امریکہ نے عالمی قیادت کا مقام کھو دیا ہے

میزبان سیرل وانیے کے سوالات

گفتگو کے آغاز میں میزبان سیرل وانیے ایک خیال پیش کرتے ہیں کہ موجودہ دنیا طاقت، دباؤ، اور عسکری و معاشی قوت کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دے رہی ہے، جبکہ نرم قوت یعنی اقدار، نظریات، اور اخلاقی اثر تقریباً بے معنی ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق 2025ء میں نرم قوت کی کوئی اہمیت نہیں رہی، اور ڈونلڈ ٹرمپ اس عالمی تبدیلی کے بالکل مرکز میں ہیں۔ وہ رائے کاساگراندا سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس پورے تصور کو کیسے دیکھتے ہیں۔

اس کے بعد وہ گفتگو کو ایک اور رُخ دیتے ہیں اور اپنے سامنے آنے والے تجزیوں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں امریکہ کو ایک زوال پذیر سلطنت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں: کیا واقعی آج کی امریکی کہانی کسی زوال پذیر سلطنت جیسی ہے؟

پھر میزبان نرم قوت کا تصور واضح کرتے ہوئے جوزف نائے کے نظریے کا حوالہ دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں: کیا امریکہ کبھی نرم قوت رکھتا تھا؟ کیا ٹرمپ کے دور میں یہ قوت باقی ہے یا معدوم ہو چکی ہے؟

اس کے بعد وہ رائے کاساگراندا کے سامنے ایک معروف دلیل رکھتے ہیں تاکہ وہ اس پر روشنی ڈال سکیں۔ وہ دلیل جو امریکہ کو ہمیشہ ’’اچھائی کی طاقت‘‘ کہتی آئی ہے۔ اس دلیل کے مطابق امریکہ جمہوریت کا علَم بردار رہا، انسانی اقدار پھیلاتا رہا، حتیٰ کہ جب طاقت استعمال کی تو بھی مقصد دنیا کو بہتر بنانا تھا۔

اسی پر مزید بات کرتے ہوئے وہ عملی مثال کی طرف آتے ہیں کہ USAID ایک ایسا ادارہ ہے جو دہائیوں تک امریکی نرم قوت کی علامت رہا: زرعی، صحت، اور ترقیاتی پروگرام جن کے ذریعے امریکہ دنیا میں نرمی، مدد، اور ترقی کا تاثر دیتا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اس ادارے کو اپنے کام سے روک دیا۔ سیرل وانیے نے مہمان سے پوچھا کہ کیا اس فیصلے سے کچھ اثر پڑے گا، امریکہ نے ایسا کر کے کیا کھویا ہے؟

پھر وہ عالمی قوت کے حوالے سے سوال کرتے ہیں کہ جب امریکہ ایسا کردار چھوڑ دے گا تو اس خلا کو کون پُر کر سکتا ہے؟ کیا چین، یورپ، یا کوئی اور طاقت اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ یورپ کے پاس نہ وہ متحد سیاسی ڈھانچہ ہے، نہ فوج، نہ وہ سخت طاقت جو امریکہ رکھتا ہے، پھر یہ کردار وہ کیسے سنبھال سکتا ہے؟‘‘

اگلے مرحلے میں سیرل وانیے نے اس پر بات کی کہ ٹرمپ نے اپنی اقتدار کی دوسری مدت میں، اور کچھ حد تک پہلی میں بھی، عالمی مسائل حل کرنے والے فورمز سے نکلنے کی پالیسی اپنائی: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، پیرس معاہدہ، اور دیگر۔ پھر میزبان سے پوچھا کہ اس کا دنیا پر کیا اثر پڑا؟ کیا دنیا غیر مستحکم اور کمزور ہوئی؟ پھر وہ ممکنہ جوابی دلیل سامنے رکھتے ہیں کہ شاید یہ عالمی ادارے ویسے بھی زیادہ مؤثر نہیں رہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل تنازعات روکنے میں ناکام نظر آتی ہے؛ نہ یوکرین کی جنگ رکی، نہ غزہ کی۔ تو کیا ٹرمپ ٹھیک کہتے ہیں کہ جب ادارے کام نہ کریں تو طاقتور ملک کو خود فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے؟ خصوصاً جب ٹرمپ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے چھ ماہ میں چھ جنگیں رکوا دیں؟ میزبان اس دعوے کی فہرست بھی پڑھ کر سناتے ہیں: کمبوڈیا–تھائی لینڈ، انڈیا–پاکستان، ڈی آر سی–روانڈا، اسرائیل–ایران، سربیا–کوسووو، مصر–ایتھوپیا، اور آرمینیا–آذربائیجان وغیرہ۔ وہ پوچھتے ہیں: کیا یہ دعویٰ اس بات کی دلیل ہے کہ اداروں کے بجائے طاقتور رہنماؤں کی ضرورت ہے؟

