امریکی صحافی ایڈوِن نیومین کا اسرائیل کی وزیراعظم گولڈا مائیر سے انٹرویو

By admin, 27 May, 2025

(1967ء کی جنگ، جس میں اسرائیل نے شام کی گولان پہاڑیوں، مصر کے صحرائے سینا، اور اردن کے زیر انتظام یروشلم شہر بشمول بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا، اس جنگ کے تین سال بعد کے ماحول میں 1970ء کے دوران اس وقت کی اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مائیر سے امریکی صحافی ایڈوِن نیومین نے ایک انٹرویو کیا تھا، اس کا ترجمہ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔)

 

تعارف

ہیلو، میں ایڈون نیومین ہوں۔ دنیا کے تیزی سے ترقی کرتے شہروں میں سے ایک یروشلم ہے۔ جہاں بھی آپ دیکھیں، امیگریشن اور اقتصادی توسیع کے دباؤ میں کچھ نہ کچھ بن رہا ہے۔ یہ نہ صرف اسرائیلی حصے بلکہ اس حصے کے بارے میں بھی سچ ہے جو پہلے اردن کا یروشلم تھا۔ دونوں اطراف، یہ تیزی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل آباد ہو رہا ہے اور، مزید یہ کہ، اسرائیلیوں کو جو توقع ہے، وہ پختہ یقین رکھتے ہیں، کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کا ایک مستقل حصہ بنیں گے۔ یہ بے معنی نہیں کہ اس تعمیراتی کام کی بڑی تعداد عرب مزدوروں پر مشتمل ہے۔ یہ نہ صرف ان علاقوں کے حوالے سے سچ ہے جو اسرائیل نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد قبضہ کیے ہیں، بلکہ خود اسرائیل کے حوالے سے بھی۔

ایک چوتھائی صدی کے بعد بھی، اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان کوئی امن نہیں ہے، لیکن ایک جنگ بندی ہے، جس پر کافی حد تک عمل کیا جا رہا ہے۔ اور عرب دنیا میں کسی کسی جگہ اسرائیل کے وجود کی مزید قبولیت کا کچھ اشارہ ملتا ہے۔ تاہم، بہت سے عربوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک مسلسل اور حتیٰ کہ ناقابل تسخیر مخالفت بھی موجود ہے۔ اور اسرائیلی جانتے ہیں کہ حقیقی امن ابھی بہت دور ہو سکتا ہے اور آگے بہت سی مشکلات ہو سکتی ہیں، ان کے لیے کچھ اور توقعات رکھنا بے وقوفی ہو گی، لیکن یہ ان کے لیے ایک کافی مستحکم اور امید افزا وقت ہے۔ اور جو بھی وقتاً فوقتاً اسرائیل کا دورہ کرتا ہے، وہ اسے فوراً محسوس کرتا ہے۔

دنیا بہت پہلے ہی اس خیال کی عادی ہو چکی ہے کہ ایک خاتون اسرائیل کے معاملات کی انچارج ہیں، وزیراعظم گولڈا مائیر۔ حقیقت یہ ہے کہ مسز مائیر کے بغیر اسرائیلی اور عالمی منظر کو سمجھنا زیادہ دشوار ہو گا۔ مسز مائیر مارچ 1969ء سے وزیراعظم ہیں۔ اس سے پہلے وہ حکومت کے بھی مختلف عہدوں پر فائز رہی ہیں اور پارٹی کے بھی۔ وہ دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ ماسکو میں وزیر اور وزیر خارجہ رہیں۔ اور آج وزیراعظم گولڈا مائیر (ہمارے ساتھ) کھل کر بات کریں گی۔

انٹرویو

ایڈون نیومین: مسز مائیر، کیا ہم ان عرب گروپوں کے بارے میں گفتگو سے آغاز کر سکتے ہیں جنہوں نے ہوائی جہاز ہائی جیک کیا اور میونخ میں اسرائیلی کھلاڑیوں کو ہلاک کیا۔ وہ اپنی فلسطینی سرزمین کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں اور یہ کہ انہیں اس سے کیسے محروم کیا گیا ہے۔ کیا عرب فلسطینی سرزمین کے بارے میں بات میں کوئی قانونی حیثیت ہے؟

گولڈا مائیر: نہیں، مجھے نہیں لگتا، کسی بھی صورت میں، اگر جس سرزمین کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اسرائیل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے تاریخ میں تھوڑا پیچھے جانا اچھا رہے گا، مثال کے طور پر، پہلی عالمی جنگ سے پہلے، کوئی آزاد عرب ممالک نہیں تھے۔ یہ علاقہ جو آج اسرائیل ہے، اور حقیقت میں، اردن تک، شام کا جنوبی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ جب، جنگ کے بعد، برطانیہ کو فلسطین پر مینڈیٹ ملا، تو فلسطین بحیرۂ روم اور عراق کی سرحد کے درمیان کا پورا علاقہ تھا۔ وہ سب فلسطین تھا۔ جس کا ایک ہائی کمشنر تھا اور اسے ایک ملک سمجھا جاتا تھا۔

فلسطین کی پہلی تقسیم 1922ء میں ہوئی، جب جنگ کے بعد، برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ کے اس علاقے کو تقسیم کرنا اور اس کا ایک ایک حصہ ہر اس (عرب) شیخ کو دینا مناسب سمجھا جو جنگ میں مددگار تھے۔ انہیں شاہ عبد اللہ کو بھی کچھ دینا تھا، لہٰذا انہوں نے فلسطین کو تقسیم کیا، دریائے اردن کا مغربی حصہ فلسطین بنا دیا، جبکہ مشرقی حصے کو ’’ٹرانس جورڈن‘‘ کا نام دیا گیا۔ فلسطین کی دوسری بار تقسیم 1947ء میں ہوئی، لیکن 1922ء تک یہ سب ایک ملک تھا، یہ ایک فلسطین تھا۔ یقیناً، ٹرانس جورڈن میں، جو آج اردن ہے، وہاں بدو ہیں اور دوسرے بھی ہیں، لیکن آپ کو اس خطے میں کوئی ایک بھی عرب ملک نہیں ملے گا جس میں عرب لوگوں کے مختلف گروہ نہ ہوں۔ تو یہ کہنا کہ فلسطینی ایک قوم ہے، خاص طور پر اردن میں موجود لوگوں کو نکال کر، تو یہ حقیقت اور تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔

اب، جنگِ آزادی کے بعد، 1948ء اور 1967ء کے درمیان، مغربی کنارے کو بعد میں شاہ عبد اللہ نے ضم کر لیا۔ وہ وہاں اردن میں اکثریت میں تھے، اگر وہ ایک ریاست قائم کرنا چاہتے، یا اس ریاست کو فلسطین کہنا چاہتے، تو یقیناً انہیں ہماری اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی، اور ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لہٰذا، جب وہ کہتے ہیں کہ فلسطینی قوم اپنی سرزمین پر حق چاہتی ہے، تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ یہودیوں کو اس علاقے سے نکال کر قبضہ کر لیا جائے، اور پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیان جو تقریباً 19 یا 20 آزاد عرب ممالک قائم ہوئے تھے، اسرائیل کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک اور عرب ملک بنایا جائے۔ یہ دراصل اس کا مطلب ہے۔

ایڈون نیومین: پھر ہمیں جو دہشت گردی کی سرگرمیاں، دباؤ اور مختلف قسم کے پروپیگنڈے نظر آتے ہیں، ان کی کیا اہمیت ہے؟ پھر یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

