14 اگست 1948ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کا خطاب

پاکستان قائم ہوئے پورا ایک سال ہو گیا ہے۔ آج کے دن ہم اپنے ملک کی آزادی کی پہلی سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس آزادی کے لیے پاکستان کے باشندوں نے نہایت جانفشانی، محنت اور ایثار سے کام کیا ہے۔ کوئی ایسی قربانی نہیں جس سے دریغ کیا گیا ہو۔ اس دوران میں جو کچھ آپ پر گزری میں اس سے ناواقف نہیں۔ پاکستانیوں کو عموماً‌ اور مہاجرین کو خصوصاً‌ جن تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اس کی بیشتر تفصیلیں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر برابر پہنچتی رہی ہیں۔ ان مصائب اور ان آلام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ نہ صرف میں بلکہ پاکستان کے اکثر باشندے اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

لیکن اس دوران میں جو دشواریاں حکومتِ پاکستان کو پیش آئیں اور جن مشکلات سے عہدہ برا ہونے کے لیے شب و روز اسے جدوجہد کرنی پڑی، اس کا اندازہ شاید بہت کم اصحاب صحیح طور سے کر سکتے ہوں۔ چنانچہ نامناسب نہ ہوگا اگر اس موقع پر بہت اختصار سے یہ بیان کر دوں کہ وہ کون سے اہم اور فوری توجہ کے طالب امور تھے جو حکومت کے وقت کا بیشتر حصہ لیتے رہے۔ اس سے انہیں ایک تو حکومت کی کارگزاری کے متعلق سرسری اندازہ ہو سکے گا اور دوسرے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ حکومت اگر بعض مسائل کو اتنی توجہ دینے سے قاصر رہی، جتنی توجہ کے وہ فی الحقیقت مستحق تھے، تو اس کی وجوہ کیا تھیں؟ پاکستان قائم ہو چکنے کے بعد حکومت کو جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا وہ تین قسم کی قرار دی جا سکتی ہیں:

ایک تو وہ مشکلات جو ایک نئی حکومت قائم ہونے سے پیدا ہونی لازمی تھیں۔ ہندوستان کی طرح ہمیں یہ سہولت حاصل نہ تھی کہ پہلی حکومت کے لوگ نظم و نسق سے دستبردار ہو کر خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور نئی حکومت کے لوگوں نے اندر آ کر ان کی خالی کرسیاں سنبھال لیں اور چلتے چلاتے کام کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ ہمیں ایک نئی حکومت کی بنیاد رکھنی اور اس کی ہر چیز ابتدا سے شروع کرنی تھی۔ جو لوگ موجودہ ملکی و خارجی حالات سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتے ہیں وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں جب طرح طرح کی عالمگیر قوتیں اور تحریکیں مختلف اغراض سے دنیا کے ہر حصے میں کام فرما ہیں، تدبر و مصالح کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نئی مملکت کی بنیاد رکھنا کتنا عظیم اور کتنی ذمہ داری کا کام ہے۔

دوسرے ہماری راہ میں وہ مشکلات حائل تھیں جنہیں وقتی حالات نے پیدا کر دیا تھا۔ پاکستان ایسے زمانے میں قائم ہوا جب یورپ کے جنگِ عظیم کو ختم ہوئے زیادہ مدت نہ گزرنے پائی تھی اور جنگ کے باعث درہم برہم نظامِ عالم سنبھلنے کے قابل نہ ہوا تھا۔ غیر معمولی اقتصادی حالات میں مصنوعات کی پیداوار کو کہیں محدود اور کہیں مکمل طور سے [مسدود] کر رکھا تھا۔ اشیاء کی قیمتیں گرانی کی آخری حد تک پہنچ چکی تھی۔ اور حکومت اور افراد دونوں کو اپنی اہم ترین ضروریات پوری کرنے کے لیے کم سے کم سہولتیں میسر تھیں۔