اس کے بعد میزبان سیرل وانیے کی توجہ عالمی قانون کی طرف جاتی ہے اور وہ یاد دلاتے ہیں کہ دنیا کے پاس ایک مکمل نظام موجود ہے، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، انٹرنیشنل جسٹس کورٹ، قوانین، جج، مقدمات اور سب کچھ، لیکن عملی دنیا میں یہ سب ایک تعلیمی مشق لگتی ہے۔ پھر وہ یہ بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے ICC پر پابندیاں لگائیں، اور ICJ کے فیصلوں پر عمل کو لازمی تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا۔ ان کے مطابق یہ رویہ بین الاقوامی قانون کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کے حق میں 49 بار ویٹو استعمال کیا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ سخت قوت ہی فیصلہ کن طاقت ہے؟ اور پھر وہ ٹرمپ کے ایک علامتی مگر معنی خیز فیصلے کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے Department of Defense کا نام بدل کر Department of War کر دیا۔ انہوں نے رائے کاساگراندا سے پوچھا کہ اس پر آپ کا کیا ردعمل تھا؟

اب گفتگو امریکی داخلی سیاست کی طرف مڑتی ہے، وہ چارلی کرک کے قتل کا ذکر کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا یہ واقعہ امریکا میں تشدد پر مبنی سیاست کے بڑھتے ہوئے رجحان کا آئینہ دار ہے؟ پھر یاد دلایا کہ خود ٹرمپ پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔

آخر میں وہ مہمان کے اُس جملے کی طرف آتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’تمام نظریات احمقانہ ہوتے ہیں۔‘‘ میزبان جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے سیاسی و عالمی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ دور تاریخ میں کیسے لکھا جائے گا: ایک وقتی خلل؟ یا کسی بڑے اور تاریک رجحان کا تسلسل؟

جب مہمان اس دور کو 1930ء کی دہائی کے بحران سے تشبیہ دیتے ہیں تو میزبان فوراً پوچھتے ہیں: یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم جنگ عظیم دوم سے پہلے والے دور میں داخل ہو رہے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ اتنا تاریک نظر آ رہا ہے؟

رائے کاساگراندا کے جوابات

مہمان نے تجزیے کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مطابق موجودہ عالمی ماحول میں طاقت اور دباؤ کو بڑھتی ہوئی اہمیت ملنے کا عمل ڈونلڈ ٹرمپ سے شروع نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں سے جاری تھا۔ ریگن کے دور میں ’’ویت نام سنڈروم‘‘ ختم کرنے کی کوششیں، بش سینئر کے عسکری آپریشنز، اور آخر کار بش جونیئر کی عراق جنگ نے عالمی نظام کو ایسا تباہ کیا کہ اوباما بھی اسے بحال نہ کر سکے، بلکہ اوباما میں جنگوں کی تعداد بڑھ گئی۔ ٹرمپ کو جب یہ بکھرا ہوا نظام ملا تو انہوں نے اسے اپنی جارحانہ فطرت اور کمزور ادارہ جاتی سمجھ بوجھ کے ساتھ زیادہ کھل کر استعمال کیا، اور یوں وہ بھاری طاقت کے کھیل کو نرم قوت پر حاوی کر بیٹھے۔

کاساگراندا کے مطابق ٹرمپ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ میدان شطرنج کا ہے، جس میں وہ چیکرز کی طرح کھیلتے ہیں۔ اور وہ بھی دھمکیوں، ٹیرف، دباؤ، اور سودے بازی کے ذریعے۔ 50 فیصد ٹیرف لگانا نہ تو سفارت کاری ہے، نہ سیاسی تدبیر، بلکہ ایسا رویہ ایک مافیا ڈان کا ہوتا ہے، اور عالمی سطح پر خطرناک عدمِ استحکام پیدا کرتا ہے۔

نرم قوت کے بارے میں کاساگراندا نے اپنا موقف پیش کیا کہ امریکہ کے پاس واقعی نرم قوت تھی مگر امریکہ نے ہمیشہ انسانی اقدار کا نعرہ لگایا مگر عملی طور پر عراق، ویتنام، اور سب سے بڑھ کر فلسطین کے حوالے سے اس کا کردار واضح طور پر ’’دنیا کے اچھے آدمی‘‘ کا نہیں رہا۔ 77 سالہ اسرائیلی مظالم کی حمایت اور دنیا بھر میں امریکی مداخلتوں کی تاریخ اس دعوے یا بیانیے کی تردید کرتی ہے۔