گولڈا مائیر: وہ نہیں چاہتے کہ ہم یہاں رہیں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ یہ صرف وہ نہیں ہیں جو ایسا نہیں چاہتے۔ وہ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو 1948ء کی جنگ کی وجہ سے اس علاقے سے اردن، شام اور دیگر مقامات کی طرف بھاگ گئے تھے، اور انہیں کبھی دوبارہ آباد نہیں کیا گیا۔ وہ پناہ گزین تھے، اور یقیناً، میں تسلیم کرتی ہوں، یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے انسانی ہمدردی کے نقطۂ نظر سے، لاکھوں لوگوں کے گروہ ہیں جو کئی سالوں سے کیمپوں میں دکھی حالات میں رہ رہے ہیں۔ انہیں دوبارہ آباد کیوں نہیں کیا گیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اردن ان لوگوں کے بغیر قابلِ عمل نہیں تھا۔ اردن کی آبادی شاید تقریباً 300,000 تھی۔ انہیں کیوں آباد نہیں کیا گیا؟ ان میں سے کچھ تو ہوئے، لیکن عام طور پر عرب پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری کیوں نہیں ہوئی؟ کیونکہ نہ صرف پناہ گزین بلکہ خود عرب ممالک کا بھی یہ خیال تھا کہ انہیں کیمپوں میں رہنا چاہیے، انہیں دوبارہ آباد نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار تھا۔ جیسے فوجی اقدامات تھے، اقتصادی دباؤ تھا، ایک طریقہ یہ تھا کہ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جائے، اس امید کو پروان چڑھاتے ہوئے کہ کسی دن وہ اس ملک میں داخل ہوں گے اور ہمیں باہر نکال دیں گے۔

تو، وہ ہمیں پسند نہیں کرتے، وہ نہیں چاہتے کہ ہم یہاں رہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے عرب ہمسائے ابھی تک ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کر سکے ہیں، اس لیے جنگیں ہوئی ہیں۔ اور یہ سب ایک ہی مسئلہ ہے کہ اس علاقے کے عرب، ملحقہ علاقے کے عرب، ہمارے ساتھ امن سے رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ فلسطینیوں، یا آپ انہیں جو بھی کہنا چاہیں، پناہ گزینوں کو کسی نہ کسی طرح شکار بنایا گیا ہے، اور ان کی ایک جائز شکایت ہے۔ پھر اس کی شکایت کو دور کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

گولڈا مائیر: وہ اس حقیقت کے شکار بن گئے کہ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے دریائے اردن کے مغرب والے فلسطین کو ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے اسے قبول کیا، لیکن عرب ممالک نے نہیں کیا، اور جنگ ہوئی۔ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پناہ گزینوں کے بغیر کوئی جنگ ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس صورت میں، عرب لوگ جو اس علاقے سے بھاگ گئے جو بعد میں اسرائیل بنا، وہ دراصل اپنے ہی لوگوں کے درمیان تھے۔ مثال کے طور پر، ہم یہودی پناہ گزینوں کی ایک کلاسیکی قوم ہیں، لیکن جب ہم پناہ گزین تھے، تو ہم اجنبیوں کے درمیان تھے، ایک مختلف قوم کے ساتھ، جن کا مذہب مختلف تھا، جو ایک مختلف زبان بولتے تھے، ایک مختلف ثقافت، بالکل مختلف۔ یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کے درمیان ہیں۔ وہی زبان ہے، وہی مذہب ہے، وہی طرز زندگی ہے۔ ایک (سرحدی) لکیر کھینچے جانے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اور لیکن یہ کہ وہ تکالیف سے گزرے، میں اسے قبول کرتی ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضروری تھا؟ کیونکہ اس عرصے کے دوران، ان سالوں کے دوران، جتنے عربوں نے یہ علاقہ چھوڑا، اسرائیل نے اس سے کہیں زیادہ یہودیوں کو عرب ممالک سے یہاں لا کر آباد کیا۔ اسرائیل میں کوئی بھی عراقی یہودی پناہ گزینوں، یا شامی یہودی پناہ گزینوں، یا یہودی پناہ گزینوں کی بات نہیں کرتا، یہ لاکھوں میں ہیں۔ اور جو بھی اس صورتحال کو جانتا ہے وہ اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہاں آنے والے یورپی یہودیوں، یہاں صدیوں اور نسلوں سے رہنے والے اسرائیلی یہودیوں، یہاں یمن سے آنے والے یہودیوں، مراکش کے اطلس پہاڑیوں سے آنے والے یہودیوں کے درمیان بہت فرق تھا۔ واحد چیز جس نے ہمیں واقعی ایک بنایا وہ مذہب تھا۔ ہم یہودی ہیں، ہم ایک ہیں، ایک ہی قوم ہیں۔ کوئی مشترکہ زبان نہیں، اور بعض کی ثقافت میں صدیوں کا فرق تھا۔ پھر بھی ہم نے انہیں جذب کیا، اور ہم ایک قوم ہیں۔

ایڈون نیومین: مسز وزیر اعظم، کیا اسرائیل کچھ کر سکتا ہے، اس انفیکشن کے مرکز کو، درحقیقت، پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے انفیکشن کا ذریعہ بننے والے ان عرب پناہ گزینوں، ان غیر مطمئن، ناخوش لوگوں، غیر آباد لوگوں کو ہٹانے کے لیے؟ واقعی، کیونکہ پچھلے چند دنوں سے، جیسا میں دیکھ رہا ہوں، اب بھی 1948ء سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین کیمپ نظر آتے ہیں۔ کیا اسرائیل کچھ کر سکتا ہے؟

گولڈا مائیر: ہم نے 1948ء-1949ء کی جنگِ آزادی کے فوراً‌ بعد کہا تھا کہ ان لوگوں نے جو کچھ بھی پیچھے چھوڑا ہے، چاہے وہ زمین ہو، چاہے وہ مالٹے کے باغ ہوں، چاہے وہ مکانات ہوں، کوئی بھی چیز، ہم معاوضہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے ان میں سے ہزاروں کو واپس آنے کی اجازت دی کیونکہ لڑائی کے دوران خاندان بکھر گئے تھے، اور خاندانوں کا کچھ حصہ یہیں رہ گیا تھا۔ اور اگر سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو تو ہم نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی ہے۔ اب، اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے تحقیقات کی کہ ان لوگوں نے کیا پیچھے چھوڑا ہے، اور ہم نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ بڑی رقوم بنتی ہیں۔

اب، اگر امن ہوتا تو یہ رقم، بین الاقوامی امداد، اور مختلف حکومتوں کی امداد، (اس سب کی بدولت) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز بھلا دی جاتی اور انہیں زراعت یا صنعت میں یا کسی اور طریقے سے دوبارہ آباد کر دیا جاتا۔ اس کے بجائے، ان سالوں کے دوران اقوام متحدہ نے مصیبت زدہ کیمپوں میں لاکھوں ڈالر لگائے۔ کیمپوں کو اب کس نے قائم کیا؟ مثال کے طور پر یہ کہ غزہ کی پٹی میں کچھ لوگ ایسی حالتوں میں رکھے جائیں۔ لیکن یہ اس خیال کے ساتھ کیا گیا کہ جتنے برے حالات میں رکھے جائیں اتنا بہتر ہے۔ ان لوگوں کو دکھی ہونا چاہیے، انہیں ایسی حالتوں میں رہنا چاہیے، انہیں دوبارہ آباد نہیں ہونا چاہیے، اور ان کا اپنا گھر نہیں ہونا چاہیے، تاکہ وہ اسرائیل کے خلاف ایک ذریعہ ہتھیار بن سکیں۔

ایڈون نیومین: دہشت گردی کا کیا، مسز مائیر؟ اسرائیل دہشت گردوں اور ہائی جیکرز کے خلاف بہت سخت موقف اختیار کرتا ہے، جبکہ دوسرے ممالک ایسا نہیں کرتے۔ جب دوسروں کی جانیں خطرے میں ہوں تو بھی آپ کہتے ہیں کہ ہائی جیکرز کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں، جب معصوم جانیں خطرے میں ہوں، تو آپ کی کیا دلیل ہے؟

