تقدیمِ مفعول کا نحوی اصول
’’تقدیمِ مفعول‘‘ عربی زبان کا ایک اہم نحوی اصول ہے جو جملے میں تاکید (Emphasis) اور حصر (Exclusivity) پیدا کرتا ہے۔ یہ صرف ایک ادبی خوبصورتی نہیں بلکہ کلام میں گہرائی اور وضاحت لانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
عام طور پر عربی زبان میں جملے کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے: فعل (Verb) + فاعل (Subject) + مفعول (Object)۔ مثال کے طور پر، ’’درسَ الطالبُ الکتابَ‘‘ (طالب نے کتاب پڑھی)۔ یہاں ’’درسَ‘‘ فعل ہے، ’’الطالبُ‘‘ فاعل ہے اور ’’الکتابَ‘‘ مفعول ہے۔ اس جملے میں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ طالب نے صرف کتاب ہی پڑھی، بلکہ یہ عمومی بات ہے کہ طالب نے کتاب پڑھی۔
لیکن جب ہم مفعول کو فعل سے پہلے لے آتے ہیں، یعنی ترتیب مفعول + فعل + فاعل ہو جاتی ہے، تو اس سے ایک خاص مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ یہ مفہوم ’’صرف‘‘ یا ’’فقط‘‘ کا ہوتا ہے۔ عربی گرامر میں اسے ’’حصر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ تاکید اس بات پر زور دیتی ہے کہ فعل صرف اور صرف اسی مفعول کے لیے خاص ہے۔
مثال کے طور پر ’’إياك نعبد‘‘ (صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں): یہاں ’’إياك‘‘ (تجھے/تجھ پر) مفعول ہے جو کہ ’’نعبد‘‘ (ہم عبادت کرتے ہیں) فعل سے پہلے آیا ہے۔ اگر یہ عام ترتیب پر ہوتا تو ’’نعبدُك‘‘ ہوتا، جس کا مطلب ہوتا ’’ہم تیری عبادت کرتے ہیں‘‘۔ لیکن ’’إياك نعبد‘‘ میں مفعول کو مقدم کرنے سے یہ مفہوم پیدا ہو گیا کہ عبادت صرف اسی ذات کے لیے مخصوص ہے۔
ضمنی طور پر عرض ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی آیت ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ نہ صرف ایک دعائیہ جملہ ہے بلکہ عقیدۂ توحید کا جامع اظہار بھی ہے۔ اس آیت میں بندہ اپنے رب کے ساتھ تعلق کو دو بنیادی پہلوؤں میں بیان کرتا ہے: عبادت اور استعانت۔ یعنی ’’ہم صرف آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور صرف آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ اس آیت کی نحوی ساخت عربی زبان کے ایک اہم اصول ’’تقدیمِ مفعول‘‘ پر مبنی ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ یہ نحوی ترتیب محض ادبی حسن نہیں بلکہ عقیدے کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں توحیدِ عبادت اور توحیدِ استعانت کا اعلان ہے۔ بندہ رب کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ عبادت میں کسی اور کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح مدد کے لیے بھی صرف اللہ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، نہ کہ کسی اور مخلوق کی طرف۔ علمِ نحو کی روشنی میں اس آیت کی ترتیب ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قرآن مجید کا ہر لفظ اور ہر ترتیب کوئی گہرا پیغام لیے ہوئے ہے، جو محض زبان کا حسن نہیں بلکہ عقیدے کی بنیاد ہے۔
’’تقدیمِ مفعول‘‘ کے اصول کو کچھ مزید مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
’’إياك أعطيتُ‘‘ (صرف تجھے ہی میں نے دیا): اگر ’’أعطيتُك‘‘ ہوتا تو مطلب ہوتا ’’میں نے تجھے دیا‘‘، جو کہ ایک عمومی بات ہے۔ لیکن ’’إياك أعطيتُ‘‘ میں مفعول ’’إياك‘‘ کی تقدیم یہ ظاہر کرتی ہے کہ میں نے کسی اور کو نہیں بلکہ صرف تجھے ہی یہ چیز دی۔
’’الکتابَ قرأتُ‘‘ (صرف کتاب ہی میں نے پڑھی): اگر ’’قرأتُ الکتابَ‘‘ ہوتا تو مطلب ہوتا ’’میں نے کتاب پڑھی‘‘۔ لیکن ’’الکتابَ قرأتُ‘‘ میں مفعول ’’الکتابَ‘‘ کو پہلے لانے سے یہ تاکید پیدا ہوئی کہ میں نے کسی اور چیز کے بجائے صرف کتاب ہی پڑھی۔ ہو سکتا ہے کسی نے پوچھا ہو کہ کیا تم نے کہانی یا مضمون پڑھا، تو جواب دیا کہ میں نے صرف کتاب ہی پڑھی۔
’’تقدیمِ مفعول‘‘ کا اصول عربی زبان کو وسعت اور گہرائی دیتا ہے، یہ نہ صرف کلام میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے بلکہ بات میں شدت اور مقصدیت بھی لاتا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عربی زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ اپنے اندر قواعد و ضوابط کا ایک مکمل نظام رکھتی ہے جو معانی میں باریکی اور نفاست پیدا کرتا ہے۔