حقائق جو پاکستان اور چین کے زیر قبضہ کشمیر کی تخلیق کا باعث بنے

Submitted by admin on

(لیفٹیننٹ جنرل پرکاش چندرا کاٹوچ کی یہ تحریر پاکستان اور چین کے ساتھ تنازعات کے حوالے سے بھارتی موقف کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔)


پس منظر

1947ء میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد، ریاست جموں و کشمیر (J&K) کو مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء کے دوران بڑے پیمانے پر پاکستانی دراندازی کے بعد ایک الحاق نامے پر دستخط کر کے مکمل طور پر بھارت سے منسلک کر دیا تھا۔ تقسیم کے لیے، برطانوی وکیل سیرل ریڈکلف پہلی بار 8 جولائی 1947ء کو برطانوی ہندوستان پہنچے۔ انہیں آزاد ہندوستان اور نو تشکیل شدہ پاکستان کے درمیان سرحدیں کھینچنے کے لیے ٹھیک پانچ ہفتے دیے گئے۔ ریڈکلف نے اس سے پہلے کبھی بھارت کا دورہ نہیں کیا تھا اور شاید اپنی زندگی میں کبھی نقشہ نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے دو باؤنڈری کمیشنوں کی صدارت کی، ایک پنجاب کے لیے اور ایک بنگال کے لیے، جن میں دو مسلمان اور دو غیر مسلم شامل تھے، ان میں سے کسی کا بھی فوجی پس منظر نہیں تھا۔ برطانوی راج کے ایک صدی سے زیادہ عرصے کے بعد اور ایک ناتجربہ کار ریڈکلف کے ذریعے ملک کی تقسیم کے لیے پانچ ہفتے! ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کا اعلان 15 اگست کو کیا حالانکہ طے پانے والی سرحدوں کی تفصیل 17 اگست کو سنائی گئی۔ ریڈکلف 18 اگست کو انگلینڈ واپس چلے گئے۔ ریڈکلف لائن کی بنیاد پر تقسیم کے نتیجے میں تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں 10 لاکھ افراد ہلاک اور 1.2 کروڑ بے گھر ہوئے۔

جموں و کشمیر کی اصل ریاست جو اکتوبر 1947ء میں بھارت سے منسلک ہوئی تھی، 2,22,236 مربع کلومیٹر پر مشتمل تھی۔ آزاد بھارت کی سرحد شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کوریڈور اور شمال میں چین کے زیرِ قبضہ تبت (COT) سے ملتی تھی۔ پاکستان کی چین کے ساتھ کوئی سرحد نہیں تھی۔ لیکن آج

  • بھارت اصل ریاست جموں و کشمیر کے 2,22,236 مربع کلومیٹر میں سے صرف 1,06,566 مربع کلومیٹر پر قابض ہے۔
  • پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر (POK) 72,935 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے 5,180 مربع کلومیٹر شکسگام وادی (بھارتی علاقہ) ہے جو 1963ء میں چین کو غیر قانونی طور پر لیز پر دی گئی تھی۔
  • چین کے زیرِ قبضہ کشمیر (COK) میں اکسائی چن کے 37,555 مربع کلومیٹر کے علاوہ 5,180 مربع کلومیٹر شکسگام اور سالوں کے دوران حاصل کیا گیا علاقہ شامل ہے، جو کل 42,735 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔

امریکی اور علاقائی پاکستانی میڈیا نے فروری 2012ء میں رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان گلگت بلتستان (72,971 مربع کلومیٹر) کو چین کو 50 سال کے لیے لیز پر دینے پر غور کر رہا ہے۔ آج ہمارے پاس پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول (LOC) اور چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) ہے۔

پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر اور برطانوی غداری

بھارت کی تقسیم پر انگریزوں نے ماؤنٹ بیٹن (آزاد ہندوستان کے گورنر جنرل)، لاک ہارٹ (ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف) اور ڈگلس گریسی (پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف) کے ذریعے جموں و کشمیر پر حملے اور قبضے کی سازش کی، جس میں نہرو کو اندھیرے میں رکھا گیا اور جناح کو باخبر رکھا گیا۔ نام نہاد رضاکاروں کی پاکستانی دراندازی میں پاکستانی فوج کے باقاعدہ فوجیوں کا ایک ملاپ تھا، سب کو پاکستانی فوج نے مسلح کیا تھا۔ کلیمنٹ ایٹلی برطانیہ کے وزیر اعظم بن چکے تھے لیکن چرچل اب بھی مشاورتی حلقے میں تھے۔

چرچل بھارت سے نفرت کرتے تھے حالانکہ دوسری جنگ عظیم میں 25 لاکھ ہندوستانیوں نے حصہ لیا تھا جس نے برطانوی فتح کو ممکن بنایا۔ چرچل نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف ڈگلس گریسی کو ہدایت دی کہ بھارت اور پاکستان کو لڑنے دیں لیکن ’’بھارت کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھیں‘‘ تاکہ دونوں ہمیشہ لڑتے رہیں۔ ڈگلس گریسی نے اسکردو گیریژن کے سقوط اور قتلِ عام کا اہتمام کیا، جس کا سلسلہ آٹھ ماہ تک رہا تھا۔ خواتین اور بچوں سمیت مکمل گیریژن کا قتلِ عام کیا گیا۔ البتہ گریسی نے گیریژن کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل شیر جنگ تھاپا کو بخش دیا۔ گریسی، جس نے اپنی جوانی میں بھارت میں گورکھا ٹریننگ سینٹر کی کمانڈ کی تھی، کو ہاکی کھیلنا پسند تھا۔ اس نے تھاپا کی ہاکی کی مہارت کو دیکھا تھا اور اسے جموں و کشمیر اسٹیٹ فورسز میں شامل ہونے پر آمادہ کیا۔ اسکردو کے سقوط نے کارگل اور لیہ کو خطرہ لاحق کر دیا، جس کے لیے ہندوستانی فوج کو حملے کرنے پڑے، بشمول زوجی لا کی حفاظت کے لیے، جس میں مزید جانوں کا نقصان ہوا۔

پاکستانی فوج کے برطانوی افسران نے لداخ کی شیوک اور نوبرا وادیوں میں پاکستانی دراندازوں کی رہنمائی کی لیکن لداخیوں کے نوبرا گارڈز نے لڑائی کی اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ جب ہندوستانی فوج پیچھے ہٹنے والے پاکستانی دراندازوں کا پیچھا کر رہی تھی، ماؤنٹ بیٹن اور لاک ہارٹ نے نہرو کو جنگ بندی کا اعلان کرنے اور ثالثی کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے پر راضی کیا، یہ ایک اور جال تھا جس میں نہرو پھنس گئے۔ برطانوی منصوبہ یہ تھا کہ پاکستانی فوج جموں و کشمیر میں قدم جمائے، تاکہ اقوام متحدہ میں رجوع کرنے پر اسے تنازع کا فریق بنا دیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ برطانوی گلگت بلتستان کو اپنے بنائے ہوئے ملک (پاکستان) کے پاس رکھنا چاہتے تھے تاکہ کشمیر کی سرحدوں پر روس اور چین کے کمیونسٹ خطرے سے لڑ سکیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج پاکستان کمیونسٹ چین کا باجگزار ملک بن چکا ہے اور ہتھیاروں کے لیے روس کو بھی مائل کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی سرپرستی میں 1949ء میں ہونے والے پاک بھارت کراچی معاہدے کے دوران، جنگ بندی لائن (CFL) صرف NJ 9842 تک مشرق کی طرف نشان زد کی گئی تھی، اس سے آگے صرف یہ کہا گیا تھا کہ ’’وہاں سے شمال گلیشیئرز تک‘‘۔ کیپٹن ایس کے سنہا (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل اور گورنر جموں و کشمیر) کے مطابق، سیزفائرلائن کو صرف NJ 9842 تک نشان زد کرنے کے احکامات دہلی سے آئے تھے، جو کہ ایک اور برطانوی شرارت تھی۔ نیز، سیزفائرلائن کو 1:2,50,000 کے نقشے پر موٹے سکیچ پین سے نشان زد کیا گیا تھا اور اس نے واٹرشیڈ کے اصول کی پیروی نہیں کی۔ 1:2,50,000 کے نقشے کو موٹے سکیچ پین سے نشان زد کرنے کا مطلب کسی بھی مقام پر ایک کلومیٹر تک کا فرق تھا، جو ہمیشہ کے لیے تنازعات کا سبب تھا۔ 1972ء کے بعد سیزفائرلائن کو لائن آف کنٹرول (LOC) کا نام دیا گیا۔

