امام بوصیری کی نظم ’’الہمزیۃ‘‘ کا انگلش ترجمہ
تعارف
بلاگنگ تھیالوجی کے میزبان پال ولیمز نے امریکہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان عالم شیخ یوسف حمزہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا تعارف کرایا کہ وہ زیتونة کالج کے بانیوں میں سے ہیں اور اسلامی علوم کے ایک جید عالم ہیں جنہوں نے مختلف عرب ممالک میں تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے علمی سفر کے دوران متعدد متون کے ترجمہ و تالیف کا کام کیا۔ پھر پال ولیمز نے گفتگو کے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ نشست امام شرف الدین بوصیری کی نظم ’’الہمزیۃ‘‘ کے انگریزی ترجمہ کے بارے میں ہے جو شیخ حمزہ یوسف نے کیا ہے اور یہ اب کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔
عربی میں شاعری کا مقام اور ’’الہمزیۃ‘‘ کی اہمیت
پال ولیمز نے شیخ حمزہ یوسف کی کتاب میں سے اقتباسات پڑھ کر نظم کی شان بیان کی۔ شیخ حمزہ یوسف نے بتایا کہ عرب ادبی روایت میں قرآن و حدیث کے بعد شاعری کو بلند ترین مقام حاصل ہے۔ ایک شاعر کا حقیقی کام قارئین کے دلوں تک رسائی حاصل کرنا ہے اور امام بوصیری کی نظمیں یہ مقصد بخوبی حاصل کرتی ہیں۔
اس سوال پر کہ امام بوصیری کی ’’قصیدۃ البردۃ‘‘ جیسی معروف و مقبول نظم کی موجودگی میں انہوں نے ’’قصیدۃ الہمزیة‘‘ کا انتخاب کیوں کیا، شیخ حمزہ نے وضاحت کی کہ وہ بردۃ کا ترجمہ پہلے ہی شائع کر چکے تھے، تاہم الہمزیۃ اس سے کہیں مفصل اور کثیر موضوعات پر مشتمل ہے۔ نیز عرب دنیا خصوصاً مراکشی اور موریطانی روایت میں اس نظم کو تعلیمی شعبے میں بہت اہمیت حاصل ہے جہاں مدارس کے نصاب یا معمولات میں یہ باقاعدہ شامل ہے اور قرآن مجید کی طرح اس کی باقاعدہ تحفیظ اور قراءت کی جاتی ہے۔
امام بوصیری کا عہد اور کاوشیں
شیخ حمزہ نے بتایا کہ امام بوصیری وسطی دور کے آغاز کے شاعر و عالم تھے جنہوں نے صلیبی جنگوں اور منگول دراندازی کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں شدید مذہبی، سماجی اور سیاسی ہنگامی کیفیات کا مشاہدہ کیا۔ بیت المقدس اور یروشلم امام بوصیری کی پیدائش کے فوراً بعد عیسائی قبضے میں گیا تھا اور ان کی وفات سے ایک سال پہلے مسلمانوں نے اسے دوبارہ فتح کیا تھا۔ چنانچہ مسلم دنیا پر اس سیاسی و سماجی دباؤ کی کیفیت میں امام بوصیری نے اپنی زندگی گزاری، اور اس دوران انہوں نے ’’الہمزیة‘‘ جیسا ایک جامع اور بلند پایہ قصیدہ لکھا جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و شان ہی بیان نہیں کرتا بلکہ دینی، کلامی اور ثقافتی موضوعات کا وسیع احاطہ بھی کرتا ہے۔
شیخ حمزہ نے امام بوصیری کے اس ابتدائی دور کا بھی ذکر کیا جب وہ مراعات کے لیے درباری تعریفوں پر مبنی شاعری کرتے تھے، جس پر انہیں پچھتاوا بھی تھا۔ بعد کی زندگی میں انہوں نے بردۃ اور الہمزیة جیسی نظمیں لکھیں۔ شیخ حمزہ نے نظم بردۃ کی تصنیف کے دوران امام بوصیری کے ایک خواب کا بھی ذکر کیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بردۃ (چادر) پہنایا جس سے ان کی حقیقی بیماری دور ہو گئی۔ شیخ حمزہ نے بتایا کہ یہ ان کرامات میں سے ہے جو باقاعدہ تصدیق شدہ ہیں۔
لفظی و مفہومی ترجمہ اور لسانی و ادبی باریکیاں
شیخ حمزہ نے کہا کہ فنِ ترجمہ میں ہمیشہ یہ انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ آیا الفاظ کا ترجمہ کیا جائے یا مفہوم کا۔ شیخ نے بتایا کہ میں نے دوسرے طریقے کا انتخاب کیا ہے جس میں وہ ایسے انگریزی جملے اور محاورے استعمال کرتے ہیں جو عربی عبارت کے درست مفہوم کو بیان کر سکیں اور اس سے پڑھنے والوں کو وہ تفہیم مل سکے جو اصل میں شاعر کا ارادہ تھا۔
