پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستیں

تقسیمِ ہند کے بعد جن ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا، ان میں زیادہ تر مسلم اکثریتی ریاستیں تھیں جو برطانوی ہند کے آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔ یہاں ان ریاستوں کے الحاق کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

ہنزہ، نگر (گلگت بلتستان)

1947ء میں ریاستِ جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریت کے رجحان کے برخلاف بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ ہنزہ اور نگر جو کہ ریاستِ جموں و کشمیر کی جاگیریں تھیں، انہوں نے نے اکتوبر و نومبر 1947ء میں مہاراجہ کے فیصلے کی مخالفت میں بغاوت کر دی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ 1974ء میں یہ ریاستیں مکمل طور پر پاکستان میں ضم کر لی گئیں، یہ علاقے آج گلگت بلتستان کا حصہ ہیں۔

ان ریاستوں میں پاکستان کے حق میں شدید جذبات پائے جاتے تھے۔ 17 نومبر 1947ء کو ریاست نگر کے میر محمد سوریا خان نے جموں و کشمیر کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ نگر کے بعد ریاست ہنزہ کے میر محمد جمال خان نے بھی 3 نومبر 1947ء کو ایک باضابطہ اعلان کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ یہ دونوں الحاق دراصل گلگت میں ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف مقامی بغاوت اور گلگت سکاوٹس کی کارروائیوں کے فوری بعد عمل میں آئے۔ مقامی آبادی کی مرضی، جغرافیائی قربت، اور مذہبی یکجہتی کی بنیاد پر ان ریاستوں نے پاکستان کی نئی ریاست کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔

الحاق کے بعد بھی ہنزہ اور نگر کو کئی دہائیوں تک اندرونی معاملات میں بڑی حد تک آزادی حاصل رہی۔ یہ دونوں ریاستیں دیگر قبائلی اور شمالی علاقوں کے ساتھ مل کر شمالی علاقہ جات (جسے اب گلگت بلتستان کہا جاتا ہے) کا حصہ بنیں۔ بالآخر 1974ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان ریاستوں کے شاہی نظام کو ختم کرتے ہوئے انہیں مکمل طور پر پاکستان کے وفاقی انتظامی ڈھانچے میں ضم کر دیا، اس طرح ان کی ہزاروں سال پرانی نیم خودمختار ریاستی حیثیت کا اختتام ہوا اور وہ جدید گلگت بلتستان کے انتظامی اضلاع بن گئیں۔

سوات، دیر، چترال، امب، پھلرا (خیبر پختونخوا اور ملحقہ علاقے)

یہ ریاستیں شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) اور اس کے اطراف میں واقع تھیں۔ ان ریاستوں نے 1947ء میں آزادی کے فوراً بعد الحاق کیا۔ یہ تمام مسلم اکثریتی ریاستیں جغرافیائی طور پر پاکستان سے متصل تھیں۔ یہاں کے حکمرانوں نے تیزی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ سوات کے والی میانگل عبد الودود پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے ابتدائی حکمرانوں میں شامل تھے۔ چترال کے حکمران نے بھی اگست میں اعلان کر دیا تھا اور رسمی الحاق اکتوبر میں ہوا۔ امب ریاست نے بھی الحاق کیا، جس کا ایک بڑا حصہ بعد میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے دوران زیرِ آب آ گیا۔ ان ریاستوں کو 1969ء تک ریاستی حیثیت حاصل رہی اور پھر انہیں انتظامی طور پر مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔

تعارف: ریاست پھلرا، جسے عموماً بھلرا بھی کہا جاتا ہے، شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) میں واقع ایک چھوٹی لیکن اہم ریاست تھی۔ یہ ریاست موجودہ ہزارہ ڈویژن میں تھی۔ یہ ریاست اپنے مسلم اکثریتی تشخص اور پاکستان سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے فوراً ہی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر آمادہ ہو گئی۔ دیگر چھوٹی پہاڑی ریاستوں کی طرح، پھلرا کے حکمرانوں نے بھی برطانوی راج کے خاتمے کے بعد تیزی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی قوم اور خطے کے مستقبل کے لیے بہترین سمجھا۔ انتظامی طور پر، یہ ریاست 1950ء کی دہائی کے اوائل میں ہی ختم کر کے صوبے کا حصہ بنا دی گئی۔

تعارف: ریاستِ دیر موجودہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں واقع ایک اہم اور بڑی ریاست تھی۔ یہاں کے حکمران، نواب شاہ جہان خان، نے اپنے قریبی پڑوسی علاقوں کی طرح پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ دیر ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا جس کی جغرافیائی اور ثقافتی جڑیں نئے ملک سے وابستہ تھیں۔ الحاق کا یہ فیصلہ 8 نومبر 1947ء کو ایک باقاعدہ دستاویز کے ذریعے کیا گیا، جس نے ریاست کو پاکستان کا حصہ بنا دیا۔ ریاست دیر نے 1969ء تک اپنی اندرونی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھی اور پھر دیگر ریاستوں کے ساتھ اسے بھی مغربی پاکستان کے صوبائی نظام میں مکمل طور پر ضم کر دیا گیا۔ 

بہاولپور (پنجاب)

تاریخ الحاق: 3 اکتوبر 1947ء

ریاست بہاولپور رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے الحاق کرنے والی سب سے بڑی اور معاشی طور پر خوشحال ریاستوں میں سے تھی۔ یہ موجودہ پنجاب کے جنوبی علاقے پر مشتمل تھی۔ یہاں کے نواب صادق محمد خان پنجم، جو قائد اعظم محمد علی جناح کے ذاتی دوست تھے، نے تقسیم کے فوراً بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا، حالانکہ ریاست کو خود مختار رہنے کا اختیار حاصل تھا۔ نواب نے مالی طور پر بھی نوزائیدہ ملک پاکستان کی مدد کی اور مہاجرین کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ریاست 1955ء میں مغربی پاکستان میں ضم ہو گئی۔

