’’مونٹی ویڈیو کنونشن 1933ء‘‘ میں ریاستی وجود کے اصول

مونٹی ویڈیو کنونشن 1933ء (Convention on the Rights and Duties of States) ریاست کی وجودی تعریف اور ریاستوں کے باہمی حقوق و فرائض کے اصولوں کو منظم انداز میں بیان کرنے والا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ یہ امریکی براعظم (امریکہ اور لاطینی امریکہ وغیرہ) کی ریاستوں کے درمیان ہوا، اور اسے آج تک ریاست کی قانونی حیثیت کے حوالے سے سب سے زیادہ تسلیم کیا جانے والا متن سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حد بنیادی طور پر امیریکاز تھیں، مگر اس کے قائم کردہ اصول (خاص طور پر ریاست کے قیام کی شرائط) دنیا بھر کے بین الاقوامی قانون میں معیار کا درجہ پا چکے ہیں۔

(امیریکاز the Americas سے مراد پورا براعظم امریکہ ہے، یعنی شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور ان کے ساتھ موجود کیریبین و وسطی امریکہ کے خطے۔)

ریاست کی تعریف

مونٹی ویڈیو کنونشن کا سب سے اثر انگیز حصہ وہ تعریف ہے جو یہ ’’ریاست‘‘ کے لیے تجویز کرتا ہے۔ اس کے مطابق کسی سیاسی اکائی کو ریاست ماننے کے لیے چار بنیادی اوصاف ضروری ہیں:

  •  مستقل آبادی — ایک ایسا انسانی مجموعہ جو کسی خطۂ ارض پر نسبتاً مستقل طور پر رہتا ہو۔
  •  متعین علاقہ — ایسا جغرافیائی خطہ جس پر اس ریاست کی بالادستی ہو، چاہے اس کی سرحدیں کہیں کہیں متنازع ہی کیوں نہ ہوں۔
  •  مؤثر حکومت — ایسی اتھارٹی جو اندرونی نظم و نسق قائم رکھ سکے اور بنیادی ریاستی امور سرانجام دے۔
  •  بین الاقوامی تعلقات کی صلاحیت — خارجہ امور میں خودمختاری اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدات و سفارتی روابط قائم کرنے کی قوت۔

چند فروق کی وضاحت

ان شرائط نے ریاستی وجود کے بارے میں Declarative Theory کو مضبوط کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست ہونا بذاتِ خود ان داخلی اوصاف سے متعین ہوتا ہے، نہ کہ دوسروں کی طرف سے ماننے یا نہ ماننے سے۔ اس کے برعکس Constitutive Theory یہ کہتی ہے کہ جب تک دوسری ریاستیں تسلیم نہ کریں، ریاستی حیثیت پوری نہیں ہوتی۔ عملی دنیا میں دونوں تصورات ایک ساتھ چلتے ہیں: (۱) داخلی اوصاف قانونی بنیاد فراہم کرتے ہیں (۲) جبکہ وسیع تر سفارتی تسلیم اور رکنیتیں (جیسے اقوامِ متحدہ) اس حیثیت کو مؤثر بناتی ہیں۔

مونٹی ویڈیو کنونشن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سیاسی وجود اصولاً تسلیمِ ریاست سے مشروط نہیں۔ اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ریاست چار شرائط پوری کرتی ہے تو وہ قانونی طور پر ریاست کہلا سکتی ہے، خواہ اسے کچھ ممالک نہ مانیں۔ اسی وجہ سے کچھ معاملات میں جزوی یا متنازع تسلیم کے باوجود ایک ریاست اپنے بہت سے بین الاقوامی اعمال انجام دیتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کنونشن ’’جمہوریت‘‘، ’’حقوقِ انسانی‘‘، یا ’’اچھی حکمرانی‘‘ کو ریاست ہونے کی شرط نہیں قرار دیتا؛ یہ معاملات الگ قانونی دائرہ میں آتے ہیں جس کا تعلق بعد کے عہدناموں اور مروجہ قانون سے ہے۔