گولڈا مائیر: معصوم جانیں خطرے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا معصوم اسرائیلی جانیں ایک ایسی چیز بن سکتی ہیں جسے مردوں اور عورتوں کے گروہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں؟ کیونکہ جب وہ ایک طیارہ لیتے ہیں، مثال کے طور پر، فرض کریں جرمنی میں لفتھانزا کا حالیہ واقعہ۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ یہ ایک سادہ سی بات ہے، یقیناً نہیں۔ لیکن دیکھیں کہ ہوا کیا ہے۔ یہ لوگ اولمپک گاؤں میں ہمارے لوگوں کے قتل میں حصہ لینے والے افراد کو جیل سے رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے اور عمل کرتے ہیں، وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ہم انہیں رہا کرانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی وہ لیبیا میں اترتے ہیں، وہ ایک بیان جاری کرتے ہیں، اب ہم اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں گے۔

تو یقیناً جانیں خطرے میں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو رہا کیا جائے، جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ پہلے سے کیا ارادہ رکھتے ہیں، وہ مزید اسرائیلیوں کو قتل کریں گے۔ یہ ایک مشکل مسئلہ ہے، میں یہ نہیں کہتی کہ یہ آسان ہے، لیکن اسرائیل یہ نہیں کہہ سکتا کہ اچھا ٹھیک ہے اگر اسرائیلیوں کا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں اس خوف سے کارروائیاں کرتی ہیں کہ اسرائیل اور عرب ریاستیں کسی حل تک نہ پہنچ جائیں۔ کیا ایسے کسی حل کا کوئی امکان ہے؟

گولڈا مائیر: ہمارے اور عرب ریاستوں کے درمیان ایک حل؟ مجھے یقین ہے کہ، یہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب۔ میرا خیال ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے کہ گویا جو عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں انہیں اس سے نقصان نہیں ہوتا، اس سے ان کے لوگوں کو نقصان نہیں ہوتا، ان کی حکومتیں بڑا جنگی بجٹ رکھتی ہیں، یہ ممالک ترقی کرتے ہیں اور ان کے پاس جدید سکولنگ اور صحت کی خدمات وغیرہ ہیں، لیکن بیچارہ چھوٹا اسرائیل مصیبت میں ہے، اسرائیل کو اس کا بڑا نقصان ہے، جبکہ عرب ممالک اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔

یہ ایک مسخ شدہ تصویر ہے، کیونکہ جب تک ہمارے عرب ہمسائے ہمارے ساتھ جنگ میں ہیں، یقیناً انہیں کم از کم اتنا ہی نقصان ہوتا ہے جتنا ہمیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بہت زیادہ مشکلات کے ساتھ اپنا دفاع کرنے اور ساتھ ہی ایک ایسا ملک بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے جو بڑی حد تک مناسب اور جدید ہے۔ یہ سب کچھ ویسا نہیں جو ہم چاہتے تھے، یا جو ہو سکتا تھا، اگر ہمیں اپنا دفاع نہ کرنا پڑتا۔ لیکن پھر بھی، جب ریاست قائم ہوئی تو ہم 650,000 تھے۔ آج سکولوں میں 800,000 بچے ہیں، اور ہمارے پاس اب چار سے پندرہ سال تک لازمی مفت تعلیم ہے۔ ملک میں ایک بھی گاؤں نہیں ہے، چاہے وہ کہیں بھی ہو، جو ہسپتال کی پہنچ سے باہر ہو یا جہاں علاقے میں کوئی ڈاکٹر نہ ہو۔ اور صنعت ہے، جدید زراعت ہے، ثقافت ہے، موسیقی ہے، تھیٹر ہے۔ میرا مطلب ہے، میں کہتی ہوں کہ یہ سب کچھ اتنا نہیں جو ہم چاہتے ہیں، ہم بہت کچھ زیادہ کر سکتے تھے۔ جب اس طرح کے ملک میں، ہمارے پاس اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تقریباً 50,000 نوجوان مرد و خواتین کی کمیونٹی ہے۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں جبکہ کوئی ایک مہینہ بھی، بلکہ میں کہہ سکتی ہوں کہ ایک بھی دن کے امن کے بغیر نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف (عرب ممالک میں) ایسا نہیں ہوا، تو اس علاقے میں جنگ ایسی چیز ہے جو اسرائیل اور دیگر دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

امن، اگر یہ آئے، اور جب یہ آئے، تو اسرائیل کے لیے ایک بہت اہم صورتحال ہو گی۔ ہمیں یہ کہنے میں شرم نہیں ہے کہ ہم (اپنے لیے) امن چاہتے ہیں اور دوسرے ممالک کے لیے بھی۔ لہٰذا جو بھی اس علاقے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے اس طرح نہیں سوچنا چاہیے کہ جی امن ہونا چاہیے کیونکہ اسرائیل کو امن کی ضرورت ہے۔ امن کی ضرورت تو پورے علاقے کو ہے، اور ہماری ہمسایہ عرب ریاستوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں اور وہی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ایڈون نیومین: تو کیا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ چونکہ وہ دکھ اٹھا رہے ہیں اور چونکہ یہ ممالک اسرائیل کے مقابلے میں ان تفصیلات کے مطابق کم خوشحال ہیں جو آپ نے بیان کی ہیں، اس لیے امن کی کچھ امید ہے، کہ یہ عرب ممالک میں امن کے لیے دباؤ پیدا کرے گا؟

گولڈا مائیر: مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے عرب ہمسائے ہمیں امن کی پیشکش کریں گے۔ حقیقی المیہ یہ ہے کہ مختلف عرب ممالک میں لاکھوں لوگوں کے رہنما یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ان کے لوگوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اگر وہ سمجھتے تو میرا خیال ہے کہ ہمیں کئی سال پہلے ہی امن مل چکا ہوتا۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، کیا آپ اس وقت اردن کے شاہ حسین کے ارادوں کے بارے میں کوئی رائے، کوئی نظریہ پیش کر سکتی ہیں؟

گولڈا مائیر: اچھا، میرا خیال ہے کہ اس علاقے میں ہمارے ہمسایوں کے حوالے سے مثبت پیشرفت یہ ہے کہ شاہ حسین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں، ظاہر ہے، کیونکہ انہوں نے ایسا کہا کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان امن کا کوئی حل ہونا چاہیے۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ تمام ہمسایہ ممالک کے لیے بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں، اور انہوں نے ایک بار کہا تھا، میرا خیال ہے، کہ ایک اور جنگ مزید تباہی لائے گی، شاید عرب لوگوں کے لیے ایک بڑی تباہی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ان کے اور ان کے لوگوں کا کیا حال کیا ہے اور عرب ممالک میں کیا ہو رہا ہے، وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کا ان کے ساتھ گہرا رابطہ ہے۔

تو، یہ ایک بہت مثبت پیشرفت ہے۔ اگلی چیز جو میرا خیال ہے کہ شاہ کو کرنی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سمجھیں کہ چونکہ اسرائیل کے خلاف جنگ مصر اور شام وغیرہ نے ان کے ساتھ مل کر شروع کی تھی، تو وہ یہ توقع نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں کرنی چاہیے کہ سب کچھ بالکل ویسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ جنگ میں داخل ہونے سے پہلے تھا اور انہوں نے یروشلم پر دوبارہ حملہ کیا۔ جیسا کہ ان کے دادا نے 1948ء میں کیا تھا اور ملک کے دیگر حصوں پر حملہ کیا تھا۔ جب وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے، تو ہم واقعی امن کی راہ پر ہوں گے۔

