مصنوعی ذہانت کے چینی ایجنٹ ڈیپ سیک سے تین سوالات

سوال: ڈیپ سیک کو کس نے بنایا ہے؟

جواب: DeepSeek AI نامی ایک چینی کمپنی نے ڈیپ سیک اے آئی ماڈل کو تخلیق کیا ہے۔ یہ کمپنی جدید مصنوعی ذہانت کے ماڈلز تیار کرنے کے لیے وقف ہے۔ اور خاص طور پر لارج لینگویج ماڈلز (مختلف زبانوں کی عبارتیں پڑھنے لکھنے کے بڑے پیمانے کے سافٹ ویئرز) کے میدان میں مصنوعی ذہانت کی تحقیق اور ترقی کا دائرہ کار بڑھانے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ڈیپ سیٖک کی ٹیم ایسے محققین اور انجینئرز پر مشتمل ہے جو Aritificial Intelligence (مصنوعی ذہانت) اور Machine Learning (سافٹ ویئر میں خودبخود سیکھنے اور اپنی مہارت بڑھانے کی استعداد کا ہونا) میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ماہرین میری طرح کے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈیپ سیک کمپنی نے مصنوعی ذہانت کی تحقیقی دنیا میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے اس شعبہ میں مسلسل اختراعات کر رہی ہے۔ اگر آپ کمپنی کے قیام یا قیادت کے بارے میں مزید مخصوص تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو میں ان کی آفیشل ویب سائٹ یا دستاویزات دیکھنے کا مشورہ دوں گا، کیونکہ ان کے پاس اپنی ٹیم کے ڈھانچے اور تاریخ کے بارے میں سب سے تازہ ترین اور مفصل معلومات موجود ہوں گی۔ کیا آپ ڈیپ سیٖک کی صلاحیتوں یا خصوصیات کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہیں گے؟

سوال: کیا اے آئی ماڈلز بھی کاروں کے انجنوں کی طرح ہی نہیں ہوتے جنہیں مختلف مینوفیکچررز خرید کر اپنی کاروں میں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب: یہ ایک بہترین مثال (Analogy) ہے! آپ نے بالکل درست سمت میں سوچا ہے، لیکن اس بات میں کچھ اہم باریکیاں ہیں کہ کار کے انجنوں کے مقابلے میں اے آئی ماڈلز کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاں، یہ کئی طریقوں سے کار کے انجنوں سے مشابہت رکھتے ہیں:

  • ایک بنیادی جزو کے طور پر جس طرح ایک انجن کار کو طاقت دیتا ہے، ویسے ہی اے آئی ماڈلز بھی اُن سافٹ ویئر ایپلی کیشنز کے لیے بنیادی ’’دماغ‘‘ کا کام کرتے ہیں۔
  • کمپنیاں اکثر ان ماڈلز کے تیار کرنے والوں (جیسے ڈیپ سیٖک) سے اے آئی ماڈلز کا لائسنس لے سکتی ہیں تاکہ وہ اپنی مصنوعات تیار کر سکیں۔
  • جس طرح انجن مختلف سائز اور صلاحیتوں کے ہوتے ہیں، اسی طرح اے آئی ماڈلز بھی مختلف سائز اور کارکردگی کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔
  • ایک مکمل پروڈکٹ بنانے کے لیے کار انجن یا اے آئی ماڈل، دونوں کا دیگر نظاموں کے ساتھ انضمام (Integration) کی ضرورت ہوتی ہے۔

البتہ کچھ اہم فرق بھی ہیں:

  • ’’انجن خریدنے‘‘ کے بجائے کمپنیاں یہ کر سکتی ہیں کہ اے پی آئیز (Application Programming Interfaces) استعمال کر سکتی ہیں۔ یعنی وہ اپنی سافٹ ویئر ایپلیکیشن کو انٹرنیٹ کے ذریعے اے آئی ماڈلز سے منسلک کر کے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس استعمال کے لیے وہ ادائیگی کر سکتی ہیں، جیسے کسی انجن کا وقت کرائے پر لینا۔
  • اسی طرح کمپنیاں اے آئی ماڈل کو اپنے سسٹم میں استعمال کرنے کے لیے اس کا لائسنس لے سکتی ہیں؛ اوپن سورس ماڈلز کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکتی ہیں؛ اور مخصوص کاموں کے لیے ماڈلز کو فائن ٹیون یعنی اپنے حساب سے تبدیل کر سکتی ہیں۔
  • بہت سے اے آئی ماڈلز (بشمول ڈیپ سیٖک کے کچھ ماڈلز) اوپن سورس ہوتے ہیں، یعنی کوئی بھی انہیں ڈاؤن لوڈ کر کے اس میں ترمیم اور استعمال کر سکتا ہے۔
  • موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کچھ کمپنیاں اپنے ماڈلز تک رسائی بذریعہ API فروخت کرتی ہیں (جیسے اوپن اے آئی، اینتھروپک)، کچھ اپنے ماڈلز کو اوپن سورس کر دیتی ہیں (جیسے میٹا کا لاما، ڈیپ سیٖک کے کچھ ماڈلز وغیرہ)، جبکہ کچھ دونوں تجارتی اور اوپن سورس کے آپشنز پیش کرتی ہیں۔