1967-70ء کے دوران پاکستان کے، اقوام متحدہ کے اور دیگر عالمی اٹلس کے نقشوں میں سیزفائرلائن کو صحیح طریقے سے دکھایا گیا۔ لیکن 1967ء میں امریکی ڈیفنس میپنگ ایجنسی نے ٹیکٹیکل پائلٹیج چارٹس پر NJ 9842 سے قراقرم (KK) پاس تک ہند-پاک سرحد کو بغیر کسی جواز یا دستاویز کے دکھانا شروع کر دیا؛ نقشہ نگاری کے لحاظ سے پورے سیاچن-سالٹورو علاقے پاکستان کو دے دیے گئے۔ یہ شاید امریکہ-برطانیہ کا پاکستان کے تئیں نرم گوشہ ہونے کی وجہ سے ایک منصوبہ بندی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا جس کے نتیجے میں بالآخر 1972ء میں صدر نکسن کا بیجنگ کا دورہ ہوا۔ امریکی ڈیفنس میپنگ ایجنسی کے ٹیکٹیکل پائلٹیج چارٹس پر ہند-پاک سرحد دکھانے کے بعد، بہت سے سرکاری اور نجی نقشہ نگاروں اور اٹلس پروڈیوسروں نے اس کی پیروی کی اور پاکستان نے بالآخر اسے سرحد کے طور پر دعویٰ کرنا شروع کر دیا۔ افسوس کہ بھارت سوتا رہا۔

1970ء کی دہائی کے آخر اور 1980ء کی دہائی کے اوائل میں، بہت سی مہمات (مہماتی امیدواروں) نے سیاچن کے علاقے میں چوٹیاں سر کرنے کے لیے پاکستان سے اجازت طلب کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اس علاقے پر اپنا دعویٰ کرتا تھا۔ 1978ء میں ایک جرمن سیاچن-کونڈوس مہم، جس کے ساتھ ایک پاکستانی رابطہ افسر بھی تھا، بیلافونڈلا کے راستے سیاچن میں داخل ہوئی، اور سیاچن اور تیرام شہر کے سنگم پر اپنا بیس کیمپ قائم کیا۔ اس مہم پر بننے والی دستاویزی فلم جس کا عنوان ’’سب سے لمبے گلیشیئر کی مہم‘‘ تھا، 1979ء میں جرمن ٹی وی پر دکھائی گئی۔

اپریل 1984ء میں بھارت نے سالٹورو ماسف پر قبضے کے پاکستانی منصوبوں کو کامیابی سے ناکام بنا دیا۔ اس حقیقت اور سالٹورو کی اسٹریٹجک اہمیت کا اعتراف مشرف نے اپنی سوانح عمری ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں کیا ہے۔ تب سے پاکستان مزید ہندوستانی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا آخری بڑا منصوبہ 1999ء کی ناکام کارگل دراندازی تھی۔ اس نے ہار نہیں مانی اور اب بھی چین کے ساتھ مل کر جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کی امید رکھتا ہے۔