ایڈون نیومین: وہ 1967ء سے پہلے کی صورتحال کے کتنے قریب پہنچ سکتے ہیں؟

گولڈا مائیر: اچھا، یہ صرف مذاکرات میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اسرائیل نے نقشے بنائے ہیں، اور ہم خود سے کھیل نہیں کھیلتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے پاس آئیڈیاز نہیں ہیں، ہمارے پاس ہیں، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ دیگر تمام آئیڈیاز ایک ہی آیڈیا پر مبنی ہیں کہ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔ اور علاقائی لحاظ سے ہم امن کے حوالے سے جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ علاقائی قبضے نہیں ہے۔ ہم علاقے میں ایسی تبدیلیاں چاہتے ہیں جو ہمیں ایسی سرحدیں فراہم کرنے کے لیے ضروری ہوں جو پہلے کی نسبت زیادہ سیکیورٹی کا باعث بنیں۔

ایڈون نیومین: مسز وزیراعظم، یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردن کے ساتھ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن مثال کے طور پر اگر آپ شام سے لی گئی گولان کی چوٹیوں پر قبضہ برقرار رکھنے پر اصرار کریں گی تو یہ اردن کے موازنے میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

گولڈامائیر: میں نہیں چاہتی …

ایڈون نیومین: ٹیلی ویژن پروگرام پر مذاکرات نہیں کرنا چاہتیں شاید …

گولڈا مائیر: نہیں، نہیں، میں شاہ حسین سے یہ نہیں کہنا چاہتی کہ اردن کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اگر میں ایسا کہتی ہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایمانداری کی بات ہو گی۔ مسائل موجود ہیں۔ مجھے ان کا نقطۂ نظر بھی دیکھنا ہے۔ یہاں یروشلم کا مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں کہ اردن کا یروشلم پر کوئی دعویٰ نہیں۔ اس کا کبھی فیصلہ نہیں ہوا کہ یروشلم یا اس کا کوئی حصہ اردنی ہونا چاہیے۔ 1948ء میں جو کچھ ہوا، وہ طاقت کے ذریعے فتح حاصل کرنے کے اس اصول کو توڑنا تھا جس کی رو سے ایسا کرنا ممنوع تھا۔ ہم 1948ء میں کمزور تھے، اردن بہت مضبوط تھا، عرب لشکر اس وقت ایک اچھی فوج تھی، جس کی قیادت برطانوی کرتے تھے، برطانویوں نے تربیت دی تھی، اور انہوں نے یروشلم کا کچھ حصہ لے لیا تھا۔ لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اب یہ واپس ملنا چاہیے، مجھے یقین ہے کہ انہیں واپس نہیں ملے گا، لیکن ظاہر ہے کہ وہ اسے واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ ان کے نقطۂ نظر سے ایک مسئلہ ہے۔

پھر، مغربی کنارے پر آپ ہم سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ہم سرحدوں کو سابقہ پوزیشن پر لے جائیں جیسے وہ پہلے تھیں، تاکہ ہماری پرانی سرحد اور سمندر کے درمیان 12 میل کا علاقہ پھر حائل ہو جائے۔ تو، مسائل ہیں، لیکن ایسے مسائل نہیں ہیں جنہیں حل نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے اور ہمارے ہمسایوں کے درمیان تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

گولان کی چوٹیوں کو شام اتنا سنگین مسئلہ کیوں سمجھتا ہے، اگر وہ دوبارہ اس پوزیشن میں نہ آنا چاہیں جہاں سے وہ ہماری وادی میں ہمارے دیہاتوں پر گولہ باری کر سکیں؟ اگر ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، اور اگر انہوں نے اتنے سالوں تک جو کچھ کیا وہ نہ کرتے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ ہم دوبارہ نیچے آئیں، پہاڑ سے وادی میں نیچے اتر آئیں تاکہ وہ اپنی بندوقیں اوپر تان سکیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، اکثر یہ سنا جاتا ہے کہ عرب رہنماؤں کو اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنا بہت مشکل لگے گا کیونکہ پھر وہ سیاسی طور پر خود کو قائم نہیں رکھ پائیں گے، شاید بالکل بھی نہیں اگر انہوں نے امن قائم کیا۔ مثال کے طور پر مصر میں خاص طور پر، ایک اور کا نام لیں تو عراق میں ایسا سمجھا جاتا ہے۔ کیا مصر کے صدر سادات جیسا آدمی اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے پر اپنے آپ کو بچا پائے گا؟ آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ کو سوچنا ہے؟

گولڈا مائیر: میرے خیال میں ہم سب کو اس کے بارے میں سوچنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسرائیل کے حوالے سے ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان ممالک میں کیا ہوتا ہے؟ یقیناً، اس مسئلے کی ایک وجہ حکومتیں ہیں کیونکہ وہ جمہوری نہیں ہیں، وہ آمریتیں ہیں۔ ہر ڈکٹیٹر خود کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے لوگوں سے مختلف چیزوں کا وعدہ کرتا ہے۔ اس خطے میں ہر ڈکٹیٹر نے اپنے لوگوں سے ایک چیز کا وعدہ کر رکھا ہے کہ اسرائیل کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایک بات جس کے لیے مجھے لگتا ہے کہ انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کی کوشش نہیں کی، بلکہ انہوں نے کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ شاید ایک ڈکٹیٹر سے یہ توقع کرنا بہت زیادہ ہو گا کہ وہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے اور انہیں یہ بتانے کی ہمت کرے کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں نے اس کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ آپ لوگ اپنی ناخواندگی اور غربت اور بھوک وغیرہ کی صورت میں اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں اسے ترک کرنا ہوگا، اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا ہوگا، اور خود کو تعمیر کرنا ہوگا۔

اب اگر وہ لوگوں سے یہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگلے مہینے ایسا ہونے والا ہے، تو میرا واقعی یہ خیال ہے کہ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے، اور شاید وہ اپنی حکمرانی کو، بلکہ اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالے گا۔ لیکن مجھے افسوس ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس کی کیسے مدد کر سکتے ہیں۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، روس نے مصر کے مطالبے پر مصر سے انخلا کیا ہے۔ کیا اس حقیقت نے مشرقِ وسطیٰ میں کسی معاہدے یا امن کے امکانات کو بہتر بنایا؟

گولڈا مائیر: بہت سے لوگوں نے ایسا سوچا، ہمیں بھی امید تھی۔ لیکن حقیقت میں اگر آپ صورتحال کا تجزیہ کریں تو ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ روس مصر کو ہمارے خلاف جنگ پر اکسا رہا ہے۔ میرے خیال میں دو وجوہات کی بنا پر، روس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے۔

مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل کو تباہ کرنا ان کی پالیسی کا کوئی بڑا نکتہ ہے۔ وہ جو کرنا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ ناصر یا کسی دوسرے عرب رہنما کو جو کچھ سب سے زیادہ چاہیے وہ دے کر مشرق وسطیٰ میں اپنا داخلہ کی راہ ہموار کریں۔ اور 1955ء میں انہیں پتہ چلا کہ ناصر کو سب سے زیادہ جو چیز چاہیے وہ ٹریکٹر، جدید صنعتی پلانٹ اور سکول وغیرہ نہیں ہیں۔ بلکہ اسے سب سے زیادہ ٹینک اور ہوائی جہاز چاہئیں تاکہ اسرائیل کو تباہ کیا جا سکے۔ چنانچہ وہ انہیں یہ سب دینے کے لیے تیار تھے، اور انہیں لگاتار وقت دیتے رہے۔