ریاست بہاولپور کا الحاق برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک تاریخی اور فیصلہ کن قدم تھا۔ یہ ریاست جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے الحاق کرنے والی سب سے بڑی نوابی ریاست تھی اور موجودہ پنجاب کے جنوبی علاقوں پر مشتمل تھی، کے سربراہ نواب صادق محمد خان پنجم عباسی تھے۔ نواب صاحب کا یہ فیصلہ صرف آبادی کی مسلم اکثریت (83 فیصد) کی خواہش کا عکاس نہیں تھا، بلکہ قائداعظم محمد علی جناح سے ان کے قریبی ذاتی تعلقات اور تحریک پاکستان کی مکمل حمایت کا بھی مظہر تھا۔ نواب صادق محمد خان پنجم نے 3 اکتوبر 1947ء کو، آزادی کے چند ہی ہفتوں بعد، پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔

یہ اقدام پاکستان کے لیے نہ صرف جغرافیائی اور سیاسی طور پر استحکام کا باعث بنا بلکہ معاشی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ ریاست بہاولپور اس وقت ایک خوشحال ریاست تھی اور اس کے نواب نے الحاق کے بعد نہ صرف نوزائیدہ ملک کو ابتدائی مالی امداد فراہم کی بلکہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے لاکھوں مہاجرین کی بحالی، رہائش اور امداد کے لیے بھی اپنے وسائل کھول دیے۔ یوں، ریاست بہاولپور کا الحاق صرف ایک رسمی عمل نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان پر مکمل اعتماد اور نئے ملک کی تعمیر میں فعال کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار تھا۔ یہ ریاست 1955ء تک اپنی اندرونی خودمختاری برقرار رکھتی رہی، جب اسے ون یونٹ کے قیام کے تحت مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔

خیرپور (سندھ)

تاریخ الحاق: 3 اکتوبر 1947ء

خیرپور سندھ کے شمالی حصے میں واقع ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ یہاں کے حکمران میر علی مراد خان دوم تھے، جنہوں نے جلد ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ علاقے کی جغرافیائی اور آبادیاتی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا کیونکہ یہ مسلم اکثریتی صوبہ سندھ کے قریب واقع تھی۔ یہ ریاست بھی 1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے ساتھ مغربی پاکستان کا حصہ بن گئی۔

ریاست خیرپور کا الحاق بھی برصغیر کی تقسیم کے اوائل میں ہی طے پا گیا تھا، اور اس نے سندھ کے جغرافیائی اور سیاسی نقشے کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ریاست دریائے سندھ کے کنارے، مسلم اکثریتی صوبہ سندھ کے شمال میں واقع تھی، جس پر مسلمان حکمران میر علی مراد خان دوم کی حکومت تھی۔ چونکہ ریاست کی تقریباً تمام آبادی مسلمان تھی اور اس کا جغرافیائی محلِ وقوع پاکستان سے مکمل طور پر ملتا تھا، اس لیے یہاں کے حکمران نے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے تقسیمِ ہند کے ابتدائی دنوں میں ہی، یعنی 3 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ یہ ریاست ان ابتدائی ریاستوں میں سے تھی جنہوں نے نوزائیدہ ملک کی حمایت میں فوری فیصلہ کیا، جس سے باقی ریاستوں کو بھی ایک واضح پیغام ملا۔ یہ عمل اس بات کی ضمانت تھا کہ سندھ کے شمالی حصے میں پاکستان کی سرحدیں محفوظ اور مستحکم رہیں گی، اور یوں یہ ریاست 1955ء میں ون یونٹ کے قیام تک اپنی اندرونی نیم خودمختار حیثیت برقرار رکھنے کے بعد مغربی پاکستان کا حصہ بن گئی۔

قلات، لسبیلہ، خاران، مکران (بلوچستان)

تاریخ الحاق لسبیلہ، خاران، مکران: اگست 1947ء 

تاریخ الحاق قلات: مارچ 1948ء

یہ چاروں ریاستیں موجودہ بلوچستان کے علاقے میں واقع تھیں۔ قلات بلوچستان کی سب سے بڑی اور سب سے اہم ریاست تھی، جس کے تحت دیگر چھوٹی ریاستیں بھی شامل تھیں۔ میر احمد یار خان (خان آف قلات) نے شروع میں مکمل خودمختاری یا تاخیر کا راستہ اپنایا، لیکن خطے کی جغرافیائی اور مسلم اکثریتی آبادی کی مرضی کے تحت بالآخر مارچ 1948ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے بھی قلات کی بالادستی کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان سے جلد الحاق کی خواہش کا اظہار کیا اور ابتدائی طور پر رضامندی دے دی تھی۔ اکتوبر 1952ء میں ان چاروں ریاستوں نے مل کر بلوچستان ریاستی اتحاد بنایا، جسے اکتوبر 1955ء میں ختم کر کے مغربی پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔

تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں کی کل تعداد 13 تھی، جن کا تعلق موجودہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا (بشمول گلگت بلتستان) کے علاقوں سے تھا۔ ان میں سے زیادہ تر نے 1947ء کے اواخر میں ہی الحاق کر لیا تھا اور اس فیصلے میں ان کی مسلم اکثریتی آبادی اور جغرافیائی محل وقوع نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان ریاستوں کی شمولیت نے پاکستان کے جغرافیائی اور سیاسی استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا۔