نہریں انسان کی خود ساختہ آبی گزرگاہیں ہیں جو صدیوں سے عالمی تجارت اور معیشت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی آ رہی ہیں، اور جدید دور میں تعمیراتی ایجادات و امکانات نے ایسے مزید منصوبوں کی راہ ہموار کر دی ہے جن کے ساتھ ان کے منصوبہ سازوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ بنیادی طور پر ایسی نہریں مختلف علاقوں، دریاؤں اور سمندروں کو آپس میں ملاتی ہیں جس کے نمایاں نتائج درج ذیل ہیں:
- پہلا اور عام نتیجہ یہ ہے کہ سفر کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے جو کہ سامان کی ترسیل کے اخراجات میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جہازوں اور کشتیوں کا ایندھن کم استعمال ہوتا ہے، عملے کا وقت کم صَرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا معاوضہ مناسب رہتا ہے، نیز خورد و نوش کی ایسی اشیاء جن کے باسی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے وہ بروقت اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔
- دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جن خطوں میں ایسی نہریں امکانات ہونے کے باوجود ابھی تک نہیں بنائی جا سکیں، ان کی رسائی نئی منڈیوں تک نہیں ہو سکتی، جس کا نتیجہ محدود تجارت اور کاروبار کی صورت میں ظاہر ہے۔
- تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ نقل و حمل کی وجہ سے مختلف علاقوں کی تہذیبوں کا اشتراک و ادغام ہوتا ہے جس سے ثقافتیں ترقی کرتی ہیں اور دنیا کو مربوط بنانے کے لیے یہ صورتحال بڑی حوصلہ افزا خیال کی جاتی ہے۔
ذیل میں دنیا کی چند اہم ترین نہروں اور عالمی تجارت اور معیشت پر ان کے اثرات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دنیا کی پانچ بڑی نہریں
(۱) نہر سویز، مصر (The Suez Canal)
نہر سویز 1869ء سے جاری ہے اور یہ بحیرۂ روم کو بحیرۂ احمر سے منسلک کرتی ہے۔ یہ یورپ اور ایشیا کے درمیان مختصر ترین سمندری راستہ ہے جس سے جہازوں کو پورے افریقی براعظم کے گرد چکر لگانے کی ضرورت نہیں رہتی اور اس سے سمندر کا ہزاروں میل کا سفر اور ہفتوں کا وقت بچ جاتا ہے۔ اس کا براہ راست مطلب ایندھن کی کم کھپت کے ذریعے شپنگ کمپنیوں کے ترسیل کے اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ سامان کی تیز رفتار تجارت ہے۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے مبینہ طور پر عالمی تجارت کا دس سے بارہ فیصد سامان گزرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نہر سویز کے ذریعے سے ہر سال ایک ٹریلین ڈالرز سے زیادہ تجارت ہوتی ہے اور کنٹینرز کی تیس فیصد سے زیادہ گلوبل ٹریفک اس راستے کا استعمال کرتی ہے۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک تیل اور گیس کی سپلائی کے حوالے سے یہ بہت اہم راستہ ہے۔ یہ نہر چونکہ مصر سے گزرتی ہے اس لیے مصر ٹرانزٹ فیس کے طور پر ایک معقول سالانہ آمدنی اس سے حاصل کرتا ہے جو کہ ملک کی معیشت کا ایک نمایاں حصہ ہے۔
(۲) نہر پاناما، پاناما (The Panama Canal)
نہر پاناما 1914ء سے جاری ہے جو بحرِ اوقیانوس کو بحر الکاہل سے منسلک کرتی ہے۔ یہ جہازوں کو جنوبی امریکہ کے گرد بڑے چکر سے بچاتی ہے جس کا سفر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہر شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل اور ایشیا کے درمیان، اور یورپ اور امریکہ کے مغربی ساحل کے درمیان سفر کے فاصلوں کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اس نہر نے نیویارک سے سان فرانسسکو کا سفر 13,000 میل سے کم کر کے 5,200 میل کر دیا ہے۔ نہر سویز کی طرح یہ نہر بھی شپنگ کمپنیوں کے لیے ایندھن، وقت اور ترسیل کے اخراجات میں بہت زیادہ بچت کا باعث بنتی ہے۔ اس نہر نے پاناما کے اندر اس کے راستوں پر واقع بندرگاہوں کے ذریعے علاقائی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2016ء میں اس نہر کا ایک توسیعی منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس کے ذریعے بڑے جہازوں کو گزرنے کی سہولت مہیا کی گئی ہے جو اب 14,000 تک کنٹینرز لے جا سکیں گے۔
(۳) کیل نہر، جرمنی (The Kiel Canal)
کیل نہر شمالی بحیرہ سے بحیرۂ بالٹک تک تقریباً 98 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے جو یورپ کی سب سے مصروف آبی گزرگاہ ہے۔ یہ جہازوں کو ڈنمارک کے جٹ لینڈ جزیرہ نما کے گرد لمبے اور خطرناک راستے سے بچاتی ہے۔ کیل نہر جہازوں کے اوسطاً 250 سمندری میل اور تقریباً 16 گھنٹے کا سفر کم کرتی ہے جس سے ایندھن کی نمایاں بچت ہوتی ہے۔ یہ نہر شمالی بحیرہ کی بندرگاہوں کو بحیرۂ بالٹک کی بندرگاہوں سے منسلک کرتی ہے جو کہ جرمنی کے لیے فائدہ مند ساحلی رابطوں کا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے تقریباً 30,000 سے زیادہ سالانہ ٹرانزٹس ہوتے ہیں جس سے اس کی رواں معاشی سرگرمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
(۴) گرینڈ کینال، چین (The Grand Canal)
گرینڈ کینال دنیا کی سب سے لمبی اور قدیم ترین نہر ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے کچھ حصے پانچویں صدی قبل از مسیح تک پرانے ہیں۔ یہ شمال میں بیجنگ شہر کو جنوب میں ہانگژو شہر سے جوڑتی ہے اور راستے میں چین کے پانچ بڑے دریاؤں سے گزرتی ہے، جن میں سے دو بڑے دریا ییلو اور یانگسی ہیں۔ تاریخی طور پر اس نہر نے چین کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور جنوب کے زرخیز علاقوں سے شمالی دارالحکومتوں تک اناج اور خام مال کی ترسیل کے ساتھ ساتھ فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے بھی استعمال میں رہی۔ گرینڈ کینال نے بڑے شہروں اور زرعی علاقوں کو منسلک کر کے بے پناہ تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی ترقی کو فروغ دیا کیونکہ اس کے ذریعے چین کے اندر دور دراز علاقوں تک سامان اور وسائل کی مؤثر نقل و حرکت ممکن ہوئی۔
اگرچہ جدید دور میں چین کی تجارتی نقل و حمل زیادہ تر ریلوے اور زمینی راستوں سے ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود گرینڈ کینال کے کچھ حصے مقامی علاقوں کے درمیان سفر اور تجارت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، نیز اس کے ذریعے سیر و سیاحت کی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں۔
(۵) سینٹ لارنس سمندری گزرگاہ، کینیڈا و امریکہ (St. Lawrence Seaway)
یہ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان آبی گزرگاہوں کا ایک بہت بڑا نظام ہے جس کا بنیادی مقصد بحرِ اوقیانوس کو شمالی امریکہ کی بڑی جھیلوں (Great Leaks) کے ساتھ منسلک کرنا ہے تاکہ سمندری جہاز براعظم کے اندرونی علاقوں مثلاً مینیسوٹا کے شہروں تک جا سکیں۔ یہ نظام سمندری جہازوں کو کینیڈا اور امریکہ کے صنعتی و زرعی علاقوں کے مراکز تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اور یہ خام مال جیسے لوہا، کوئلہ، اناج کے علاوہ تیار شدہ مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کا بہت ہی کفایتی راستہ ہے۔ یہ آبی گزرگاہیں دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالرز کی اقتصادی سرگرمیوں اور لاکھوں ملازمتوں کا ذریعہ ہیں۔ اس نظام کے بغیر کینیڈا اور امریکہ کے تجارتی مراکز تک سفر کے لیے جہازوں کو جنوب کا لمبا سفر اختیار کرنا پڑتا جس سے سفر کے دورانیے کے ساتھ ساتھ سامان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
اسرائیل کا بین گوریون (Ben Gurion Canal) نہری منصوبہ
بین گوریون کنال (Ben Gurion Canal) اسرائیلی منصوبہ ہے جس کا بنیادی مقصد بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کا مصر کی سویز نہر پر انحصار بہت کم رہ جائے گا۔ بین گوریون نہر مکمل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں ہو گی جسے وہ نہ صرف تجارت بلکہ جغرافیائی سیاسی طور پر بھی اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے استعمال کر سکے گا۔
عرب دنیا اس منصوبے کو نہ صرف اقتصادی خطرہ سمجھتی ہے بلکہ اسے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھی ایک جغرافیائی سیاسی سازش کے طور پر دیکھتی ہے۔ بین گوریون نہر کا مجوزہ راستہ اسرائیل کے صحرائے نیگیو (Negev Desert) سے گزرتا ہے، اور یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ راستہ سمندر تک پہنچنے سے پہلے غزہ پٹی کے قریب سے یا اس کے کچھ حصے میں سے بھی گزر سکتا ہے۔ یہ بات عرب ممالک اور بالخصوص فلسطینیوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس منصوبے کے بہانے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی کنٹرول مزید بڑھایا جا سکتا ہے اور سرحدوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ موجودہ غزہ تنازعہ کے دوران بھی اس منصوبے کے بارے میں افواہیں گرم رہی ہیں اور اسے اس تنازعہ کے ایک بنیادی محرک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں ایک نئے اشتعال کا باعث بنے گا کیونکہ اس سے عالمی تجارت پر غیر معمولی برتری کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو سیاسی اور اقتصادی دباؤ ڈالنے کی صلاحیت بھی ملے گی۔
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے یہ منصوبہ بارہا سامنے لایا گیا ہے لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا، جس کی ایک بڑی وجہ اس پر لاگت کا تخمینہ ہے جو عالمی سطح پر کسی بھی ایسے منصوبے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، تکنیکی چیلنجز اور شدید سیاسی و حفاظتی تحفظات بھی اس کی راہ میں حائل ہیں۔
مختصراً یہ کہ اگر یہ نہر تعمیر ہوتی ہے تو اس کا براہ راست مقابلہ سویز نہر سے ہو گا جو کہ مصر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز عرب ممالک اس منصوبے کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دے گا اور علاقائی استحکام کو مزید نقصان پہنچائے گا۔