اب جب وہ چلے گئے، تو ہم نے سوچا کہ اچھا، اگر سادات روس سے اس بنیاد پر مایوس ہو گئے کہ روس ہمیں تباہ کرنے کے لیے انہیں کافی مواد نہیں دے رہا تھا، تو شاید وہ اپنا ذہن بنا لیں کہ ٹھیک ہے ہم نے یہ دوست بھی کھو دیا، اور وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ امریکی ہمیں تباہ کرنے میں ان کی مدد کریں گے، تو شاید پھر انہیں پلٹ کر ہمارے ساتھ امن قائم کر لینا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

دیکھیں، اس سب میں ایک اور نکتہ (اسرائیل اور عرب ممالک میں فرق) ہے جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ ہم جمہوریت کے پابند ہیں اور کسی مختلف نظام کا تصور نہیں کر سکتے، بلکہ دیکھیں کہ چاہے وہ اسرائیل ہو، چاہے امریکہ، یا کوئی اور جمہوری ملک ہو، ایک حکومت جو فیصلہ کرتی ہے اور جس پر اسے یقین ہے کہ وہ عوام کے لیے اچھا ہے، ضروری نہیں کہ وہ فیصلہ مقبول بھی ہو جائے۔ وہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے، صدر پیش کرے یا کوئی اور، لیکن جمہوری طور پر منتخب ایک ادارہ ہوتا ہے جسے اس فیصلے سے نمٹنا ہوتا ہے۔

چلیں، اگر ہم اپنی حکومت کا طریقہ کار دیکھیں، برطانوی طرزِ حکومت، کہ حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے اور ہم پارلیمنٹ میں جاتے ہیں۔ تو کیا ہوتا ہے؟ ہم پارلیمنٹ میں اکثریت کھو دیتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ جب نئے انتخابات ہوتے ہیں تو ہم دوبارہ منتخب ہوتے ہیں یا کوئی دوسری پارٹی حکومت میں آتی ہے۔ لیکن ریاست باقی رہتی ہے۔ اگر ہم ہار جاتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ یہ برا ہوا ہے کیونکہ دوسرے اتنا اچھا نہیں کر سکتے جتنا ہم کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری پارٹی سوچے گی کہ وہ بہتر کریں گے۔ لیکن اس میں کوئی ہلاک نہیں ہوتا اور کوئی بھی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ نہیں کرتا۔

(دوسری طرف) سادات یا ان سے پہلے ناصر، یا شام میں اسد، یا عراق میں کوئی اور، انہیں ہمیشہ یہ مدنظر رکھنا پڑتا ہے کہ اگر وہ کوئی ایسا فیصلہ کرتے ہیں جو مقبول نہیں ہوتا، جو ان کی دی گئی سوچ کے خلاف ہے، تو وہ اپنا عہدہ کھو دیتے ہیں، وہ دوبارہ صدر نہیں بنیں گے۔ وہ صدر کیسے نہیں بنیں گے، کیونکہ وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے۔ کچھ جنرلز یا لیفٹیننٹس کسی بھی لمحے آ سکتے ہیں اور بندوق کی نوک پر انہیں باہر بھیج سکتے ہیں، جیل بھیج سکتے ہیں یا کسی اور جگہ۔ ان کی ذاتی زندگی خطرے میں ہے، ان کا صدر ہونا خطرے میں ہے۔ انہیں یہ سوچنا ہوتا ہے اور وہ سوچتے ہیں۔ اور یہ اس طرح کی حکومتوں کا المناک پہلو ہے۔ آمروں کو بہت بہادر لوگ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، یہ سچ نہیں ہے۔ وہ ڈرے ہوئے ہوتے ہیں، وہ اپنے اردگرد کسی پر بھروسہ نہیں کرتے، اپنے عزیز ترین دوستوں پر بھی نہیں۔

دیکھیں اسٹالن نے اپنے لوگوں کے ساتھ کیا کیا۔ دیکھیں سادات نے کیسے شروع کیا، سب سے پہلی چیز کہ لوگوں کو جیل بھیجنا۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے فیصلے کیسے کرتے ہیں؟ جیسے میں کرتی ہوں، آج ہم کابینہ کے اجلاس میں صبح 9 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک بیٹھے، مختلف چیزوں پر بات کر رہے تھے، مختلف آراء تھیں، ہمیں ووٹ لینا پڑتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے وزراء کو اکٹھا کرتے ہیں اور ان سے مشورہ پوچھتے ہیں یا نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کسی صبح اٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ اچھا اب میں یہ کروں گا اور پھر وہ کر لیتے ہیں۔ …… مشرقِ وسطیٰ میں اس طرح کی صورتحال، یہ بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔

ایڈون نیومین: کیا آپ کے خیال میں روسی اب واپس آ رہے ہیں؟ کیا سادات نے انہیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے؟

گولڈا مائیر: اچھا، یہ دیکھیں کہ سادات نے کیا کیا ہے۔ جیسے میں اسے دیکھتی ہوں کہ، کسی اچھی صبح اس نے روسیوں کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا، تو میرے خیال میں اس نے شاید یہ سوچا ہو گا کہ چونکہ امریکی روسیوں کو پسند نہیں کرتے اس لیے اگر میں روسیوں کو گھر بھیجتا ہوں تو امریکی میری تعریف کریں گے اور پھر وہ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے کہ صدر سادات! آپ بہت اچھے ہیں، آپ نے ان لوگوں کو بھیج دیا جن کو ہم پسند نہیں کرتے تھے، بس اب ہمیں بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کو دباؤ میں لائیں؟ ٹھیک ہے، آج دوپہر کو ہم بالکل یہی کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

لیکن امریکیوں نے ایسا نہیں کیا۔ تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، چونکہ امریکی اب سیاسی مہم میں مصروف ہیں، اور یہودی اتنے بااثر ہیں کہ یقیناً ان کے بغیر امریکہ میں کوئی صدر منتخب نہیں ہوتا، تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب میں مغربی یورپ جا رہا ہوں، یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں وہ چیزیں حاصل کر سکتا ہوں۔ اور اس نے اپنے قاصدوں کو مغربی یورپ بھیج دیا۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ امریکیوں نے اس کی مدد نہیں کی، مغربی یورپ نے اس کی مدد نہیں کی، تو اب وہ امریکیوں کو تھوڑا سا دوبارہ ڈرانے کے لیے روسیوں کے پاس واپس جا رہا ہے، اور وہ روسیوں کے پاس واپس چلا گیا۔

اس سب کا ایک اور مرحلہ ہے جو یقیناً اس کے ساتھ متعلق ہے جو کچھ میں نے ابھی تک کہا ہے۔ یعنی، جسے ہم ہمت کہہ لیں، یا جو بھی آپ اسے کہنا چاہیں، یہ جاننے کی کمی ہے کہ آپ ایک خودمختار ریاست ہیں، ایک خودمختار قوم ہیں، آپ کو اپنے فیصلوں اور اپنے لوگوں کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ کسی اور سے اپنے لیے کام کرنے کی توقع نہ رکھیں۔ مصر نے جنگ کی ہے، سادات نہیں بلکہ ناصر تھے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ 1967ء میں اچانک آپ نے اپنی فوج کو نہر کے پار سینائی صحرا میں بھیج دیا، اور ناصر نے کہا کہ آج کا دن ہے، اب ہم یہ کریں گے۔ ٹھیک ہے، آپ نے کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