USAID جیسے پروگراموں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان سے دنیا کو کچھ فائدہ پہنچا، مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی عالمی امداد کبھی بھی فراخ دلانہ سطح پر نہیں تھی۔ سویڈن اپنے جی ڈی پی کا دس گنا زیادہ حصہ عالمی تعاون پر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ کی امداد کا بڑا حصہ ہمیشہ فوجی مقاصد کے لیے جاتا رہا: مصر کو اس لیے کہ وہ اسرائیل پر حملہ نہ کرے، کولمبیا کو اس لیے کہ فارک سے لڑے، اور اسرائیل کو صرف اس لیے کہ وہ اسرائیل ہے۔ اس سب نے امریکہ کی ساکھ کمزور کی۔

جب پوچھا گیا کہ امریکہ کے بعد اس خلا کو کون پُر کرے گا، انہوں نے کہا کہ سب سے واضح امیدوار چین ہے، جو معاشی طاقت رکھتا ہے اور عالمی ساکھ کے لیے نرم قوت چاہتا ہے۔ انہوں نے یورپ کی سستی کی نشاندہی کی اور کہا کہ یورپ کو اپنا رستہ معلوم نہیں ہے۔ اور یہ کہ امریکہ کے بے اعتماد ثابت ہونے کے بعد یورپ کو لازمی طور پر اپنی فوج قائم کرنی چاہیے۔ عالمی اداروں سے ٹرمپ کا نکلنا ان کے نزدیک دنیا کے لیے براہِ راست عدم استحکام کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں اب دلچسپی نہیں رکھتا۔

موسمی تبدیلیوں جیسے بڑے خطرے کو امریکہ نے اپنے سرمایہ دار طبقے کی حرص کے ہاتھوں قربان کر دیا۔ دنیا کو امریکی قیادت کی ضرورت تھی مگر امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا۔

اداروں کی ناکامی کے سوال پر کاساگراندا نے وضاحت کی کہ ان اداروں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ خود امریکہ ہے، جو برسوں سے انہیں سبوتاژ کرتا رہا ہے۔ لہٰذا جب ٹرمپ کہتے ہیں کہ ادارے ناکام ہیں لہٰذا مجھے خود مداخلت کرنا پڑ رہی ہے، تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ناکامی امریکہ کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔

عالمی قانون اور عدالتوں پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ICJ اور ICC دونوں کو کمزور کیا، ان پر پابندیاں لگائیں، اور خود فیصلے ماننے سے انکار کیا۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں 49 ویٹو دنیا کو بتاتے ہیں کہ امریکہ اپنی طاقت دیکھتا ہے اور کسی عالمی قانون کا پابند نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا Department of Defense کا نام بدل کر Department of War کرنا دراصل امریکی رویے کی سچی عکاسی ہے۔ ایک ایسا رہنما جو سفارت کاری کی نزاکت کو نہیں جانتا، جو بآسانی بین الاقوامی تنازعات بھڑکا سکتا ہے۔

امریکی داخلی سیاست کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سیاسی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے، 11 فیصد امریکی صدور قتل کیے گئے۔ مگر موجودہ شدت اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ دوبارہ 1850ء کی طرز پر تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ نظریاتی اختلاف کی بنا پر اپنے گھر اور شہر چھوڑ کر ایسے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں جہاں انہیں اپنی مرضی کا ماحول مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ معمولی نوعیت کے سیاسی اختلافات کو ’’زندگی اور موت‘‘ کے مسئلے بنانا سمجھ سے باہر اور خطرناک ہے۔

نظریات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام نظریات کسی نہ کسی حد تک غیر منطقی جنونیت پیدا کرتے ہیں۔ اور موجودہ دنیا میں جو رجحانات ابھر رہے ہیں، دائیں بازو کی بڑھتی طاقت، اداروں کا زوال، عالمی سطح پر قانون کی بے اثری، عدم استحکام، یہ سب انہیں واضح طور پر 1930ء کی دہائی کی واپسی محسوس ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب دنیا عظیم کساد بازاری میں نہیں ہے، لیکن رویے، خطرات اور ماحول وہی ہیں جو جنگِ عظیم سے پہلے دیکھے گئے تھے۔

آخر میں انہوں نے دنیا کے مستقبل کو ’’تاریک‘‘ قرار دیا۔ پانی، خوراک، قرض، ماحولیاتی بحران، سیاسی تقسیم، اور کہا کہ جب تک دنیا بیٹھ کر سنجیدگی سے مشترکہ فیصلے نہیں کرتی، خاص طور پر دولت مند ممالک بڑے فیصلوں میں قربانی نہیں دیتے، کوئی بہتری ممکن نہیں۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ مجھے مستقبل بہت خوفناک دکھائی دیتا ہے، اور مجھے افسوس ہے کہ میں اتنی تاریک تصویر پیش کر رہا ہوں۔