مونٹی ویڈیو کنونشن کی طرف سے پیش کردہ چار شرائط میں سے ’’متعین علاقہ‘‘ کی شرط اکثر الجھن کا باعث بنتی ہے۔ اس سے مراد سرحدوں کا آخری اور قطعی تعین نہیں، بلکہ ایسا قابلِ شناخت خطہ ہے جس پر مؤثر کنٹرول ہو۔ اسی طرح ’’مؤثر حکومت‘‘ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اندرونی تنازع یا کمزوری پیدا ہوتے ہی ریاستی وجود ختم ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں کئی ریاستیں خانہ جنگیوں یا عبوری انتظامات کے دوران بھی اپنی ریاستی حیثیت برقرار رکھتی آئی ہیں۔ جبکہ ’’بین الاقوامی تعلقات کی صلاحیت‘‘ عملاً اس وقت نظر آتی ہے جب ایک ریاست آزادانہ طور پر معاہدے کرتی، نمائندے بھیجتی یا وصول کرتی، اور بیرونی پالیسی طے کرتی ہے۔

مونٹی ویڈیو کنونشن کا ایک بڑا اثر ’’تسلیمِ ریاست‘‘ اور ’’تسلیمِ حکومت‘‘ کے فرق کو سمجھانے میں بھی سامنے آیا ہے۔ ایک طرف ریاست ہونے کی شرائط ہیں، دوسری طرف یہ سوال کہ کس حکومت کو اس ریاست کی نمائندہ اتھارٹی مانا جائے؟ بین الاقوامی عمل میں اکثر ایسا ہوا کہ ریاست برقرار رہی مگر حکومت بدلتی رہی، بسا اوقات جلاوطنی میں بھی، اور بیرونی دنیا کو یہ طے کرنا پڑا کہ سفارتی طور پر کس سے معاملہ کیا جائے؟ اس فرق کو سمجھنا جدید تنازعات میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔

مونٹی ویڈیو کنونشن نے غیر مداخلت کے اصول اور ریاستوں کی برابری جیسے خیالات کو بھی تقویت دی۔ اگرچہ طاقت کے غیر استعمال اور خودارادیت جیسے اصولوں کو بعد میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور نوآبادیاتی عملِ انتزاع (decolonization) کے ذریعے زیادہ مضبوط قانونی بنیاد ملی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ مونٹی ویڈیو کنونشن نے ’’ریاست کیا ہے؟‘‘ کا فریم تیار کیا، اور بعد کی دستاویزات نے ’’ریاستوں کو کیا کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟‘‘ کے قواعد تفصیل سے مرتب کیے۔

(نوآبادیاتی عملِ انتزاع (Decolonization) سے مراد وہ تاریخی اور سیاسی عمل ہے جس کے ذریعے نوآبادیاتی طاقتوں جیسے برطانیہ اور فرانس وغیرہ کے زیرِ قبضہ علاقے آزاد ہو کر خود مختار ریاستیں بنے۔ یعنی وہ عمل جس میں نوآبادیات اپنی آزادی حاصل کرتی ہیں اور اپنی حکومت و ریاست قائم کرتی ہیں۔ یہ زیادہ تر دوسری جنگِ عظیم کے بعد تیزی سے ہوا جب ایشیا، افریقہ اور دیگر خطوں کی کئی قومیں آزاد ہوئیں۔)

