آبنائے ہرمز اور باب المندب کی جغرافیائی اہمیت

By admin, 30 June, 2025

دنیا کے نقشے پر کچھ آبی راستے ایسے ہیں جو عالمی تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کے گرد ابھرنے والی سیاسی کشیدگیاں بین الاقوامی طاقتوں کو مسلسل متحرک رکھتی ہیں۔ ایسے ہی دو کلیدی مقامات، آبنائے ہرمز اور باب المندب، مشرق وسطیٰ کی حساس سیاست، طاقت کے توازن، اور مسلم دنیا کی کمزوریوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

عالمی تجارتی نبضیں اور ان کی اہمیت

ایک جانب، آبنائے ہرمز خلیج فارس کو خلیج عمان سے ملاتی ہے اور ایران و عمان کے درمیان واقع ہے۔ یہ دنیا کی سب سے اہم توانائی گزرگاہ ہے، جہاں سے عالمی تیل کا تقریباً 20 فیصد حصہ روزانہ گزرتا ہے۔ کسی بھی قسم کی جنگی کارروائی یا بندش عالمی منڈیوں میں فوری بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

دوسری جانب، باب المندب بحیرہ احمر کو خلیج عدن سے جوڑتا ہے اور یمن، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان واقع ہے۔ یہ سوئز نہر اور بحرِ ہند کے درمیان بحری تجارت کا کلیدی دروازہ ہے۔ دنیا کا ایک بڑے حصے خاص طور پر یورپ اور ایشیا کے درمیان تیل، گیس، خوراک اور اشیائے صَرف کی ترسیل اسی راستے سے ہوتی ہے۔ اگر باب المندب بند ہو جائے تو مصر کی سوئز نہر کی افادیت ختم ہو جائے گی اور یورپی ممالک کا مشرقِ وسطیٰ سے رابطہ بھی شدید متاثر ہو گا۔

ایران، ترکی، سعودی عرب: مسلم دنیا کی باہمی کشمکش

مشرق وسطیٰ میں ایران، ترکی اور سعودی عرب کے درمیان گہری اور پیچیدہ کشمکش پائی جاتی ہے، جس کی جڑیں تاریخی، فرقہ وارانہ، نظریاتی اور جغرافیائی سیاسی مفادات میں پیوست ہیں۔ 

  • ایران، جو شیعہ اسلام کے انقلابی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے، عراق، شام، لبنان اور یمن میں پراکسی گروہوں کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، مثلاً‌ یمن میں حوثی تحریک کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے، ان سرگرمیوں سے سے خطے میں ایک ’’شیعہ ہلال‘‘ بنانے یا ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ قائم کرنے کا تاثر ابھرتا ہے۔ 
  • اس کے برعکس سعودی عرب، جو سنی اسلام کی قیادت کا دعویدار اور قدامت پسند عرب بادشاہتوں کا سرخیل ہے، ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے اور خطے کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، جس کے باعث یمن میں حوثیوں کے خلاف جنگ اور دیگر علاقائی تنازعات میں دونوں ممالک بالواسطہ طور پر مد مقابل ہیں۔ 
  • جبکہ ترکی، جو سنی دنیا کی قیادت کا خواہاں ہے اور اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کی کوشش میں ہے، جس کے باعث شام، لیبیا اور جنوبی قفقاز جیسے علاقوں میں اس کے مفادات سعودی عرب اور ایران دونوں سے ٹکراتے ہیں۔ 

اگرچہ حالیہ برسوں میں ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے، اور سعودی عرب نے ایران کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں، لیکن ان ممالک کے بنیادی تزویراتی مقاصد اور علاقائی تسلط کی خواہش بدستور موجود ہے، جو انہیں مسلسل ایک دوسرے سے برسرپیکار رکھتی ہے اور مسلم دنیا کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان اختلافات نے مسلم دنیا کو متحارب کیمپوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس سے اسرائیل اور مغربی قوتوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ شام، عراق، اور آذربائیجان جیسے خطوں میں بھی ان کے مفادات ٹکراتے ہیں۔

اہل مغرب کی اسرائیل نوازی: تزویراتی اسباب

امریکہ بالخصوص اور باقی اہلِ مغرب بالعموم اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا اسٹریٹجک اتحادی تصور کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ محض مذہبی یا سیاسی نہیں بلکہ اسٹریٹجک ہے:

  • اسرائیل بطور ’’فارورڈ آپریٹنگ بیس‘‘: اسرائیل کو امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پیش قدمی کی فوجی چوکی‘‘ بنا رکھا ہے، جو خطے میں ایران، سعودی عرب یا کسی بھی مسلم ریاست کی مزاحمت کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
  • بحری راستوں پر کنٹرول: اسرائیل نے باب المندب کے قریبی علاقوں میں فوجی موجودگی بڑھائی ہے۔ اس کے جنگی بحری جہاز اکثر بحیرہ احمر میں دِکھائی دیتے ہیں۔ نیز اسے آبنائے ہرمز کے قریب خلیجی ریاستوں کے ساتھ سیکیورٹی معاہدوں کے ذریعے بالواسطہ رسائی حاصل ہے۔ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے ’’ابراہام‘‘ وغیرہ معاہدوں کے ذریعے خلیجی ممالک سے تعلقات بہتر کیے ہیں، جس سے ایران کو مزید تنہائی کا سامنا ہے۔
  • یمن و بحیرہ احمر میں مغربی موجودگی: حوثیوں کے نام پر یمن پر فضائی حملے دراصل باب المندب کے اردگرد اسرائیلی اور امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کی کوششیں ہیں۔ اس ضمن میں متحدہ عرب امارات کا کردار بھی اہم ہے۔ مغرب کی دلچسپی ان آبی گزرگاہوں کی سلامتی اور توانائی کی ترسیل کو یقینی بنانے میں ہے، جس کے لیے وہ اسرائیل اور خلیجی اتحادیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

مسلم و عرب دنیا کی بے بسی اور خطرات

موجودہ صورتحال میں مسلم دنیا شدید تقسیم کا شکار ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی (OIC) جیسی تنظیمیں کوئی حقیقی عملی قوت نہیں رکھتیں اور ان کا کردار محض بیانات تک محدود ہے۔ ایران، ترکی، سعودی عرب اور مصر، سب کے جداگانہ ایجنڈے ہیں، جس کا فائدہ اسرائیل اور مغرب کو ہو رہا ہے۔

  • بحری گزرگاہوں کا عدمِ تحفظ: مسلم دنیا کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے تمام اہم بحری تجارتی راستے یا تو کسی غیر ملکی طاقت کے کنٹرول میں ہیں، یا ان کے اردگرد جنگی ماحول موجود ہے۔ بغیر کسی ٹھوس مشترکہ حکمتِ عملی کے ان گزرگاہوں کی بندش سے خطے کے مسلم ممالک کی معیشت بھی متاثر ہو سکتی ہے اور عالمی معیشت بھی مفلوج ہو سکتی ہے۔
  • عسکری عدم توازن: اسرائیل جدید ترین ٹیکنالوجی، سائبر دفاع، میزائل شکن نظام اور جوہری قوت سے لیس ہے، جبکہ مسلم دنیا اب بھی داخلی خلفشار میں الجھی ہوئی ہے۔
  • سیاسی قیادت کا فقدان: یمن میں جاری جنگ، شام کی تباہی، لیبیا کی تقسیم، اور فلسطین کا المیہ مسلم دنیا کی سیاسی کمزوری اور باہمی اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔ کوئی بھی ایسا مسلم رہنما یا ایسی حکومت سامنے نہیں آ رہی جو تمام فرقوں، قومیتوں اور نظریات کو یکجا کر کے مسلم دنیا کی اجتماعی دفاعی حکمت عملی مرتب کر سکے۔

نتیجہ

باب المندب اور آبنائے ہرمز جیسے آبی راستے نہ صرف جغرافیائی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے اردگرد کی سیاست مسلم دنیا کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔ یہ آبنائے امتِ مسلمہ کی اجتماعی تقدیر کے آئینے ہیں۔ جب تک مسلم دنیا باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ سیاسی و سفارتی، حتیٰ کہ جنگی و دفاعی حکمتِ عملی نہیں اپنائے گی، تب تک یہ خطہ بیرونی طاقتوں کے لیے ایک شطرنج کی بساط بنا رہے گا، اور مسلم اقوام صرف تماشائی بنی رہیں گی۔