چین کے زیر قبضہ کشمیر اور بھارت کی سادہ لوحی

’’میک موہن لائن‘‘ تبت اور بھارت کے شمال مشرقی علاقے کے درمیان حد بندی لائن ہے، جس پر تبت اور برطانیہ کے درمیان شملہ کانفرنس (اکتوبر 1913ء-جولائی 1914ء) کے اختتام پر بات چیت کی گئی تھی اور اسے برطانوی چیف مذاکرات کار سر ہنری میک موہن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس دستاویز پر تبتی نمائندے نے دستخط کیے ہیں لیکن چین میک موہن لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے برعکس چین نے ایک پرانے کوومینتانگ حکومت کے خاکہ کو استعمال کیا، جسے اس نے خود جنوبی بحیرہ چین میں ’’نائن ڈیش لائن‘‘ کا دعویٰ کرنے کے لیے مسترد کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو بھارت کے تزویراتی مفادات کی قیمت پر چین کی طرف بہت زیادہ مائل تھے۔ جب بھارت کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل رابرٹ لاک ہارٹ نے نہرو کو دفاعی پالیسی پر حکومتی ہدایت کے لیے ایک تزویراتی منصوبہ پیش کیا، تو انہوں نے کاغذ پر ایک نظر ڈالی اور بوالے،

’’فضول، بالکل فضول، ہمیں کسی دفاعی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری پالیسی اہنسا (عدم تشدد) ہے۔ ہمیں کوئی فوجی خطرہ نظر نہیں آتا۔ فوج کو ختم کرو! ہماری سکیورٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پولیس کافی ہے۔‘‘

تبتیوں کو چینی حملے کے خلاف مدد مہیا کرنے کے بجائے نہرو PLA (پیپلز لبریشن آرمی) کو چاول فراہم کر رہے تھے۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کو بھی کہا کہ وہ اقوام متحدہ میں تبتی احتجاج کو نظر انداز کریں، کیونکہ اس سے کوریائی جزیرہ نما میں ’’اقوام متحدہ وطن واپسی غیرجانبدار کمیشن‘‘ سے توجہ ہٹ جائے گی، جیسا کہ سابق سفیر آر ایس کالہا نے لکھا ہے:

ہماری مغربی اور شمال مغربی سکیورٹی کا خطرہ اب بھی پہلے کی طرح نمایاں ہے، جبکہ شمال اور شمال مشرق سے ایک نیا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اس طرح صدیوں کے بعد پہلی بار بھارت کے دفاع کو بیک وقت دو محاذوں پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔

اسی دوران ویلنگٹن میں ڈیفنس سروسز سٹاف کالج کے کمانڈنٹ نے اکتوبر 1950ء میں طلباء کو بتایا: بھارت کا پچھلا دروازہ کھل گیا ہے، اور ہمالیہ ایک بڑے، طاقتور اور توسیع پسند چین کے ساتھ سرحد بن گیا ہے، بھارت کے مشرقی علاقے غیر محفوظ ہو گئے ہیں، جو تبت کے اڈوں میں موجود بمباروں (جہازوں) کی زد میں ہیں، پہاڑی سرحد کا دفاع بھارت کو اتنا مہنگا پڑے گا جتنا وہ برداشت نہیں کر سکتا، اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو بھارت کو ناقابل انتظام دفاعی بوجھ اٹھانا پڑے گا، اور چین کے مضبوط ہونے اور کوریائی جنگ میں اس کی شمولیت سے آزاد ہونے سے پہلے کارروائی نہ کرنے کی بھارت کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

دوسری جنگ عظیم میں تقریباً 25 لاکھ ہندوستانیوں نے حصہ لیا، جن میں سے زیادہ تر کو 1945ء میں جنگ کے اختتام پر برطرف کر دیا گیا تھا۔ بھارت آسانی سے ان تربیت یافتہ فوجیوں میں سے 2-3 ڈویژنوں کو متحرک کر سکتا تھا اور تبت کو خستہ حال PLA سے اپنی آزادی برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا تھا، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ نہرو کا اب بھی یہ ماننا تھا کہ بین الاقوامی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے چین کے جائز مفادات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اے جی نورانی لکھتے ہیں کہ

