چین کیسے کامیاب ہوا — وجے پراشاد سے لی جِنگ جِنگ کا انٹرویو

یہ گفتگو چین کے ترقی کی طرف گامزن سفر، گلوبل ساؤتھ کے ساتھ معاملات، طاقت کی عالمی کشمکش کے حوالے سے ترجیحات، اور ملک کے اندر سوشلزم کے مستقبل پر ایک اہم فکری مکالمہ ہے۔ گفتگو کی میزبان لی جِنگ جِنگ ہیں، جو چین کو دنیا کے سامنے درست تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور مہمان وجے پراشاد ’’ٹرائی کانٹینینٹل انسٹیٹیوٹ‘‘ کے سربراہ اور مصنف ہیں، جو چین کے سماجی و معاشی تجربے کو گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک عملی حوالہ سمجھتے ہیں۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دنیا غیر یقینی حالات، بڑھتی ہوئی ناہموار دولت، استعمار کی نئی شکلوں، اور عالمی طاقتوں کی کشمکش کا سامنا کر رہی ہے، ایسا وقت جس میں بہت سے ممالک چین کے تجربات کو جاننے کے خواہاں ہیں۔ لی جِنگ جِنگ نے وجے پراشاد سے اس سارے پس منظر کے حوالے سے گفتگو کی، جس کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

لی جِنگ جِنگ کے سوالات

  • گفتگو میں لی جِنگ جِنگ نے سب سے پہلے یہ سوال رکھا کہ کیا چین آج بھی ایک سوشلسٹ ملک ہے؟ جبکہ دنیا میں یہ بحث عام ہے کہ چین میں سرمایہ دار موجود ہیں، بلند و بالا عمارتیں موجود ہیں، غربت نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا شاید یہ سوشلسٹ ملک نہیں رہا۔
  • پھر وہ پوچھتی ہیں کہ چونکہ چین کا عالمی اثر بڑھ رہا ہے، کیا یہ خدشہ درست ہے کہ چین نئی ’’عالمی بالادستی‘‘ بننے جا رہا ہے؟
  • اس کے بعد وہ یہ سوال رکھتی ہیں کہ مغرب میں چین کو ’’جی ٹو‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، یعنی دو سپر پاورز کی دنیا، لیکن کیا چین واقعی ایسی کسی خواہش کا حامل ہے؟
  • پھر وہ کہتی ہیں کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک چین کی ترقی کو ایک معجزہ سمجھتے ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں کہ چین نے کیسے غربت، پسماندگی اور نوآبادیاتی زخموں سے نکل کر یہ مقام حاصل کیا؟ اسی سے متعلق وہ سوال کرتی ہیں کہ چین کا ماڈل کن حد تک دوسرے ترقی پذیر ممالک پر قابلِ اطلاق ہے۔
  • انہوں نے مزید پوچھا کہ جیسے جیسے چین میں مڈل کلاس بڑھے گی، کیا اس کے اندر وہی رویے پیدا نہیں ہوں گے جو سرمایہ دار معاشروں میں دیکھے گئے، جیسے کچھ طرح کے کاموں کی تحقیر، یا ’’مہاجر مزدور‘‘ والے تضادات؟
  • اس کے بعد انہوں نے گلوبل ساؤتھ کی سیاست پر آتے ہوئے یہ سوال رکھا کہ آخر چین جیسے ممالک آزادی کے بعد ترقی کرنے میں کامیاب ہوئے، مگر اسی طرح کے کئی دیگر ممالک کیوں ایسی کامیابی حاصل نہ کر سکے؟
  • آخر میں انہوں نے پوچھا کہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگ دنیا بھر میں تقسیم کیوں ہیں اور انہیں ایک مشترکہ جدوجہد پر کیسے متحد کیا جا سکتا ہے؟

