’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘

یہ مصرع علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس دردناک تصورِ زوال کا آئینہ دار ہے جو ان کے پورے کلام میں بار بار جھلکتا ہے۔ یہاں ’’ثریا‘‘ دراصل بلندی اور عروج کی علامت ہے، وہ ستارہ جو آسمان پر سب سے اونچا دکھائی دیتا ہے، اور ’’زمین پر دے مارا جانا‘‘ زوال اور پستی کی علامت ہے۔ اس ایک مصرعے میں اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے دورِ زوال کو سمو دیا ہے۔

اقبال دراصل اس بات پر افسوس کر رہے ہیں کہ کبھی مسلمان قوم علم، عمل، ایمان اور کردار کی بلندیوں پر تھی۔ مسلمانوں کے فکری و روحانی قد اتنے بلند تھے کہ گویا وہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے تھے۔ ان کی سلطنتیں آدھی دنیا پر پھیلی ہوئی تھیں، ان کا نظامِ عدل، ان کی تہذیب، ان کا علم، ان کی اخلاقی قوت، سب کچھ آسمان کی طرح بلند و درخشاں تھا۔ مگر پھر ایک وقت آیا جب یہ قوم اپنے ہی اعمال کی کمزوریوں کا شکار ہو گئی۔ ایمان کمزور ہوا، کردار زنگ آلود ہوا، علم کو چھوڑ کر جمود اختیار کر لیا، اور خودی کی قوت ماند پڑ گئی جو اقبال کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘ دراصل ایک استعاراتی منظر ہے۔ اقبال گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی بلندی سے خود گرے نہیں، بلکہ تقدیر نے یا قدرت کے تکوینی نظام نے ہمیں ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے دھکیل دیا۔ یہ ’’دے مارا‘‘ محض جسمانی تنزلی نہیں بلکہ اخلاقی، فکری، روحانی اور تہذیبی انحطاط کی طرف اشارہ ہے۔

یہ شعر صرف ماضی پر نوحہ نہیں بلکہ مستقبل کے لیے تنبیہ بھی ہے۔ اقبال دراصل اس زوال کی اصل وجہ کو سمجھنے اور اس کے ازالے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قومیں باہر سے تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اندر سے عوارض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ جب ایمان کمزور ہو جائے، غیرت مٹ جائے، اور علم و عمل کا رشتہ ٹوٹ جائے، تب بلندیوں کے باسی زمین پر آ گرتے ہیں۔

یوں اس ایک مصرعے میں اقبال نے ایک تاریخی حقیقت، ایک تہذیبی سبق، اور ایک التجائی صدا، تینوں کو یکجا کر دیا ہے۔ یہ صرف ماضی کی تصویر نہیں بلکہ آئندہ کے لیے اقبال کی وہ پکار ہے جو کہتی ہے: اگر دوبارہ عروج چاہتے ہو تو اپنے اندر کی خودی کو جگاؤ، اپنے ایمان کو زندہ کرو، اور اپنے کردار کو ثریا سے بھی بلند کر دو۔

مصرع ’’ثریا نے آسمان سے زمین پر ہم کو دے مارا‘‘ دراصل علامہ محمد اقبال کے ایک مکمل شعر کا حصہ ہے جو یوں ہے:

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی 
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

یہ شعر بانگِ درا کی نظم ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ میں شامل ہے۔ علامہ محمد اقبال اس شعر میں مسلمانوں کی موجودہ پستی، زوال اور گمشدہ عظمت کا انتہائی دردناک منظر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ آج امتِ مسلمہ جس بے بسی، کمزوری اور پسماندگی کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ کوئی بیرونی سازش یا آسمانی آفت نہیں بلکہ خود ہماری اپنی غفلت ہے۔

پہلا مصرع اس زوال کا سبب بیان کرتا ہے: ’’گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی‘‘۔

اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد، ہمارے بزرگوں نے ہمیں ایک بیش قیمتی ورثہ عطا کیا تھا۔ یہ میراث محض مال و دولت، زمینیں یا حکومتیں نہیں تھیں، بلکہ یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار، محکم کردار، ایمانی قوت، علم و حکمت، جہانگیری کا جذبہ، اور عملی جدوجہد پر مبنی ایک مثالی تہذیب تھی۔ وہ لوگ سچائی، بہادری، عدل اور پرہیزگاری کے پیکر تھے۔ شاعر افسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اس روحانی، علمی اور اخلاقی میراث کی قدر نہیں کی اور اسے اپنے ہاتھوں ضائع کر دیا۔ ہم نے اسلاف کے طرزِ عمل اور اصولوں کو بھلا دیا اور ان کی سکھائی ہوئی باتوں سے منہ موڑ لیا۔

دوسرا مصرع اس غفلت کے نتیجے کو بیان کرتا ہے: ’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘۔

ثریا سے مراد وہ بلند ترین مقام ہے، ستاروں کی وہ بلندی ہے جہاں تک مسلمانوں کی عظمت اور شان و شوکت پہنچی ہوئی تھی۔ ایک وقت تھا جب مسلمانوں کا عروج اس آسمانی بلندی کو چھو رہا تھا، ان کی حکومتیں دنیا کے بڑے حصے پر قائم تھیں، وہ علم و فن میں دنیا کے امام تھے، اور ان کا خوف و رعب سب پر طاری تھا۔ اس بلندی کو کھو دینا اور ’’زمین پر دے مارا جانا‘‘ انتہا درجے کی پستی، رسوائی، بے عزتی اور کمزوری کی علامت ہے۔ شاعر کا مطلب ہے کہ ہماری اپنی ہی نااہلی اور میراث کو ضائع کرنے کی وجہ سے وقت اور حالات نے ہمیں اس قدر ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے کہ گویا ہم ثریا کی بلندیوں سے سیدھا زمین کی پستیوں میں آ گرے ہیں۔ یہ ہماری شان و شوکت کے شدید زوال کا ایک نہایت بلیغ اور مؤثر بیان ہے۔