’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چینی نشست کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے چین کو بین الاقوامی برادری میں شامل کرنا دراصل نہرو کی خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی ستون تھا۔‘‘

بھارت کو یہ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ چین نے اکسائی چن (بھارتی علاقہ) سے سڑک بنا لی تھی اور وہاں PLA کی چوکیاں قائم کر لی تھیں۔ اکسائی چن کو چین نے بغیر ایک گولی چلائے یا تشدد کے ضم کر لیا، اس کے مقابلے میں تبت میں اب تک تقریباً دس لاکھ تبتیوں کو ہلاک کیا گیا۔

1960ء میں چینی وزیر اعظم چاؤ این لائی نے بھارت کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جنگ نہیں ہو گی، لیکن وہ ناقص ہتھیاروں والی ہندوستانی فوج کے خلاف موقع کی تلاش میں تھے۔ 1962ء میں جب نہرو نے فوج کو ایک غیر قانونی طور پر قبضے والی چوکی سے PLA کو نکال باہر کرنے کا حکم دیا تو چین نے ایک بڑے پیمانے پر منصوبہ بند حملہ کیا۔ ہندوستانی کچھ جگہوں پر لڑائی جاری رکھ سکتے تھے لیکن کمزور اعلیٰ فوجی قیادت نے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ PLA بالآخر پیچھے ہٹ گئی کیونکہ وہ سردیوں میں ہمالیہ کے پار خود کو موجود رکھنے کے قابل نہیں تھی۔ نہرو چین کے دھوکے سے ہونے والی مایوسی کی حالت میں انتقال کر گئے۔

1963ء میں، پاکستان نے اپنے زیرِ قبضہ کشمیر (POK) میں واقع شکسگام وادی (بھارتی علاقہ) کو فوجی اور جوہری ٹیکنالوجی کے بدلے چین کو غیر قانونی طور پر لیز پر دے دیا۔ چاؤ این لائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور ایوب خان کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مختصر مدت کی جنگوں کے بجائے بھارت کے ساتھ طویل مدتی تنازع کی تیاری کرنی چاہیے، اور پاکستان کو دشمن (بھارت) کی سرحدوں کے پار کام کرنے کے لیے ملیشیا فورس (یعنی دہشت گرد) بنانے کا مشورہ دیا۔

1966ء میں بیجنگ میں ایک پاکستانی فوجی وفد سے ملاقات کرتے ہوئے چاؤ این لائی نے اپنی بند مٹھی اٹھائی اور کہا،

’’یہ ایک زبردست مکا لگانے کے قابل ہے، لیکن اگر آپ ایک انگلی کاٹ دیتے ہیں تو مٹھی اپنی طاقت کا پانچواں حصہ نہیں بلکہ پچاس فیصد کھو دیتی ہے۔ اگر آپ ایک طویل محاذ پر پھیلے ہوئے چند لاکھ دشمنوں کو ختم کر دیتے ہیں تو اس کا اثر ایک بٹالین یا بریگیڈ کو ختم کرنے سے زیادہ نہیں ہوتا، لیکن دشمن کے حوصلے کو تباہ کن دھچکا لگتا ہے۔ ہم یہ عملی تجربے سے جانتے ہیں۔‘‘

چین اقوام متحدہ میں اور بھارت-افغانستان (طالبان سے پہلے کے افغانستان) کے خلاف دونوں صورتوں میں پاکستانی دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ ایک خونریز ماؤنواز بغاوت کے ذریعے، چین نے نیپال میں کمیونسٹوں کو اقتدار میں لانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جس سے نیپال کو اپنے اسٹریٹجک دائرے میں کھینچ لیا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیپال کے اسکولوں میں میندرین (زبان) پڑھانے کے اخراجات برداشت کرے گا جسے حکومت نے قبول کر لیا ہے۔ فطری طور پر اساتذہ چین سے آئیں گے جو آنے والی نسل کی نظریاتی اور نفسیاتی تربیت میں ماہر ہوں گے۔ نیپال میں PLA کی تعیناتی بہت جلد ممکن ہے۔