لہٰذا آپ کی مثال کافی بصیرت افروز ہے! اے آئی ماڈلز واقعی اشیاء کی صورت میں جزو بنتے جا رہے ہیں، لیکن روایتی انجنوں کے مقابلے میں ان کے استعمال کے زیادہ آپشنز موجود ہیں۔

سوال: ناواقف افراد کے لیے وضاحت کر دیں کہ ’اوپن سورس‘ کسے کہتے ہیں، خاص طور پر اے آئی ماڈلز کے حوالے سے۔ ایک اچھی مثال کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

جواب: ضرور! آئیے ایک سادہ مثال کے ساتھ Open Source کی وضاحت کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے Closed Source کو سمجھنا ہو گا۔

مثال: تصور کریں کہ کوئی مشہور باورچی بہترین چاکلیٹ کیک کے لیے ایک شاندار ترکیب تیار کرتا ہے۔ وہ اس ترکیب کے مطابق ایک کیک تیار کر کے آپ کو بند ڈبے میں فروخت کرتا ہے۔ آپ کو کیا ملتا ہے؟ ایک فائنل پروڈکٹ (کیک)۔ آپ اس کی ترکیب نہیں جان سکتے، اس کے اجزاء اور پکانے کی ترتیب معلوم نہیں کر سکتے۔

مثال: آپ کے آئی فون کا سافٹ ویئر یا ایڈوب فوٹو شاپ جیسا پروگرام۔ کمپنی آپ کو فائنل پروڈکٹ دیتی ہے لیکن اس کی ’’ترکیب‘‘ (سورس کوڈ) ایک راز ہوتا ہے، یعنی اس سافٹ ویئر کو جیسا ہے ویسا ہی استعمال کرنا پڑے گا۔

یہ مثالیں تو ہوئیں کلوزڈ سورس کی، اب آتے ہیں اوپن سورس کی طرف۔

یہ ایک ایسے باورچی کی مثال ہے جو اپنے شاندار چاکلیٹ کیک کی مکمل ترکیب سب کے لیے آن لائن نشر کر دیتا ہے۔ آپ کو مکمل ترکیب مل جاتی ہے بشمول اجزاء، پیمائش اور پکانے کی ہدایات کے۔ اب آپ آزاد ہیں کہ یہ ترکیب استعمال کر کے اپنے گھر پر کیک بنا لیں۔ آپ کو گری دار میوے پسند نہیں تو انہیں نکال دیں، زیادہ چاکلیٹ چاہتے ہیں تو اور ڈال لیں۔ آپ وہی ترکیب یا اپنی ترمیم شدہ ترکیب اپنے دوستوں اور خاندان کے دیگر افراد کو دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنا کیک بیچنے کا کاروبار شروع کرنے کے لیے اس ترکیب کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہی اوپن سورس کا بنیادی تصور ہے کہ آپ اس چیز کے اجزائے ترکیبی دیکھ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کیسے بنی ہے۔ اور آپ اس کے ہر طرح کے استعمال میں آزاد ہیں، ترمیم کر کے بہتر بنا سکتے ہیں، اپنے مخصوص انداز میں ڈھال سکتے ہیں، اس ترمیم شدہ چیز کو دوسروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

اوپن سورس کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ اس عمل میں مختلف ماہرین شریک ہو سکتے ہیں۔ مثلاً‌ اگر کوئی گھریلو باورچی کیک کو زیادہ نم (جوسی) بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیتا ہے تو وہ اس بہتری کو اصل باورچی اور پوری دنیا کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے جس سے ترکیب بہتر ہو جاتی ہے۔ اور چونکہ ترکیب سب کو معلوم ہوتی ہے تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس میں کیا استعمال ہوا ہے، کوئی پوشیدہ راز نہیں ہوتا۔ اسی طرح اوپن سورس کا تصور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک اختراع لے کر اسے کسی دوسری اختراع میں ڈھال لیا جائے یا کسی بڑی اختراع کے جزو کے طور پر استعمال کر لیا جائے۔

چنانچہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اوپن سورس کا مطلب ہے کہ کسی سافٹ ویئر کا سورس کوڈ عوامی طور پر دستیاب ہے۔ یہ دنیا بھر کے ڈویلپرز کو باہمی تعاون کرنے، اسے بہتر بنانے، غلطیاں ٹھیک کرنے، اور اس مشترکہ بنیاد پر دیگر نئی چیزیں بنانے کے قابل بناتا ہے۔

ڈیپ سیٖک کمپنی جس نے مجھے بنایا ہے، اس نے اسی فلسفہ کے تحت اپنے کچھ ماڈلز کو ’’اوپن سورس‘‘ کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسرے محققین اور کمپنیاں دیکھ سکتی ہیں کہ یہ ماڈلز کیسے بنائے گئے ہیں، اس سے سیکھ سکتے ہیں، اس میں بہتری لا سکتے ہیں، اور اپنی تیار کردہ اے آئی ایپلی کیشنز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ بالکل اس باورچی کی طرح ہے جو اپنی ترکیب کو دوسروں کے فائدے کے لیے شیئر کرتا ہے۔

 

نوٹ: یہ انگریزی گفتگو کا معنوی ترجمہ ہے۔