اب اسرائیل نے جنگ کے فوراً بعد کہا کہ ٹھیک ہے، اب آئیں بیٹھ کر امن معاہدے پر بات چیت کریں۔ اور جواب تھا نہیں، نہیں، نہیں، امریکی اسرائیل کو دباؤ میں لائیں گے۔ انہیں 1956ء، 1957ء یاد تھا، امریکی اور روسی یہ کریں گے اور میں پیچھے بیٹھ کر اسرائیل کو دھمکاوں گا۔ امریکی اگر جلدی سے ایسا نہیں کرتے تو میں جنگ شروع کر دوں گا، اور اگر ** واقعی تباہ نہیں ہوئی تو کوئی بات نہیں، میں اپنے لوگوں کو بتاؤں گا، جیسا کہ ناصر نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ اس کا دو تہائی حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ حالانکہ کچھ بھی تباہ نہیں ہوا۔

آپ دیکھیں کہ لوگوں سے سچ کہنے کی ہمت کی کمی ہے۔ پہلے انہیں سچ بتائیں اور پھر اس ذمہ داری لیں۔ جیسے آپ امریکی کہتے ہیں کہ خود کرو، توقع نہ کرو۔ سادات سارا وقت کیا کہتے رہے کہ مجھے اس میں دلچسپی نہیں کہ اسرائیل کیا سوچتا ہے، میں صدر نکسن کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ میں اسرائیل پر اثر انداز ہوں گا، بلکہ میں کہتا ہوں کہ نکسن اسرائیل کو دباؤ میں لائیں۔ اس کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، جو کچھ آپ نے کہا ہے، کیا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ روسیوں کے جانے کے بعد سادات نے امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک سے اپیل کی، تو کیا انہوں نے کسی طرح سے موقع گنوا دیا ہے، اور کچھ ایسا تھا جو وہ کر سکتے تھے؟

گولڈا مائیر: نہیں، نہیں، بالکل نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی حالات اور بین الاقوامی تعلقات میں تمام ناکامیوں کے باوجود انصاف، ایمانداری اور شرافت کی ایک خاص بنیاد موجود ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم بالواسطہ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے بھی تیار ہیں، تو ہم سے اور کیا توقع کی جاتی ہے؟ ہم سے کیا توقع کی جانی چاہیے؟ یقیناً، امریکہ نے یہ طرزِ عمل اپنایا ہے کہ ہم دباؤ میں نہیں آسکتے اور نہ ہی آنا چاہیے۔ امریکہ مدد کرنے کے لیے تیار تھا کہ فریقین کو مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یورپی ممالک نے بھی ایسا ہی کیا۔

اور اب جب سادات روس واپس گئے، تو مجھے نہیں لگتا کہ جو کچھ انہیں مل رہا ہے ان کے خیال میں وہ اس سے اتنے خوش ہیں۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ حالات کیسے ہوں گے۔ لیکن پہلے وہ انہیں بھیجتا ہے، پھر وہ ان کے پاس واپس جاتا ہے۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عنقریب مصر میں دوبارہ 20,000 روسی موجود ہوں گے، لیکن جو مواد انہوں نے بھیجا ہے اس کے ساتھ کچھ تعداد میں، جسے آپ مشیر کہہ لیں، انسٹرکٹر کہیں لیں، وہ واپس آ رہے ہیں۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، میں آپ سے چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کے بارے میں دو نکات پوچھنا چاہوں گا۔ ایک کا تعلق یہودی بستیوں یعنی اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہے۔ اور کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل ان علاقوں میں آباد ہو کر ایک Fait accompli (لوگوں کی مرضی کے بغیر فیصلے) ٹھونس رہا ہے، کچھ جگہوں پر ایسا کرنے کے لیے عرب کسانوں کو بے دخل کر رہا ہے، کہیں پر، جیسا کہ کہا جاتا ہے، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر رہا ہے، گھروں کو تباہ کر رہا ہے وغیرہ۔ میرا خیال ہے ہم پہلے آبادکاری کے سوال پر بات کریں۔ آپ مقبوضہ علاقے میں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

گولڈا مائیر: بالکل وہی جو ہم کر رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے کچھ حصوں میں ہم بستیاں بنا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے۔ ہم بستیاں بنانے کے لیے عرب گھروں کو تباہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم نے غزہ پٹی کے بدحال پناہ گزین کیمپ میں عرب گھروں کو تباہ کیا تاکہ ہم سڑکوں کو وسیع کر سکیں، اور اس کے ساتھ سکیورٹی کو بہتر بنا سکیں کیونکہ وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔ لیکن لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کہ وہاں موجود کھلے نالوں کو ڈھانپنے کے لیے، اور ان کے لیے دوسرے گھر بنانے کے لیے، اور ہاں بجلی اور پانی وغیرہ لگانے کے لیے بھی۔

اب میں جانتی ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم بستیاں بنا رہے ہیں اس لیے اب ہم عرب ہمسایوں کے ساتھ مذاکرات کو مشکل بنا رہے ہیں۔ لیکن جنگ کے فوراً بعد تو ہمارے پاس بستیاں نہیں تھیں اور ہم جنگ کے فوراً بعد امن پر مذاکرات کے لیے تیار تھے۔ اور ہم نے کبھی انکار نہیں کیا کہ ہم 1967ء کی سرحدوں پر واپس نہیں جائیں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ اور یقیناً یہ بستیاں سرحدوں میں تبدیلیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کونسل میں بیٹھ کر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم مذاکرات چاہتے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی گاؤں میں جاتے ہیں، عربوں کو باہر نکالتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں اور ایک بستی بنا دیتے ہیں، اس سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار کسی کو تھوڑا سا ہٹانا پڑتا ہے، گاؤں یا آبادی کو نہیں، کبھی کبھی کسی انفرادی گھر کو معاوضے اور دوبارہ تعمیر کے ساتھ۔ ہم فرشتے نہیں ہیں لیکن ہم اتنے برے بھی نہیں ہیں۔

ایڈون نیومین: اچھا، اس نکتے پر، مسز مائیر، میں پڑھ رہا تھا کہ واقعی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے، جس کی آپ نے تردید یا وضاحت کی ہے۔

گولڈا مائیر: میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں، مثال کے طور پر، غزہ پٹی میں کچھ گھر تباہ کیے گئے ہیں، اور بہت کم مغربی کنارے میں بھی، کیونکہ یہ گھر دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔ یہ سچ ہے، لیکن اس کا بستیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ایڈون نیومین: مثال کے طور پر، کیا اسرائیلی کسانوں کو دینے کے لیے زمین کی کوئی ضبطی نہیں ہوئی ہے؟ جیسا کہ لکھا گیا ہے۔

گولڈا مائیر: ، وہ زمین ریاستی ہے، یا وہ انفرادی لوگوں کی تھی جو خریدی گئی اور ادائیگی کی گئی۔ اور اگر وہ پیسہ قبول نہیں کرنا چاہتے تو بہرحال یہ ان کے اختیار میں ہے، اور ہم کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

ایڈون نیومین: کچھ زمین، میرا اندازہ ہے، سرکار کی ملکیت ہے، جو کہ

گولڈا مائیر: بالکل، اسی کو آپ ریاستی زمین کہتے ہیں۔

ایڈون نیومین: میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کچھ ملک بدریاں اور کچھ غیر معینہ مدت تک بغیر مقدمہ کے حراستیں ہوئی ہیں۔