تیسرے ہمیں ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان کے مخالفوں نے ہمارے لیے پیدا کر دی تھیں۔ ان کی داستان طویل مگر تفصیل [بے سود] ہے۔ مخالفین جب پاکستان کو بننے سے نہ روک سکے تو اپنی تمام مساعی اس غرض سے بروئے کار لائے کہ ہماری حاصل کردہ آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ چنانچہ ان کی جو تدابیر حکومت کے انتظام میں شدید طور سے خلل انداز ہوئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ حکومت کی وہ تمام اہم دستاویزیں اور یادداشتیں جو ہم سے تعلق رکھتی تھیں، تلف کر ڈالی گئیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ سادہ کاغذ اٹھا کر اس پر انصرام و انتظامِ حکومت کے نقش ازسرنو بنائیں۔ ان مشکلات کے علاوہ حکومتِ ہند نے پاکستان سے ایسا طرزِ عمل روا رکھنا مناسب تصور کیا جسے دوستانہ یا ہمدردانہ کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

نتیجہ ان تمام مشکلات کا یہ نکلا کہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کی افواج غیر منظم تھیں، اس کا عملہ غیر منظم تھا، اور اس کی آبادی میں یکایک کئی لاکھ مہاجرین کا اضافہ ہو چکا تھا جو مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں سے پاکستان میں وارد ہو چکے تھے۔ اور انتظام و انصرام و تنظیم کی مختلف تجاویز کی تکمیل کے لیے حکومت کے پاس مناسب مقدار میں سرمایہ اس لیے موجود نہ تھا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے پاکستان کے حصے کا روپیہ روک لیا تھا۔ یہ صورتِ حالات اس قدر نازک اور [اندیشہ ناک] تھی کہ کسی مضبوط سے مضبوط اور تجربہ کار حکومت کو بھی سراسیمہ کر ڈالتی۔

ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو درہم برہم کرنے کی جو کوششیں کیں ان میں سے ایک کا ذکر خاص طور پر ضروری ہے کیونکہ یہ ان کی سب سے زیادہ خطرناک چال تھی اور وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس چال سے پاکستان ختم ہو جائے گا۔ یہ چال ایک گہری سازش تھی جو سکھوں نے کی اور جس کی تیاری کا علم ایک عرصے سے ان لوگوں کو تھا جو اس کی روک تھام کر سکتے تھے۔ جب اس سازش پر عمل ہوا تو ہندوستان کی فوجوں نے اور پولیس نے اس میں پورا حصہ لیا۔ یکایک لاکھوں … اور بچوں پر سفاکانہ حملے شروع کر دیے گئے اور کم از کم پانچ لاکھ نفوس کو جن میں عورتیں اور بچے بھی کثیر تعداد میں شامل تھے، ختم کر دیا گیا …

اور میری وزارت کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ ملک کی خوشحالی کے لیے صنعت و حرفت اور تجارت کا فروغ ایک لازمی چیز ہے، لیکن تجارت کو 15 اگست کے بعد جو ایک عارضی رکاوٹ پیش آئی وہ ذرائع نقل و حرکت اور آمد و رفت کا بند ہو جانا تھا۔ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو مظالم کیے گئے اور ان سے مغربی پنجاب میں بھی جو حالات پیدا ہو گئے، ان سے ہماری ریلیں اور نقل و حرکت کے دیگر ذرائع بند ہو گئے۔ ریل بند ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان سے کوئلہ آنا کم ہو گیا۔ اِس وقت پاکستان میں نہ صرف ریل پھر باقاعدہ طور پر شروع ہو گئی ہے بلکہ ہوائی جہازوں کی بھی باقاعدہ سروس شروع ہو گئی ہے۔

حکومت کی طرف سے صنعت کے لیے بھی تجاویز کی گئی ہیں۔ جن میں سب سے پہلے کپڑا بُننے کے کارخانے، [پٹ سن] تیار کرنے کے کارخانے، اور اسلحہ سازی کے کارخانوں کا قیام ہے۔ علاوہ ازیں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی بھی اسکیمیں تیار ہو چکی ہیں۔ صنعت کی ترویج کے لیے جو پالیسی مقرر کی گئی ہے، اور جو اور تجویزیں کی گئی ہیں، ان کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا سکتی۔ کاش میرے لیے ممکن ہوتا کہ اس مختصر صحبت میں مرکز کے تمام محکموں کی سرگرمیاں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر سکتا۔ واضح کر سکتا کہ کس کس محکمے نے کیسی کیسی مشکلات کا مقابلہ کیا، کس کس طرح جدوجہد کر کے اپنے فرائض سر انجام دیے، اور مستقبل کی ضروریات کے خیال سے ترقی کی کون کون سی تجاویز بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ اخبار بین حضرات حکومت کی سرگرمیوں سے قطعی ناواقف نہ ہوں گے۔ حکومت آئندہ ان کی معلوم ……

