکہ دیگر آزادی کی تحریکوں کے لیے بھی ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسے عالمی سطح پر نوآبادیاتی نظام کے خلاف مظلوم اقوام کی حمایت میں پاکستان کے روایتی مزاج کے ایک قابلِ ستائش مظاہرہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