میزبان اور مہمان نے گفتگو میں عربی زبان کی باریکیوں پر بھی روشنی ڈالی کہ جن کا انگریزی میں عین اسی طرح کا اظہار ممکن نہیں ہوتا۔ شیخ نے تسلیم کیا کہ بعض چیزیں ترجمہ میں بالکل ’’گم‘‘ ہو جاتی ہیں، جس کی تلافی کے لیے انہوں نے تشریحات کی ہیں تاکہ قارئین کو وہ لسانی اور ادبی معنی مل سکے جو ترجمہ میں اس سے طرح ادا نہیں ہو پاتا۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ حمزہ نے بتایا کہ ٹرانسلیٹرز اب ایڈیٹرز بنتے جا رہے ہیں۔ میزبان اور مہمان دونوں کا تاثر یہ تھا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت بہت بہتر ہو چکی ہے تاہم اب بھی اس میں مصنوعی پن کا تاثر موجود ہے۔
امام بوصیری کی ’’الہمزیۃ‘‘ پر تنقیدی پہلوؤں کا دفاع
عیسائیوں اور یہودیوں پر تنقید کا اعتراض
نظم کے ان حصوں کے بارے میں، جو عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں سخت تنقیدات اور طنز پر مشتمل ہیں، شیخ حمزہ نے تاریخ کے سیاق و سباق کو سمجھنے پر زور دیا کہ یہ نظم صلیبی جنگوں اور سخت مذہبی ٹکراؤ کے دور میں لکھی گئی تھی۔ بہت سے قدیم مفسرین نے اپنے انداز سے ان کلمات کی تشریح کی ہے۔ شیخ نے کہا کہ وہ خود ان اشعار کو درست مگر سخت قرار دیتے ہیں، اور ان کی کوشش کا مقصد انہیں قابلِ فہم بنانا تھا، نہ کہ کسی نسل یا مذہب کے خلاف ذاتی نفرت کو فروغ دینا۔
نبی کریمؐ کی شان میں مبالغہ اور شرک کا اعتراض
میزبان پال ولیمز نے یہ اعتراض اٹھایا کہ بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی گئی بہت زیادہ تعریفوں کو شرک سے منسوب کر سکتے ہیں۔ شیخ نے جواب دیا کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبود نہیں سمجھتے اور اسلامی تاریخ میں نبی کی عبادت کا کوئی سلسلہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کلام میں جب ’’نور‘‘ اور ’’غیب‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں تو ان کی تشریح لغوی کے بجائے استعارتی یا صوفیانہ معانی میں کی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ’’غیب‘‘ کا علم اس معنی میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں دی گئی ہیں۔ اور ’’نور‘‘ سے مراد رہنمائی یا ہدایت کا نور ہوتا ہے نہ کہ کوئی الٰہی حیثیت۔ جبکہ ’’توسل‘‘ کا معنیٰ کسی بزرگ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے، نہ کہ خود ان بزرگ سے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ فنِ بیانیہ (rhetoric) کو نہ سمجھنے اور اصطلاحات کو لفظاً لینے سے پیدا ہوتا ہے۔
اخلاقی پیغام
شیخ حمزہ نے اسلام کے بنیادی تصور ’’رحمت‘‘ پر زور دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے نمایاں خصوصیت رحمت تھی، جو کہ ہمدردی، برداشت اور دوسروں کی خامیوں پر چشم پوشی کی تربیت دیتی ہے۔ انہوں نے عملی طور پر اس جذبے کو اپنانے کی تلقین کی، مثلاً، دوسروں کی کمزوریوں کے لیے عذر تلاش کرنا اور ہر حالت میں باہمی شفقت قائم رکھنا۔
مطبوعہ کتاب کی خوبصورتی
گفتگو کے آخر میں پال ولیمز نے شائع شدہ کتاب کی مضبوطی اور تزئین و آرائش کی تعریف کی، جس کا ہر صفحہ سنہری رنگ کے بارڈر سے آراستہ ہے۔ شیخ حمزہ نے کہا کہ اللہ نے ہر شے میں ’’احسان‘‘ کی تلقین کی ہے، کتاب کی مضبوطی اور خوبصورتی پر اسی حوالے سے خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب ایسی ہو جو کئی عمروں تک اپنی ہیئت میں رہ سکے، کیونکہ بعض ایسی کتابیں بھی دیکھی گئی ہیں جو ایک اشاعت سے دوسری اشاعت کے درمیان بکھر جاتی ہیں۔
اختتام
پال ولیمز نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ کتاب کے لنکس ویڈیو کے ذیل میں فراہم کیے جا رہے ہیں، اور پھر میزبان نے شیخ حمزہ اور ان کے مشن کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور انہیں امریکہ واپسی کے محفوظ سفر کی دعا دی۔ شیخ نے بھی ملاقات پر شکریہ ادا کیا۔