عام پاکستانیوں کی واقفیت کے لیے میں اس موقع پر اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو بہت مکمل اور واضح طور سے اس امر کا احساس ہے کہ اس کا سب سے پہلا اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ عام شخص کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش عمل میں لائی جائے۔ حکومت کے نزدیک اپنے عمل کے دوسرے تمام دائروں میں ہر کامیابی [لاحاصلی] ہے اگر عام پاکستان کی حالت ترقی کے مراحل قابلِ قدر رفتار سے طے نہیں کرتی۔ مجھے اور میری وزارت کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کے کم تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین اس زمانے میں کس قسم کی مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں۔ آپ یقین فرمائیے کہ وزارت ہر ممکن کوشش اور تدبیر عمل میں لا رہی ہے جس سے عام حالات میں اصلاح ہو اور سرکاری ملازمین کے تکالیف و شکایت میں تخفیف ہو سکے۔

اس کے ساتھ ہی میری التماس ہے کہ جن حضرات کے دل میں حکومت کے خلاف شکوہ موجود ہے وہ اپنی حکومت کی مشکلات کو نظرانداز نہ فرمائیں، بلکہ ان شکایات اور ان کی وجوہ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسی کوئی حرکت عمل میں نہ لائیں جس سے حکومت کی ہستی معرضِ خطر میں پڑ جائے، یا اس کی موجودہ دشواریوں میں اضافہ ہو جائے۔ مجھے یقینِ واثق ہے کہ صورتِ حالات کو مجموعی حیثیت سے سمجھ کر وہ مستقبل میں حکومت کو موقع دیں گے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق انہیں ہر ممکن مسرت و آسائش بہم پہنچانے کی تدابیر کو عملی جامہ پہنا سکے۔

اس موقع پر میرا یہ عرض کر دینا بھی بے موقع نہ ہوگا کہ یہ مسلم لیگ ہی کی جماعت ہے جس کی بدولت ہم منظم ہو کر اتنا کچھ حاصل کر لینے میں کامیاب ہو سکے۔ اگر لیگ نے ہم سب کو اتفاق اور اتحاد کے رشتے میں منسلک کر کے ہماری مساعی کو یکجہتی نہ بخشی ہوتی تو اتنا بڑا کارنامہ اتنی مختصر مدت میں سرانجام دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو سکتا۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب ہم میں سے بعض حضرات کی یہ رائے بنتی جا رہی ہے کہ چونکہ لیگ اپنا مقصد پورا کر چکی اور اس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جس کے حصول کی ضرورت تھی لہٰذا اب اسے زندہ رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میری رائے ایسے اصحاب سے بالکل مختلف ہے۔ میری دانست میں لیگ کو ہماری سیاست کے جسم کی روحِ رواں قرار دیا جا سکتا ہے، اور لیگ کو ختم کر ڈالنا میرے نزدیک اپنی تنظیم کو بے جان بنا دینے کا …

اس موقع پر اگر میں نے کشمیر کے مسئلے کا ذکر نہ چھیڑا تو میری رائے میں اکثر سامعین کو مایوسی ہو گی، لیکن چونکہ یہ معاملہ اس وقت سلامتی کونسل کے سامنے پیش ہے اس لیے میں اس پر تفصیل سے اظہارِ خیال کرنے سے قاصر ہوں۔ ہر پاکستانی کے دل میں کشمیریوں کے لیے اخوت اور ہمدردی کا جو گہرا جذبہ موجزن ہے مجھے اس کا مکمل طور سے احساس ہے۔ چنانچہ ان کی تشفی کے لیے میں اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے متعلق ہمارے مقاصد کی صداقت اور معقولیت ساری دنیا پر روشن ہو چکی ہے۔ اور دنیا کو اس بات کا علم بھی ہو چکا ہے کہ کشمیر کے … زدہ مسلمانوں سے جو سفاکی روا رکھی گئی اور جو ظلم ان پر توڑا گیا ہے اس کے متعلق انصاف کرانے کے لیے ہم عزم و استقلال سے ہر ممکن جدوجہد کرنے پر تل چکے ہیں۔

https://youtu.be/P1gL8V06KX0