چین-پاکستان کے میانمار کے اندر گروہ ہیں جیسا کہ ’’اراکان روہنگیا سالویشن آرمی‘‘ (ARSA) اور ’’یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف ویسٹرن ساؤتھ ایسٹ ایشیا‘‘ (ULF WSEA) جو شمال مشرق کے نو باغی گروہوں کو متحد کرتے ہیں جن میں NSCN اور ULFA شامل ہیں۔ بھارت میں باغی اور ممنوعہ تنظیموں کے چین-پاکستان سے روابط ہیں۔ واضح خیر سگالی کے باوجود چین NSG (نیوکلیئر سپلائرز گروپ) اور UNSC (یونائیٹڈ نیشنز سکیورٹی کونسل) میں بھارت کی مستقل رکنیت کے خلاف رہا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والی تمام چینی کمپنیاں اور افراد اپنے ملک کے لیے خفیہ معلومات جمع کرنے میں مدد کرنے کا عہد کرتے ہیں، اور چینی ترقیاتی منصوبوں میں PLA کی موجودگی ہے۔

مئی 2020ء میں مشرقی لداخ میں PLA کی حالیہ دراندازیوں نے ہمیں مکمل طور پر حیران کر دیا۔ ستم ظریفی سے 1999ء میں کارگل میں بھی یہی ہوا تھا۔ گالوان وادی میں ہماری فوجیوں پر PLA کا تلواروں اور لاٹھیوں کا استعمال کرتے ہوئے حیرت انگیز وحشیانہ حملہ سرحدی پروٹوکول کی مکمل خلاف ورزی تھا۔ ہمارے بہادر فوجیوں نے PLA کو زبردست جواب دیا جس میں ان کے 43 سے زیادہ فوجی مارے گئے جبکہ ہم نے 20 بہادر سپاہی کھوئے۔ دونوں فریقوں نے یرغمال بنائے جن کا بعد میں تبادلہ کیا گیا۔ یہ منصوبہ بند حملہ وزیر اعظم نریندر مودی کو پیغام دینے کے لیے تھا۔ 22 جون کو طویل فوجی مذاکرات کے بعد، دونوں فریقوں نے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن پھر PLA نے گشتی مقام 14 پر اپنی چوکی دوبارہ قائم کر لی ہے اور ڈیپسانگ میں جمع ہو گئی ہے۔ یوں چین کی دھوکہ دہی کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔

نتیجہ

ہمارے پالیسی سازوں کا یہ ماننا تھا کہ کوئی جنگ نہیں ہو گی، اس طرح دفاعی مختص رقم کم سے کم رکھی گئی اور فوجی تجدید کو ترک کر دیا گیا تھا۔ ہم یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ چین کی پالیسی ہمیشہ حیرت، ابہام اور فریب پر مبنی رہی، اور یہ کہ چین اور پاکستان طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، سخت طاقت ہی ایک رکاوٹ ہے، سخت طاقت کے بغیر نرم طاقت غیر مؤثر ہے، اور سفارت کاری کے ساتھ نرم طاقت سخت طاقت کا متبادل نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دوہرا خطرہ اور چین کا دانت دکھانا ہمیں بیدار کرنے کا باعث ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ نیپال ہمارا مخالف ہو گیا ہے اور نیپال میں ممکنہ PLA کی تعیناتی ہمارے مسائل کو کئی گنا بڑھا دے گی۔ ہو سکتا ہے چین کا اگلا حیران کن وار قریب ہی ہو۔

 

https://www.spslandforces.com

 

Our website offers translations of various informational materials for our Urdu-speaking audience. If you are the original owner of any of the content translated on this website and would like it removed, please contact us..