عملی دنیا میں مونٹی ویڈیو کنونشن کی چار شرائط کو عدالتوں، ثالثی فورمز، اور سفارتی دلائل میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ نئی ریاستوں کے وجود میں آنے، جیسے علیحدگی، اتحاد، یا نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے وقت یہی دیکھا جاتا ہے کہ کیا (۱) مستقل آبادی موجود ہے؟ (۲) کیا کوئی علاقہ حقیقتاً اس ریاست کے زیرِ اختیار ہے؟ (۳) کیا حکومت کسی حد تک نظم سنبھال رہی ہے؟ (۴) اور کیا ریاست خارجی تعلقات قائم کرنے کی اہل ہے؟ اس پیمانے سے کچھ پیچیدہ مثالیں بھی سامنے آتی ہیں: کچھ ریاستیں داخلی طور پر کافی مؤثر دکھائی دیتی ہیں مگر انہیں محدود تسلیم ملا ہوتا ہے؛ کچھ ریاستوں کے پاس وسیع تسلیم ہے مگر داخلی کمزوریوں کے باوجود انہیں ریاست مانا جاتا ہے۔ یہ کشمکش بتاتی ہے کہ قانونی شرائط اور سیاسی حقیقتیں ہمیشہ ایک لکیر پر نہیں چلتی ہوتیں۔

ابہامات اور تشریحات

کنونشن کے گرد بعض عام غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں:

  1. ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ریاست ہونے کے لیے مکمل اور غیر متنازع سرحدیں شرط ہیں؛ حقیقت میں ایسا نہیں۔
  2. دوسری یہ کہ اقوامِ متحدہ کی رکنیت لازم ہے؛ حالانکہ قانونی طور پر ریاست ہونے کی شرائط الگ ہیں اور یو این کی رکنیت الگ سفارتی عمل ہے۔
  3. تیسری یہ کہ سفارتی تسلیم نہ ملنے سے ریاستی وجود ختم ہو جاتا ہے؛ جبکہ کنونشن کے نقطۂ نظر سے یہ وجود بنیادی طور پر داخلی اوصاف سے طے ہوتا ہے، البتہ تسلیم نہ ہونے کی صورت میں اس وجود کی مؤثریت اور رسائی ضرور متاثر ہوتی ہے۔

مونٹی ویڈیو کنونشن کا حوالہ اس وقت اور نمایاں ہو جاتا ہے جب کسی خطے میں نئی سیاسی حقیقت سامنے آئے، یا کسی موجودہ ریاست کی حیثیت پر سوال اٹھے۔ ایسے مواقع پر وکلاء، سفارت کار، اور تجزیہ کار ان چار شرائط کی تشریح کے حوالے سے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں کہ: ’’مؤثر حکومت‘‘ کے لیے کتنا امن و امان درکار ہے؟ ’’متعین علاقہ‘‘ کے لیے کنٹرول کہاں تک ثابت ہونا چاہیے؟ ’’بین الاقوامی تعلقات کی صلاحیت‘‘ کا عملی ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ہر تنازعہ کے حقائق، بین الاقوامی ردِعمل، اور علاقائی صورتحال کے تناظر میں کچھ نہ کچھ بدلتے رہتے ہیں۔

قانونیت، سیاست اور حقیقت کی ہم آہنگی

آخر میں یہ سمجھنا مفید ہو گا کہ مونٹی ویڈیو کنونشن عالمی قانون کے پورے ڈھانچے کا وہ بنیادی حصہ ہے جو صرف ’’ریاست‘‘ کے وجود کی شرائط بتاتا ہے۔ جبکہ ریاستوں کا اخلاقی اور سیاسی رویہ کیا ہوتا ہے، یہ بعد کے عہدناموں، مروجہ قانون، اور بین الاقوامی رکنیتوں کے حوالے سے طے پاتا ہے (مثلاً اقوامِ متحدہ، علاقائی تنظیمیں، بین الاقوامی عدالتِ انصاف وغیرہ)۔ اس امتزاج نے جدید دور میں ریاستی وجود کے تصور نسبتاً واضح بھی کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کی گنجائش بھی رکھی ہے، تاکہ قانون، سیاست، اور حقیقت؛ تینوں کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے سے ہم آہنگ رہ سکیں۔