گلوبل ساؤتھ کسے کہتے ہیں؟
دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ممالک کو عموماً شمال اور جنوب میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم صرف جغرافیائی نہیں بلکہ ایک گہری تاریخی، سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ ’’گلوبل ساؤتھ‘‘ کی اصطلاح دراصل ان ممالک کے لیے استعمال ہوتی ہے جنہوں نے ترقی یافتہ دنیا (جسے اکثر ’’گلوبل نارتھ‘‘ کہا جاتا ہے) کی طاقت اور اثر و رسوخ کے مقابلے میں مختلف راہ اختیار کی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو کبھی سامراجی قوتوں کے زیرِ اثر تھے یا آج بھی عالمی نظام میں ایک مساوی حیثیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
گلوبل ساؤتھ کی اصطلاح سے مراد محض جغرافیائی طور پر جنوبی ممالک نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ ممالک بھی شمار ہوتے ہیں جو جغرافیائی طور پر شمال میں ہونے کے باوجود ترقی پذیر معیشتیں ہیں۔ ایسے ممالک جو ترقی یافتہ خطوں جیسے امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا وغیرہ کے مقابلے میں کمزور سمجھے جاتے ہیں۔ گلوبل ساؤتھ سے مراد ایک مشترکہ تاریخی تجربے کی عکاسی بھی ہے، جس میں نوآبادیاتی نظام کے اثرات، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور عالمی نظام میں عدمِ مساوات شامل ہیں۔
یہ دور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کا ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرنے کا ہے۔ چین، بھارت اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی نظام میں اپنا کردار بڑھا رہی ہیں۔ یہ ممالک اب صرف مدد یا قرضے حاصل کرنے والے نہیں، بلکہ اپنے فیصلوں میں خود مختار بن رہے ہیں، اور نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی اور سیاسی سطح پر بھی ایک نئی شناخت قائم کر رہے ہیں۔ چنانچہ گلوبل ساؤتھ کی اصطلاح ایک نئی کثیر قطبی دنیا کے خدوخال بھی واضح کرتی ہے، جس میں طاقت کا مرکز صرف مغربی دنیا نہیں رہی بلکہ اس کا توازن مختلف خطوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔
اسی پس منظر میں گلوبل ساؤتھ ایک فکری اور نظریاتی شناخت بھی بنتا جا رہا ہے۔ یہ ممالک عالمی اداروں میں زیادہ مؤثر آواز اٹھانے لگے ہیں اور اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف پلیٹ فارمز جیسے BRICS، G77 اور Non-Aligned Movement کو متحرک کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، پائیدار ترقی، اور عالمی تجارتی نظام کی اصلاح جیسے مسائل پر بھی گلوبل ساؤتھ اپنی مخصوص ترجیحات سامنے لا رہا ہے۔ ان ممالک کی کوشش ہے کہ عالمی نظام کو زیادہ منصفانہ اور کثیرالجہتی بنایا جائے تاکہ ترقی یافتہ دنیا کے یکطرفہ فیصلے پوری دنیا پر مسلط نہ ہوں۔ اس طرح گلوبل ساؤتھ ایک ایسا تصور ہے جو نہ صرف ماضی کے استعماری ورثے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ مستقبل کے عالمی ڈھانچے کی سمت کا بھی تعین کرتا ہے۔