دو ریاستی حل ایک مجوزہ منصوبہ ہے جس کا مقصد اسرائیل فلسطین تنازعہ کو دو الگ الگ ریاستیں بنا کر حل کرنا ہے: ایک ریاست اسرائیل جو کہ یہودی عوام کے لیے ہو گی، اور دوسری ریاست فلسطین جو کہ خطہ کے مقامی عرب عوام کے لیے ہو گی۔ اس حل کا مقصد پرامن بقائے باہمی کو یقینی بناتے ہوئے دونوں گروہوں کی قومی امنگوں کو پورا کرنا ہے۔
تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا جس کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ ختم ہوئی اور اس کے صوبہ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد برطانوی سرپرستی میں سالہا سال دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا۔
1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا ایک منصوبہ پیش کیا جس میں 45 فیصد علاقہ فلسطین کے عرب عوام کے لیے، اور 55 فیصد علاقہ یہودیوں کی نئی آبادی کے لیے تجویز کیا گیا۔ اس میں بیت المقدس کے شہر کو بین الاقوامی حیثیت دی گئی۔
جبکہ عملاً یہ ہوا کہ 1948ء میں اسرائیل نے اپنے قیام کے فوراً اقوام متحدہ کے منصوبہ میں ان کے لیے طے کی گئی حدود سے باہر بہت سا علاقہ قبضہ کر کے مقامی فلسطینی آبادی کو وہاں سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔
1967ء میں عرب ممالک مصر، اردن اور شام کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین کے کئی مزید علاقے اپنے قبضہ میں لے لیے، جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔
1993ء میں اسرائیلی حکومت اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اوسلو معاہدہ کے ذریعے دو ریاستی حل کو نافذ کرنے کے منصوبے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اس معاہدہ کی مجوزہ سرحدیں زیادہ تر 1967ء سے پہلے کی خطوط پر مبنی ہیں، جبکہ باہمی رضامندی سے زمین کے تبادلے شامل ہیں۔ بیت المقدس کے شہر یروشلم کے لیے طے کیا گیا کہ اسے دونوں مشترکہ طور پر اپنی اپنی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر استعمال کریں گے۔
دو ریاستی حل کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل رہی ہے جو کہ امن کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل راستہ دکھائی دیتا تھا، لیکن اقوام متحدہ سے ماورا اسرائیلی اقدامات کی تاریخ نے اس حل کی پائیداری کو ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ مسلم ممالک کی رائے عامہ سرے سے اسرائیل کے قیام کو ہی ناجائز تصور کرتی ہے، البتہ بہت سی مسلم حکومتیں اقوام متحدہ کے ذریعے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے کسی ممکنہ حل پر رضامند دکھائی دیتی ہیں جو کہ شاید ’’دو ریاستی حل‘‘ ہی کی کوئی صورت ہو گی۔