ریاض/تہران - حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد بڑھتے ہوئے مغربی دباؤ کے درمیان، ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترجیح دینا شروع کر دی ہے، سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس کے لیے کھلے پن کو اپنی علاقائی حکمت عملی میں سب سے آگے رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تہران اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ پڑوسی خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اب صرف ایک سفارتی آپشن نہیں ہے بلکہ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور اس کے اندرونی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔
یہ رجحان ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی طرف سے اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان کو بھیجے گئے خط میں واضح طور پر ظاہر ہوا تھا، جسے ریاض میں تہران کے سفیر علی رضا عنایتی نے بدھ کے روز سعودی نائب وزیر خارجہ ولید الخرائجی کو پہنچایا، جیسا کہ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے خبر دی ہے۔
خط کے مندرجات تہران کی ’’تمام شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے اور مضبوط کرنے‘‘ کی خواہش کی تصدیق کرتے ہیں، جو کہ اس تبدیلی کا براہ راست اظہار ہے جو خطے میں ایران کی ترجیحات میں واقع ہوئی ہے۔ ایرانی فیصلہ ساز حلقوں کے اندر بڑھتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ سیاسی تنہائی ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے براہ راست خطرہ بن گئی ہے، خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی، اور اس سے پہلے کی مسلسل مغربی اقتصادی پابندیوں کے بعد۔
برسوں سے ایران کے عرب خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات تناؤ بھرے اور انتباہی رہے ہیں۔ البتہ پچھلے کچھ سالوں میں بتدریج تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جس کا آغاز مارچ 2023ء میں تہران اور ریاض کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہوا، جو کہ ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملے کے بعد 2016ء سے معطل تھے۔ اس معاہدہ کی ثالثی چین نے کی تھی۔
ستمبر 2023ء میں مکمل سفارتی نمائندگی کی واپسی کے ساتھ سفارت خانے دوبارہ کھولے گئے اور دونوں فریقوں کے درمیان سرکاری دورے جاری رہے۔ اس احتیاط کے باوجود جو اب بھی تعلقات کو گھیرے ہوئے ہے، دونوں جماعتوں نے کشیدگی سے بچنے اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو طے کرنے پر کام کرنے کے سیاسی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔
لیکن اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی اور فضائی حملوں کے دوران متعدد ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نے تہران کو اپنی علاقائی ترجیحات پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اب صرف تاثر کی بہتری نہیں ہے، بلکہ اس کے سامنے آنے والے متعدد دباؤ کو دور کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک (تزویراتی) ضرورت بن گئی ہے۔
خلیج تعاون کونسل بالخصوص سعودی عرب نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی، ایرانی حکومت کی طرف سے اس موقف کو سراہا گیا۔
ایران سے متعلقہ امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تہران کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ خلیج کے ساتھ مستحکم تعلقات کو برقرار رکھنا، خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ، ایک حفاظتی چھتری تشکیل دے سکتا ہے جو اسے مزید تنہائی سے بچنے میں مدد دے گی اور اسے ایک ایسے جغرافیائی ماحول میں استحکام کی گنجائش فراہم کرے گی جو مزید کمزور ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں یمن کے تنازعہ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، کیونکہ حوثیوں کی جانب سے برسوں پہلے سعودی سرزمین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اور اس خطرے کا برقرار رہنا اس میل جول کی کامیابی کے بارے میں شکوک و شبہات جنم دیتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ریاض اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھتا ہے۔ اس بات نے تہران پر حوثی گروپ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کے لیے اندرونی طور پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ایران کو اپنے طور پر اس بات کا علم ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے کسی بھی موقع کے لیے اسے یمنی جنگ بندی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، چاہے حوثیوں پر براہ راست دباؤ کے ذریعے ہو، یا اقوام متحدہ کی قیادت میں سیاسی تصفیہ کی طرف سہولت کاری کے ذریعے۔ اسے طویل مدت میں خلیجی سلامتی کا احترام کرنے کے حوالے سے تہران کے ارادوں کا ایک حقیقی امتحان سمجھا جا رہا ہے۔
ایران اور سعودی تعلقات میں چین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بیجنگ، جس نے تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات کے دوران ثالث کا کردار ادا کیا، علاقائی استحکام کو اپنے مطلوبہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھتا ہے، اور تہران اور ریاض کے درمیان کشیدگی میں کمی کو وسیع تر اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی استحکام کا ستون سمجھتا ہے۔
اس ثالثی نے دونوں فریقوں کے درمیان سلامتی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون سمیت روابط کے نئے راستے استوار کرنے میں مدد دی ہے، جب کہ دیگر خلیجی فریقین، جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور قطر، نے بھی ایران کے ساتھ اتحادی سرگرمی شروع کی ہے، جس کو ’’کشیدگی کم کرنے کی جامع‘‘ پالیسی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مثبت اشاروں کے باوجود یہ راستہ رکاوٹوں کے بغیر نہیں ہے. ایرانی سیاسی مقتدرہ کے اندر ایسی آوازیں موجود ہیں جو اب بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ خلیج میں ایسی کشادہ دلی علاقائی اثر و رسوخ کے مسائل کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے، جیسے یمن، عراق، شام اور لبنان۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مسلسل کشیدگی اور تصادم کی نئی لہروں کا امکان اس میل جول میں رکاوٹ یا اس کے اثرات کو محدود کر سکتا ہے۔
دوسری طرف ریاض اگرچہ تہران کے ساتھ تعلقات کے لیے راضی ہے لیکن ایران کی جانب سے ایسے ٹھوس اقدامات دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے جو موروثیت (مروجہ/روایتی سوچ) سے بالاتر ہوں۔ جس میں خلیج کی خودمختاری کا خیال کرنا، مسلح گروپوں کی حمایت روکنا، اور خطے میں استحکام کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا شامل ہے۔
بالآخر ایسا لگتا ہے کہ ایران نے ’’پڑوس کو بہتر بنا کر دباؤ کو کم کرنے‘‘ کی حکمت عملی کے تحت خلیج کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو بدلتے ہوئے بین الاقوامی اور علاقائی ماحول کی حقیقی آگاہی سے پیدا ہونے والی تبدیلی ہے۔ لیکن اس رجحان کے ٹھوس نتائج کی صورت میں سامنے آنے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ایران کس طرح خلیجی سلامتی کا جائزہ لیتا ہے، اور حساس معاملات خاص طور پر یمن کے حوالے سے یقین دہانی کرانے کا وہ کتنا خواہشمند ہے۔
ایران کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے سے اسے نہ صرف عالمی اور علاقائی سطح پر سیاسی تحفظ ملے گا، بلکہ اسے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل مدتی استحکام قائم کرنے کا بھی موقع ملے گا، بشرطیکہ وہ اس موقع کو صحیح طریقے سے استعمال کرے۔