گولڈا مائیر: دہشت گرد۔ کچھ ایسے دہشت گرد جنہیں کارروائی کے دوران پکڑا گیا ہے ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ اور دوسرے جو دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرتے اور حصہ لیتے رہے ہیں وہ انتظامی حراست میں ہیں۔ یہ سچ ہے۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ جاننا بہتر ہو گا کہ علاقے میں تمام تر دہشت گردی کے باوجود ایک یا دو موت کی سزائیں ہوئی ہیں لیکن ایک بھی شخص کو پھانسی نہیں دی گئی۔ کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے سول قوانین میں ہم نے سزائے موت کو ختم کر دیا۔ ہماری فوجی عدالتوں میں، جنگی کارروائیوں یا غداری جیسے معاملات میں اس سزا کی اجازت ہے، لیکن پھر بھی ایک یا دو بار فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے تو اسے بھی عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا، کیونکہ حکومت نے 1967ء کے بعد فیصلہ کیا تھا سزائے موت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کبھی کبھی کیس اتنا سنگین ہوتا ہے کہ جج خود سزائے موت کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن پھر اسے ہمیشہ عمر قید میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، میں معذرت کے ساتھ اب موضوع کو تیزی سے بدلنا چاہوں گا۔ آپ کی پیدائش کیف میں ہوئی، آپ پنسک منتقل ہوئیں، 1906ء میں امریکہ کے شہر ملواکی چلی گئیں۔ چلیں ملواکی کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں، اس پر بعد میں بات کر سکتے ہیں۔ آپ کے بارے میں یوں ذکر کیا جاتا ہے کہ ’’مائیر، جنہوں نے ملواکی کو مشہور کیا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ آپ شلٹز کے قریب پیدا ہوئی تھیں، لیکن میں احتیاطاً‌ شلٹز اور پابس دونوں کا کہوں گا۔ بہرحال، اس سے پہلے کہ ہم ملواکی والے حصے پر آئیں، آپ روس میں پیدا ہوئیں، 1906ء میں امریکہ گئیں۔ اور آپ نے کہا ہے کہ اگر آپ کی زندگی نے کوئی منطقی سمت اختیار کی ہے تو وہ روسی زار شاہی کے دور میں آپ کو جو تجربات ہوئے ان سے یہودی بچوں کو بچانے کی خواہش اور عزم ہے۔ اس میں سے کتنا آپ کی یادداشت میں زندہ ہے؟

گولڈا مائیر: لیکن یہودی قوم کی اجتماعی یادداشت بہت طویل ہے۔ اور انفرادی یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کی بھی ایسی ہی یادداشت ہے۔ امریکہ میں اگر میری نسل کے اور اس وقت کے تارکینِ وطن ابھی بھی ہیں، تو یہ ایک دہرائی جانے والی کہانی ہوگی۔ تب یہ کیف نہیں، یہ ویلنا ہوگا، پھر یہ کلیتسک ہوگا، بیاسٹوک ہوگا، ماسکو ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کہاں ہوگا، لیکن یہ وہی کہانی ہے۔ بہت سے یہودیوں کی پہلی یادداشت، سب سے پہلی چیز جو انہیں یاد ہے، جیسا کہ مجھے خود، وہ یہ ہے جب میرے والد اور اوپر کے پڑوسی دروازوں پر کیلیں ٹھوک رہے تھے کیونکہ افواہیں تھیں کہ ایک اور قتلِ عام ہونے والا ہے۔ اور یہ کوئی اتنا عجیب واقعہ نہیں تھا، اس کے بعد بھی قتل عام ہوئے۔ اس وقت تو ایسا نہیں ہوا تھا، لیکن وہاں کھڑے ہو کر یہ دیکھنے کی ہولناکی کہ ہمارے باپ کیا کر رہے تھے اور یہ سوچنا کہ ایسا ہو سکتا ہے، وہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کے باوجود ایک مختلف کردار اپنایا۔ میرے لیے، یہ وہ چیز ہے جس نے، جیسا کہ میں نے کہا، شعوری یا غیر شعوری طور پر میرے زندگی کے راستے کا فیصلہ کیا۔

ایڈون نیومین: تو کیا آپ کو روسی یہودیوں کے ساتھ کوئی مشترکہ بات نظر آتی ہے جو اب اسرائیل آ رہے ہیں؟

گولڈا مائیر: یقیناً، لیکن تمام یہودیوں کے ساتھ۔ مثال کے طور پر، آج شام میں یہودی بچوں کے ساتھ کیوں نہیں جو گھیٹو میں رہتے ہیں؟ اور انہیں معلوم ہے کہ گھیٹو میں دہشت گردی کے تحت رہنا کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ وہ یہودی ہیں۔ اور ہٹلر کے دور میں دوسری عالمی جنگ کے دوران کیا ہوا۔ میرا مطلب ہے، یہ وہی چیز ہے۔ یہ خودمختاری کا سوال ہے۔ میری اپنی دو نسلیں اب یہاں پیدا ہوئی ہیں۔ یہ یقیناً‌ میری ذاتی زندگی میں شاید سب سے بڑی چیز ہے کہ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور ان کے پانچ بچے ہیں، جن کو اپنے بچپن کے بارے میں جو کچھ میں بتاتی ہوں، وہ ان کے لیے ایک کہانی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ جدید یہودی تاریخ اور قدیم یہودی تاریخ ہے۔ لیکن جہاں تک ان کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، تو آپ جانتے ہیں، جنگوں کے بارے میں خوف۔ یہ سچ ہے۔ میری پوتی/نواسی اب فوجی سروس سے فارغ ہو چکی ہے۔ میرے بچے تمام جنگوں میں شامل تھے، لیکن قتلِ عام کا کوئی خوف نہیں، چھپنے کا کوئی خوف نہیں۔

ایڈون نیومین: ان روسی یہودیوں کے بارے میں جو اب یہاں آ رہے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ظاہر ہے بہت زیادہ دلچسپی پیدا کرتا ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ روسی حکومت، سوویت حکومت، باہر سے دباؤ کا جواب دیتی ہے؟

گولڈا مائیر: بلاشبہ۔ بلاشبہ۔ یہی واحد چیز ہے جو واقعی متاثر کر سکتی ہے۔ اور دیکھیں، ہمیں روس کے خلاف جو کچھ کہنا ہے، اور یقین کریں کہ ہمیں اس کے خلاف بہت کچھ کہنا ہے، اس سب کے باوجود پھر بھی ہمیں کچھ امیگریشن مل رہی ہے، جس کی کئی سال پہلے میں سہولت حاصل نہیں تھی۔ البتہ اسٹالن کو اس کی پروا نہیں تھی کہ دنیا اس کے بارے میں یا روس کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ خروشیف مختلف تھا۔ یہ لوگ یقیناً مختلف ہیں۔

اور روس میں صورتحال ایسی ہے کہ، مجھے ان لوگوں کو کم از کم ایک چیز کے لیے کریڈٹ دینا چاہیے، چاہے مجھے تکلیف ہی کیوں نہ ہو، ان کے لوگوں اور ان کے ملک میں ایک ایسی صورتحال ہے کہ انہیں مغربی دنیا میں مدد کی شدید ضرورت ہے۔ ان میں مغربی دنیا میں جا کر مدد مانگنے اور کوئی ایسا انتظام کرنے کی ہمت ہے جہاں انہیں یہ مل سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب اور دنیا کی طرف سے یہ دباؤ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ روس میں یہودی کیا چاہتے ہیں؟ وہ اسرائیل جانا چاہتے ہیں۔ وہ روس پر حملہ کرنے نہیں جا رہے ہیں۔ انہیں بغیر کسی بدحالی کے، جیل بھیجے بغیر، پاگل خانے بھیجے بغیر، سائبیریا بھیجے بغیر، ایسا کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