وجے پراشاد کے جوابات

وجے پراشاد نے وضاحت کی کہ چین کو کسی خاص اصطلاح کے حوالے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ البتہ چین ابھی بھی سوشلزم کی تعمیر کے عمل میں ہے، کیونکہ سوشلزم کوئی بٹن نہیں جو ایک دن میں آن ہو جائے۔ انقلاب ہمیشہ غریب اور زرعی ملکوں میں آیا۔ سوویت یونین، چین، کیوبا وغیرہ جہاں سب سے پہلے ملک کو بھوک، خستہ حالی اور بنیادی ضرورتوں سے نکلنا ہوتا ہے۔ چین نے جب 1949ء میں نئی ریاست قائم کی تب جنگیں، بھوک اور تباہ حال زراعت نے ملک کو شدید کمزور کر رکھا تھا، اور انقلاب کے فوراً بعد کسی مکمل سوشلسٹ ڈھانچے کی توقع کرنا غیر حقیقی ہوتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سوشلسٹ تبدیلی کا اصل معیار بلند عمارتیں نہیں بلکہ غربت کا خاتمہ، بھوک کا خاتمہ، اور عدمِ مساوات پر قابو پانا ہے، اور یہی وہ میدان ہیں جہاں چین نے ایسی کامیابیاں دکھائی ہیں جن کی مثال سرمایہ دار دنیا پیش نہیں کر سکی۔ چین میں سرمایہ دار تو موجود ہیں مگر سرمایہ دار طبقہ موجود نہیں، کیونکہ کمیونسٹ پارٹی انہیں سیاسی طاقت نہیں بننے دیتی؛ نہ وہ میڈیا بنا سکتے ہیں، نہ سیاسی جماعتیں خرید سکتے ہیں، نہ انتخابی نظام پر قابض ہو سکتے ہیں۔ یہی چیز پورے معاشی ڈھانچے کو سرمایہ داری کے ارتکاز میں تبدیل ہونے سے روکتی ہے۔

انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ چین عالمی طاقت بن کر دنیا پر غلبہ پانا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق چین اپنی فوج کو جارحیت کے لیے نہیں بلکہ دفاع کے لیے مضبوط بنا رہا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ امریکہ 900 سے زیادہ بیرونی فوجی اڈے رکھتا ہے، جن میں بہت سے چین کے آس پاس ہیں۔ چین نے کبھی کسی ملک کے گرد فوجی اڈے بنانے کی کوشش نہیں کی، نہ اس نے افریقہ، لاطینی امریکہ، یا ایشیا میں سپر پاور بننے کے اشارے دیے۔ اس کی پالیسیوں کا مرکز ہمیشہ کثیرالجہتی نظام، اقوامِ متحدہ کا چارٹر، اور گلوبل ساؤتھ کے ساتھ برابری پر مبنی تعاون رہا ہے، اسی لیے G2 جیسی اصطلاحات حقیقت کے منافی ہیں۔ وجے پراشاد کے مطابق حقیقی دنیا G193 یعنی اقوامِ متحدہ ہے۔ انہوں نے برکس اور شنگھائی کارپوریشن تنظیموں کا ذکر بھی کیا کہ چین گزشتہ صدی میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک سے تعاون تو کرتا رہا لیکن ان کے ساتھ باقاعدہ شامل نہیں ہوا، البتہ نئی صدی میں چین گلوبل ساؤتھ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جو انڈیا کے لیے بھی ایک اچھی چیز ہے۔

گلوبل ساؤتھ میں چین کے تجربے کی مقبولیت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے نے چینی ماہرین کے ساتھ مل کر عملی نوعیت کی تحقیق شائع کرنا شروع کی ہے تاکہ دوسرے ممالک صرف چینی ریلوے یا کاریں نہ درآمد کریں بلکہ اپنے ملک میں ایسی ٹیکنالوجی پیدا کرنا سیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے صرف مغربی ٹیکنالوجی نہیں لی بلکہ اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی بھی دی، اور یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ پارٹی کے پاس طویل المدت منصوبہ بندی کی صلاحیت تھی، اور مارکیٹ کے استعمال کو سماجی فائدے کے تابع رکھا گیا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ چین کے سامنے بھی چیلنجز موجود ہیں، جیسے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی خواہشات، پیشے کی بنیاد پر سماجی درجہ بندی کا خطرہ، یا بعض علاقوں کی پسماندگی۔ مگر ان کے مطابق چین کی سیاسی قیادت ان مسائل کو تسلیم بھی کرتی ہے اور انہیں حل کرنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی بھی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گھری کے مسئلے سے نمٹنا، بھوک کا خاتمہ، اور سماجی تحفظ خود ایک ثقافتی کامیابی ہے جسے چین کے لوگ کبھی کبھی معمول کی بات سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ یہ دنیا میں ایک منفرد کارنامہ ہے۔

گلوبل ساؤتھ کی ترقی نہ ہونے کے سوال پر وجے پراشاد نے وضاحت کی کہ چین کے برخلاف بہت سے ممالک اپنی آزادی کا دفاع نہیں کر سکے۔ انڈونیشیا جیسا ملک بُری طرح کچلا گیا، لاکھوں بائیں بازو کے کارکن قتل کر دیے گئے، اور ترقی کا راستہ منقطع ہو گیا۔ چین کی قیادت نے شروع سے یہ سمجھ لیا تھا کہ سیاسی خودمختاری کے بغیر اقتصادی آزادی ممکن نہیں۔ انقلاب کے بعد انہوں نے دفاعی صلاحیت پیدا کی، بیرونی دباