تجارتی راہداریوں کی کشمکش میں ایران کی حیثیت
سب کو صبح بخیر، دنیا میں بہت کچھ چل رہا ہے، تو آئیے شروع کرتے ہیں۔ ہم 4 جولائی کے ویک اینڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد وال سٹریٹ پر ’’سمر ٹریڈنگ‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ ہیج فنڈز والے امیر لوگ چھٹیوں پر املفی کوسٹ (اٹلی) چلے جاتے ہیں اور وہ کاروبار کو اس ہدایت کے ساتھ قائم مقام عملے کے سپرد کر جاتے ہیں کہ: ’’جب تک میں واپس نہ آؤں کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ (اس سیزن میں) معاشی اعداد و شمار بہت سست ہو جاتے ہیں، جولائی اور اگست میں کچھ زیادہ اہم چیزیں سامنے نہیں آتیں، تو اب چھٹی پر جانے کا وقت ہے۔
اسی لیے میں ایران پر چار حصوں کی ایک سیریز بنانے جا رہا ہوں، اور اس پر کہ اس سے آپ کے پورٹفولیوز پر کیا اثر پڑے گا۔ اور یہ شاید ایسا کرنے کا مناسب وقت ہے۔ تو آپ نے دیکھا ہے کہ ایران میں حملوں اور ’’غیر حملوں‘‘ وغیرہ کے سلسلہ میں کیا چل رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ کلنٹن کے بعد سے ہر صدر کو ایران کے ساتھ نمٹنا پڑ رہا ہے۔ کلنٹن، بش، اوباما، بائیڈن، ٹرمپ: ایران، ایران، ایران۔ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ میرا خیال یہ ہے کہ یہ جوہری ہتھیاروں سے کہیں بڑا معاملہ ہے، اور اس کا بہت زیادہ تعلق ان کے جغرافیہ کے ساتھ ہے۔ اور اس لیے میں آج کی گفتگو میں تجارتی راستوں کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہے کہ یہ مشرق اور مغرب دونوں کے لیے کتنے اہم ہیں۔
یہ قصہ بہت پرانا ہے۔ سر الفریڈ جان میکنڈا کے نام سے ایک صاحب تھے جو برطانوی سلطنت کے زمانے میں بہت بااثر برطانوی شخصیت تھے۔ تب انگریز ایک بات سے خوفزدہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان ان کی سلطنت کی کلید ہے، اور انہیں صرف ایک دشمن ایسا نظر آتا تھا جو ممکنہ طور پر ہندوستان پر قبضہ کر سکتا تھا اور اس طرح پوری برطانوی سلطنت کو مٹا سکتا تھا۔ وہ روس تھا۔ تو ان کا یہ نظریہ تھا، جسے ’’جزیرۂ دنیا کا نظریہ‘‘ (Heartland Theory) کہا گیا۔ جو یہ تھا: جو بھی دنیا کے اس حصے کو کنٹرول کرتا ہے، ایشیا اور یورپ کے درمیان کا حصہ، اس کے پاس دنیا کا کنٹرول ہو گا‘‘۔ اور یہی وہ بات ہے جو میکنڈا نے پیش کی۔
اور درحقیقت انگریزوں کا اس سے پہلے بھی یہی خیال تھا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ سچ ہے، لیکن ان کا یہی یقین تھا۔ تو جب انگریزوں نے ہندوستان سے باہر تجارتی راستے بنائے، میں آپ کو ایک نقشہ دکھاتا ہوں: کیا آپ کو یہ نیلی لائن نظر آتی ہے جو ممبئی، ہندوستان میں شروع ہوتی ہے؟ دراصل، ہندوستان کے مغربی ساحل کے ساتھ ایک سے زیادہ بندرگاہیں ہیں، لیکن تجارت وہاں سے شروع ہوئی۔ نیلی لائن کو دیکھتے جائیں، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، یہ بحری جہاز کا راستہ ہے، جو بحیرہ احمر اور نہر سویز سے ہوتا ہوا بحیرہ روم تک، پھر اسپین سے گزرتا ہوا یورپ کے ساحل تک، اور پھر بالٹک سمندر تک جا پہنچتا ہے، اور پھر ماسکو تک۔
آپ کو اس راستے میں کیا خاص بات نظر آتی ہے؟ یہ کافی حد تک ایک سمندری راستہ تھا، اور برطانیہ ایک سمندری طاقت تھا۔ اور اس راستے نے جو کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ایشیا کو منقطع کر دیا، اور سمندری حصے کے جزیروں کو منقطع کر دیا، اور ہر چیز کو برطانویوں اور بنیادی طور پر یورپیوں کے کنٹرول میں رکھا۔ ہم اس تجارتی راستے کو ہمیشہ سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں (کیونکہ) اس کا مزاج پایا جاتا ہے کہ جو چیزیں کام کرتی رہیں ان پر قائم رہا جائے۔
کئی سال پہلے (روسی صدر) پیوٹن نے ایک تقریر کی تھی اور ’’یوریشین سلطنت‘‘ بنانے کی بات کی تھی۔ اس کے بارے میں ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ سرخ لکیر کو دیکھیں۔ اسے ’’انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘‘ (بین الاقوامی شمال۔جنوب سفری گزرگاہ) کہا جاتا ہے۔ غور کریں کہ یہ اب بھی ہندوستان کے مغربی ساحل پر شروع ہوتا ہے۔ اور سرخ لکیر کو دیکھتے رہیں، آپ کو پہلا نقطہ نظر آتا ہے، ’’چابہار‘‘ جو ایران میں ایک بندرگاہ ہے۔ پھر آپ اگلی بندرگاہ ’’بندر عباس‘‘ تک جائیں، یہ بھی ایران میں ہے۔ اور پھر آپ تہران، ایران اور اس کے بعد آذربائیجان سے ہوئے ماسکو کے آخر تک جا پہنچتے ہیں۔
یہ زمینی راستہ ہے۔ روس ایک زمینی طاقت ہے۔ اور یہ راستہ کیا کرتا ہے؟ یہ راستہ یورپ کو منقطع کرتا ہے اور اس کی توجہ بنیادی طور پر مشرق کے خطوں پر ہے۔
جو کوئی بھی تجارت کو کنٹرول کرتا ہے وہ بہت ساری دولت کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ مغرب کے مقابلے پر آنے کا ایک منصوبہ ہے جسے مشرق ایک طویل عرصے سے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کا آغاز ایران سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ مجھے یاد ہے کہ تقریباً دو ہفتے پہلے جب ایران پر (اسرائیل کی) بمباری شروع ہو گئی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس نقشے کو دیکھیں، اسے پڑھنا تھوڑا مشکل ہے، لیکن اگر آپ شروع سے دیکھیں تو آپ کو چھوٹا سا خانہ نظر آئے گا جہاں تہران لکھا ہوا ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ ایران میں ہے۔ اب نقطوں والی لکیر کو دیکھتے جائیں، یہ قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان سے گزرتی ہے اور چین پر ختم ہوتی ہے۔ یہ ایک ریل گاڑی کا راستہ ہے جسے وہ کئی دہائیوں سے بنا رہے ہیں۔ اتفاق سے یہ ریل روٹ تقریباً اڑھائی ہفتے قبل کاروبار کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
تو وہاں ہو کیا رہا ہے؟ کیا یہ واقعی صرف جوہری ہتھیاروں کا معاملہ ہے یا کوئی بڑا کام ہو رہا ہے؟ تجارتی راستوں کو کون کنٹرول کرے گا؟ اب صرف مشرق اور مغرب کی بات نہیں ہے۔ اب چین کو اپنی توانائی صرف بحری راستے کے ذریعے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ممبئی اور ہندوستان کی طرف سے جانے والا راستہ ہے، بلکہ اب یہ چین کو ٹرین کے انتہائی محفوظ راستے کے ذریعے سے مل سکتی ہے، جو ہمارے کنٹرول سے باہر ہے۔
اور اس طرح سے اب نہ صرف شمال-جنوب تجارتی راہداری موجود ہے جو پہلے سے ہی چلی آ رہی ہے، بلکہ اب ایک مشرق-مغرب تجارتی راہداری بھی شروع ہو چکی ہے، جس کے مرکز میں کون ہے؟ ایران ہے۔
تو یہ ہماری پہلی قسط تھی، اگلے ہفتے ہم کسی اور چیز کی طرف بڑھیں گے، اور چار ہفتوں کے اندر، مجھے لگتا ہے کہ آپ سمجھ جائیں گے کہ ہر صدر کو ایران کے ساتھ کیوں نمٹنا پڑا اور اس کا آپ کے پورٹفولیوز سے کیا تعلق ہے۔
ڈالر کی بالادستی برقرار رکھنے کی جدوجہد اور ایران کا رجحان
سب کو صبح بخیر، بہت کچھ ہو رہا ہے دنیا میں، تو چلیں شروع کرتے ہیں۔ یہ ہماری سیریز کا دوسرا حصہ ہے۔
ایران ہی کیوں؟ اور اصل میں والٹ نے پچھلی قسط کے بعد مجھے ایک بات بتائی، انہوں نے کہا، گریگ، تم نے کلنٹن سے شروع کیا، ہم اس سے بھی پہلے جمی کارٹر کے دور میں واپس جا سکتے ہیں جب انہیں یرغمالیوں کا معاملے سے نمٹنا پڑا۔ تو کارٹر کو ایران سے نمٹنا پڑا، ریگن کو (ایران سے) نمٹنا پڑا، (بلکہ) فورڈ سے لے کر آج تک ایران کا معاملہ چلتا آ رہا ہے۔
خیر، پچھلے ہفتے ہم نے تجارتی راستے کے مسئلے، بین الاقوامی شمال-جنوبی تجارتی راہداری (The International North-south Trade Corridor)، اور اس نئی ریل گاڑی والی راہداری کے بارے میں بات کی تھی جو تجارت میں مغرب کے اثر و رسوخ کو نظرانداز کرتی ہے۔
آج، آئیے اس کے مالی پہلو پر بات کرتے ہیں۔ اور میں رومن سلطنت سے شروع کروں گا کہ انہوں نے اسے کیسے برقرار رکھا۔ یہ دراصل ایک خراج کا نظام تھا، اور رومیوں نے جو کیا وہ یہ تھا کہ ان کے پاس آزاد تجارت کے لیے اپیان وے (تجارتی راستہ) تھا۔ انہوں نے بحیرہ روم کو سلطنت کے تحت قزاقوں سے محفوظ رکھا۔ اور حقیقت میں دنیا چھوٹے قبائلی گروہوں کے درمیان ہمیشہ جاری رہنے والی تمام تر لڑائیوں کے باوجود کافی اچھی چلتی رہی۔ سلطنتیں ایک طرح سے باپ کی طرح ہوتی ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لڑنے والوں کو الگ الگ رکھتی ہیں۔ چنانچہ پوری سلطنت کا نظام دو چیزوں سے چلتا تھا:
(1) پہلی چیز خراج تھی۔ اگر روم نے آپ پر قبضہ کر لیا: اوئے، ہم نے قبضہ کر لیا ہے، ہم جیت گئے ہیں، اب ہمیں ادائیگی کرو۔ خیر، کوئی بھی ادائیگی نہیں کرنا چاہتا۔
(2) تو بدلے میں روم نے لشکر دیے، اور یہ لشکر ہی تھے جنہوں نے تجارتی راستوں کو کھلا رکھا، بحیرہ روم کو قزاقوں سے پاک رکھا۔ یہ اس نوعیت کا معاملہ تھا۔
تو یہ فوج اور پیسے کا امتزاج تھا۔ جب لشکر ناکام ہونے لگے تو خراج کا نظام بھی ناکام ہو گیا۔ اور جب خراج روم پہنچنا بند ہو گیا، تو پیسے کے بغیر چیزیں بکھرنے لگتی ہیں۔
تو اس کا آج سے کیا تعلق ہے؟ (یہ جاننے کے لیے) ہم ڈالر کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں، والٹ نے اس بارے میں بات کی ہے کہ ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی ہے۔ ایک مختصر تعارف، جسے آپ میں سے بہت سے لوگ پہلے سے جانتے ہیں، تو یہ کچھ صبر آزما ہو گا۔ بہرحال دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ڈالر سونے کی بنیاد پر تھا۔ رچرڈ نکسن نے 1971ء میں ہمیں گولڈ اسٹینڈرڈ سے ہٹا دیا کیونکہ انہیں ایسا کرنا پڑا۔ ہم بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہے تھے۔ ہمارے پاس کافی سونا نہیں تھا۔ بہرحال، (اب) کسی (اور) چیز کو ڈالر کو پشت پناہی دینے کی ضرورت تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب ہنری کسنجر، جو کہ ان کے مشہور ہونے کی وجہ بھی ہے، سعودی عرب گئے اور بادشاہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا، دیکھیں، سونا اب ڈالر کو پشت پناہی نہیں دے رہا ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپ تیل کی تجارت ڈالروں میں اور صرف ڈالروں میں کریں۔ برطانوی پاؤنڈز یا جرمن مارکس یا جاپانی ین قبول نہ کریں، صرف ڈالرز (قبول کریں)۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم بادشاہت کا دفاع کریں گے۔ ہماری فوج، ہماری بحریہ، ہماری فضائیہ، ہم اس کام میں بہت ماہر ہیں۔ ہم سمندری راستوں کو کھلا رکھیں گے تاکہ آپ اپنی مصنوعات کو بغیر جنگی جہازوں کو ساتھ بھیجے باآسانی سے منتقل کر سکیں۔ ہم زمین … اور مشرق وسطیٰ میں امن برقرار رکھیں گے۔
اور کسنجر کے اس معاہدے کے کئی سال بعد ہمیں پتہ چلا کہ اس کا ایک اور حصہ بھی تھا۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا، اگر آپ یہ معاہدہ نہیں کرتے ہیں تو ہم آپ کا تیل زبردستی بھی لے سکتے ہیں۔ بالکل دوٹوک۔ خیر، بادشاہ نے کہا، ہمیں پرواہ نہیں کہ ہمیں کیسے ادائیگی کی جاتی ہے، ہم پیٹروڈالر کا معاہدہ کریں گے۔ پیٹرو کا مطلب پیٹرولیم، ڈالر کا مطلب (ڈالر)۔ بہرحال، فرانسیسی ناراض ہو گئے، ڈی گال نے کہا، یہ امریکہ کی حد سے زیادہ شہنشاہی ہے، وہ اب پیسے چھاپ سکتے ہیں اور ہمیں اسے ہر حال میں استعمال کرنا پڑے گا۔ ہمارا جواب تھا: تو پھر آپ مشرق وسطیٰ کا دفاع کریں، آپ سمندری راستوں کو کھلا ہیں۔ اور فرانس کسی طرح سے بھی یہ نہیں کر سکتا تھا۔ چونکہ پھر بہت جلد اوپیک کے تمام ممالک اس معاہدے کے تحت آ گئے، تو اس طرح دنیا کے ہر ملک کو اپنی توانائی (تیل) خریدنے کے لیے ڈالروں کا ذخیرہ رکھنا پڑا۔
اب ڈالر کو سونے کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، بلکہ اسے مفید چیز انرجی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ وہ پیٹروڈالر معاہدہ کئی دہائیوں سے امریکی طاقت کی بنیاد رہا ہے۔ اس نے ہمیں پیسہ چھاپنے کی سہولت دی ہے، اور اگر ہمارے پاس ڈالروں کی زیادہ سپلائی ہوتی، تو جب تک کہ زیادہ مانگ ہوتی وہ ہمارے لیے مہنگائی کا باعث نہ بنتی، جو شاید اس صورت میں ہمیں ہوتی اگر ہم فرض کریں کہ ارجنٹائن ہوتے اور ایسا کر رہے ہوتے۔
تو، اس کا آج سے کیا تعلق ہے؟ بات یہ ہے کہ ایران برکس (BRICS) ممالک کا حصہ ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ برکس کیا ہے: برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، اس اتحاد کے اصلی اراکین جو مغرب کی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ برازیل اور جنوبی افریقہ کی کسی کو زیادہ پرواہ نہیں تھی، لیکن روس، بھارت، چین، ان میں بہت سارے لوگ ہیں۔ اور ان کے مرکز میں کون ہے؟ ایران، ہم نے پچھلے ہفتے اس کا جائزہ لیا تھا۔ اور اب ایران برکس میں شامل ہو گیا ہے۔
اور ایک متعلقہ بات کچھ اس طرح ہے کہ جب صدام حسین نے جب اپنے تیل کی تجارت ڈالروں میں کرنے سے انکار کر دیا تو ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ لیبیا میں قذافی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تو یہ طے ہو گیا کہ جو کوئی بھی ڈالروں میں تیل کی تجارت نہیں کرتا اسے امریکہ کی طرف سے غضب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ (صورتحال یہ ہے کہ اب) ایران اپنے تیل کی تجارت ڈالروں میں نہیں کر رہا ہے۔ تو کیا یہ واحد وجہ ہے جو ایران کے ساتھ ہمارے اختلاف کا باعث چلی آ رہی ہے، شاید نہیں، لیکن کیا یہ ان میں سے ایک ہے؟ ہاں۔ یہ پھر وہی بات ہے، جیسا کہ ہم نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ یہ صرف جوہری طاقت کا قصہ نہیں ہے۔
چنانچہ اس تناظر میں وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایران اور چین کے درمیان کھلنے والی اس ریل لائن اور تجارتی راستے کے بارے میں بات کی تھی۔ تو تقریباً اسی دوران برکس ممالک اپنی کرنسی کا نیا نوٹ متعارف کروا رہے تھے (جیسا کہ آپ اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں کہ) یہ نئی کرنسی کا ایک نمونہ ہے جیسا یہ بینک نوٹ نظر آئے گا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ تھوڑا سا بھونڈا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک نئی کرنسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ اس کرنسی کو یورو کی طرح استعمال کریں گے، (یعنی) ہر ملک کو اسے یورو کو اپنانا پڑے گا، (شاید یہ) صرف تجارتی سودے بازی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اور ہم نے پچھلی ویڈیوز میں اس بارے میں بات کی تھی، تو میں اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف تجارتی راستوں کی جنگ نہیں ہے اور اس کی کہ کون دنیا میں تجارت کو کنٹرول کرے گا، بلکہ یہ اس بارے میں بھی ہے کہ کون پیسے کو کنٹرول کرے گا۔ کیونکہ برکس ممالک اثر و رسوخ کے مرکز کو نیویارک اور لندن سے مشرق کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اور میں پھر کہوں گا کہ ایران اس جغرافیہ کے بالکل وسط میں ہے، جبکہ انہوں نے پہلے ہی اپنا فریق منتخب کر لیا ہے، وہ مغرب کے مقابلے روس اور چین کا ساتھ دیں گے۔ تو اگر آپ حیران ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں مستقبل قریب میں امن کیوں نظر نہیں آتا، چاہے ایران میں تمام جوہری تنصیبات تباہ ہو جائیں، اگرچہ مجھے اشکال ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے، خیر یہ ایک بالکل مختلف موضوع ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ایران خبروں میں رہے گا اور مشرق اور مغرب کے درمیان ایسے تنازعات ہوں گے جو اخبارات میں نظر آنے والے تنازعات سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ چنانچہ ہم اس سیریز کو جاری رکھتے ہوئے اس صورتحال کا سرمایہ کاری کے حوالے سے تجزیہ کریں گے، اسی کے ساتھ اسے والٹ کو حوالے کرتا ہوں۔