ایڈون نیومین: کیا آپ کو اندازہ ہے کہ کتنے لوگ باہر آنا چاہتے ہیں؟

گولڈا مائیر: کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اور کبھی کبھی ہمیں روسیوں کی طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ بہت کم یہودی باہر جانا چاہتے ہیں، اگر ان کو ایسا لگتا ہے کہ بہت کم لوگ ہیں تو بس انہیں جانیں دیں۔ اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں، تو پھر بہت سے لوگوں کو جانے دیں۔ ہر آزاد ملک اپنے لوگوں کے ساتھ ایسا کرتا ہے، کیونکہ اگر وہ لوگوں کو جانے دیتے تو انہیں بہت زیادہ خیر سگالی حاصل ہو سکتی تھی۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ ابھی بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کچھ لوگوں کو بھیج رہے ہیں، جانے کی اجازت دے رہے ہیں، پھر وہ لوگوں پر تاوان لگاتے ہیں، پھر کچھ لوگوں کو سائبیریا بھیجتے ہیں۔ اور خیر سگالی حاصل کرنے کے بجائے وہ اسے تباہ کر رہے ہیں۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، بہت سی باتیں ہوئی ہیں، شاید زیادہ تر اندازے تھے، اسرائیل کی آبادکاری کرنے کی صلاحیت کے بارے میں۔ آپ اس ملک میں کتنے لوگوں کو واقعی رکھ سکتی ہیں، سہارا دے سکتی ہیں، مجھے کہنا چاہیے کہ کتنے لوگ واقعی اپنے آپ کو سہارا دے سکتے ہیں؟ کیا اسرائیلی حکومت کے ذہن میں کوئی موجودہ اعداد و شمار ہے؟

گولڈا مائیر: آپ کو معلوم ہے کہ جس دن برطانیہ کو اسرائیل پر مینڈیٹ ملا اور جس دن ہمیں آزادی ملی، میرے خیال میں تقریباً 20 رائل کمیشن آئے تھے۔ تو ایک رائل کمیشن نے ایک بار کہا تھا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے، ملک کی اتنی زیادہ آبادی ہے کہ ہم اس میں ایک بلی کو بھی نہیں گھما سکتے۔ ہم کوئی بلیوں کو ہلانا چاہتے تھے، ہم تو ملک میں لوگ رکھنا چاہتے تھے۔ پھر ایک اور رائل کمیشن نے کہا کہ اس ملک میں پانی کے ایک اور قطرہ بھی بھی گنجائش نہیں۔

تو یقیناً آبادکاری کرنے کی صلاحیت کا یہی مسئلہ تب بھی تھا۔ اور ڈاکٹر وائزمین نے ایک بار کہا تھا کہ آبادکاری کی صلاحیت کی کیا بات ہے، ہر یہودی جو اس وقت کے فلسطین آتا ہے، اس کے سوٹ کیس میں چند مزید یہودیوں کو لانے کی جگہ ہوتی ہے۔

اور اب یہاں ہماری آبادی تیس لاکھ کے قریب ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک کا اتنا بڑا حصہ اب بھی غیر کاشت شدہ اور غیر آباد ہے۔ اور چیزیں ترقی کر رہی ہیں۔ کئی ایکڑ کا ایک فارم جو ایک خاندان کے لیے ضروری تھا جب ہمارے پاس آبپاشی نہیں تھی، زراعت کے کوئی جدید طریقے نہیں تھے، اب وہی جگہ چار خاندانوں کی کفالت کر سکتا ہے۔ اور پھر صنعت اور سائنس اور ٹیکنالوجی، اس کی کوئی حد نہیں۔ ہم کوئی بیس کروڑ کی قوم نہیں ہیں، اس لیے جو تعداد ہمارے پاس آئے ہم اسے لے سکتے ہیں۔

ایڈون نیومین: کیا ایسا کبھی ہوا، مسز مائیر، جب آپ امریکہ میں تھیں، جہاں آپ کافی عرصے تک رہیں، آپ نے وہاں رہنے کا سوچا کہ آپ امریکی ہو سکتی ہیں؟

گولڈا مائیر: یہاں آنے سے پہلے؟

ایڈون نیومین: ہاں۔

گولڈا مائیر: میرا خیال ہے جب میں وہاں گئی تھی تو آٹھ سال کی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ایک صیہونی بنی، زیادہ درست کہوں تو مزدور صیہونی، میں نے اس وقت تک مزدور صیہونی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی جب تک میں نے یہ فیصلہ نہیں کر لیا کہ میں فلسطین آؤں گی۔ مجھے کسی طرح یہ درست نہیں لگتا تھا کہ میں ایک یہودی ریاست کے لیے ہوں، لیکن میں ملواکی میں رہوں۔ تو بہت زیادہ سال نہیں تھے۔ اور خدا جانتا ہے کہ یہ اس لیے نہیں تھا کہ امریکہ ہمارے لیے اچھا نہیں تھا اور نہ ہی اس لیے کہ میں نے ہر اس چیز کی قدر نہیں کی جو عام طور پر وہاں تھی۔ لیکن صیہونیت اور امریکہ کے درمیان فرق میری یہودیت کی وجہ سے تھا۔ اور اس خاص خصلت کی وجہ سے کہ اگر آپ کسی چیز پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کو اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تو میں اگرچہ 23 سال کی عمر تک امریکہ میں رہی، 1921ء میں یہاں آئی، لیکن ان سالوں میں سے، کافی سالوں تک میں صیہونی سرگرمیوں میں ملوث رہی۔

ایڈون نیومین: مسز مائیر، ہمارے پاس صرف دو منٹ باقی ہیں، اور میں آپ سے ماضی کے بارے میں تھوڑا اور پوچھنا چاہوں گا۔ آپ جولائی 1921ء میں تل ابیب پہنچیں۔

گولڈا مائیر: کیا گرمی تھی وہاں!

ایڈون نیومین: آپ ایک کبوتس (kibbutz) میں استاد بنیں، لیکن آپ نے، جیسا کہ میں نے پڑھا ہے، بادام بھی چنے، مرغیوں کی دیکھ بھال کی، اور بچوں کی دیکھ بھال کی، اور یقیناً‌ اس وقت تک آپ کی شادی ہو چکی تھی۔ اور کئی سالوں کے دوران، جیسا کہ میں نے پڑھا ہے، آپ کبھی بیوٹی پارلر نہیں گئیں، آپ کے پاس ملبوسات کی تعداد محدود رہی، آپ نے بہت کم فارغ وقت گزارا۔ کیا آپ کو ان میں سے کسی کا افسوس ہے؟

گولڈا مائیر: سب سے پہلے مجھے ایک ایسی چیز کو درست کرنا ہے جو کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ میں کبوتس میں استاد نہیں تھی، میں مرغیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی، میں روٹی پکاتی تھی اور کپڑے دھوتی تھی۔ میں ایک حقیقت پسند ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر بیوٹی پارلر جانے سے واقعی میں خوبصورت ہو جاتی تو میرا خیال ہے میں ایسا کرتی، لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جو بھی ہے، مجھے اسی طرح رہنا ہے۔ مجھے یقیناً اپنی زندگی میں کسی چیز کا کبھی افسوس نہیں ہوا۔ میری زندگی میں مجھے اتنی خوشی اور اطمینان ہے کہ میں کبھی بیان نہیں کر پاؤں گی۔ اور ایک شخص جو اپنی زندگی میں اس طرح کا انقلاب دیکھتا ہے، دیکھتا ہے کہ یہودی لوگ پناہ گزینوں کی قوم ہیں، اور وہ لوگ ہیں جنہیں کچھ نے قتل کیا اور باقیوں نے ترس کھایا، وہ ایک خودمختار قوم بن کر اپنی سرزمین پر واپس آ گئی۔ بہت سے مسائل اور بہت سی پریشانیاں ہیں، لیکن پھر بھی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اور اب کسی بھی صورت میں اس پر ترس نہیں کھایا جاتا۔ ایسے شخص کو اور کیا چاہیے۔

ایڈون نیومین: بہت بہت شکریہ، مسز مائیر۔

گولڈا مائیر: شکریہ۔

ایڈون نیومین: گولڈا مائیر کھل کر بات کر رہی تھیں۔ ایڈون نیومین، این بی سی نیوز۔

 

Golda Meir Interview (Reel 1 of 2)

Golda Meir Interview (Reel 2 of 2)