سیلف پروموشن پر ایک نظر

انسانی معاشرے میں ہر فرد اپنی شناخت، کردار، اور کارکردگی کو دوسروں کے سامنے اجاگر کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار بعض اوقات خودنمائی یا خود ستائی یا انگریزی میں کہیں تو self promotion کی صورت میں ہوتا ہے۔ سیلف پروموشن اس رویے کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی شخص اپنے کام، خوبیوں، خدمات یا قابلیت کو نمایاں انداز میں بیان کرے تاکہ اسے سراہا جائے، مقام حاصل ہو، یا دوسروں پر فوقیت دی جا سکے۔ سیلف پروموشن اگرچہ جدید دنیا میں پہچان بنانے (branding) کا حصہ سمجھی جاتی ہے، تاہم مذہبی و اخلاقی اور گروہی زاویوں سے اس کا پہلو عموماً‌ تنقیدی ہے۔

سیلف پروموشن کی قبولیت یا مذمت کا دارومدار اس کے محرکات اور انداز پر ہوتا ہے:

  • جب اپنے کام کا تعارف دینا ضروری ہو، مثال کے طور پر تنظیمی مفاد میں کسی جماعت یا ادارے کی خدمت میں ذاتی کردار واضح کرنا ہو، کسی انٹرویو میں اپنے کام اور مہارتوں کو مؤثر طریقے سے بیان کرنا ہو، ماضی کے کسی منصوبہ میں اپنی شراکت اور کردار کی وضاحت دینا ہو، مستقبل کے کسی منصوبہ میں شمولیت کے لیے اپنی صلاحیتوں کا تعارف پیش کرنا ہو، وغیرہ۔
  • جب مقصد بے بنیاد تعریف حاصل کرنا ہو، کسی کو کم تر اور خود کو برتر ظاہر کرنا ہو، کسی مفاد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو ’’اصل کردار‘‘ کے طور پر پیش کرنا ہو، جماعتی یا گروہی مزاج کے خلاف ہو، یا ویسے ہی خودپسندی کے جذبہ کی تسکین کی خاطر ہو، وغیرہ۔

جماعتی سطح پر اخلاص، تعاون، اور قربانی جیسی اقدار بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، جبکہ خودنمائی کی زیادہ تر صورتیں ان اقدار کو متاثر کرتی ہیں۔ سیلف پروموشن فرد کو مرکزیت کی طرف مائل کرتی ہے جبکہ جماعتی زندگی میں مرکز فرد نہیں بلکہ جماعت ہوتی ہے، اور اس طرح یہ نظم میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ جب ایک فرد بار بار اپنی اہمیت اجاگر کرتا ہے تو دوسرے کارکنان احساسِ محرومی یا حسد کا شکار ہو سکتے ہیں، جس رنجشیں اور گروہ بندی جنم لیتی ہے۔ دین کے کام میں اخلاص بنیادی شرط ہے، اور سیلف پروموشن اخلاص کو کھوکھلا کرتی ہے۔

معاشرتی سطح پر سیلف پروموشن کا رجحان متعدد اثرات مرتب کرتا ہے۔ افراد اپنی تشہیر میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بے محل مقابلہ بازی کا ماحول بنتا ہے اور باہمی محبت و اعتماد کم ہوتا ہے۔ لوگ متاثر کرنے کی غرض سے مصنوعی اور بناوٹی صورتیں اختیار کرتے ہیں جس سے حقیقت کے دائرے میں رہنا بے وقوفی یا کم از کم سادگی سمجھا جانے لگتا ہے۔ کچھ لوگ خود کو گروہی طور پر ممتاز ظاہر کر کے دوسروں میں احساسِ کمتری پیدا کرتے ہیں جو کہ طبقاتی تفاخر کا سبب بنتا ہے۔

خاندانی سطح پر بھی سیلف پروموشن کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔ گھر کا کوئی فرد اگر ہر وقت اپنی تعریف کرتا رہے یا قول و فعل سے برتری جتاتا رہے تو باقی افراد احساسِ کمتری یا ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض والدین اپنی کامیابیوں کی مسلسل دہائی دے کر اولاد پر ناپسندیدہ اثر ڈال دیتے ہیں۔ سادہ اور کم بولنے والے افراد اپنے آپ کو بے وقعت خیال کرنے لگتے ہیں اور خود ستائی کرنے والوں سے دور ہونے لگتے ہیں۔

ذاتی سطح پر سیلف پروموشن کا سب سے بڑا نقصان فرد کی روحانی اور اخلاقی شخصیت کو ہوتا ہے۔ بار بار خود کو سراہنا انسان کو غرور میں مبتلا کر دیتا ہے اور تکبر اور خودپسندی کبھی قابل قبول خصلتیں نہیں رہیں۔ لوگ خود ستائی کرنے والے سے بیزار ہو جاتے ہیں جس سے سماجی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ جب کامیابی کا معیار صرف واہ واہ بن جائے تو فرد جھوٹ، ریاکاری، اور فریب کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور حقیقت کا تناسب روز مرہ کی زندگی میں برائے نام رہ جاتا ہے۔

اسلام اخلاص، تواضع، اور عاجزی کی تلقین کرتا ہے، قرآن میں فرمایا گیا: ’’فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقیٰ‘‘ (النجم ۳۲) پس تم اپنی پاکیزگی کے دعوے نہ کرو، وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے دکھاوے کے لیے عمل کیا، اللہ اسے لوگوں کے سامنے خوار کرے گا۔ (صحیح مسلم)

خود نمائی اگر اعتدال، حقیقت، اور مقصدِ خیر کی غرض سے بامرِ مجبوری و ضرورت ہو تو قابلِ قبول ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے عموماً‌ یہ شہرت، برتری، یا تعریف حاصل کرنے کی نیت سے ہوتی ہے اور اخلاقی زوال اور گروہی انتشار کا سبب بن جاتی ہے۔ جماعتی کارکن، خاندان کے افراد، اور سماج کے باشعور افراد اگر ’’خود کو ثابت کرنے‘‘ کے بجائے ’’خدمت اور کردار کے ذریعے اثر ڈالنے‘‘ کا راستہ اپنائیں تو اس کے گروہی زندگی یا انسانی معاشرت پر مثبت اور پائیدار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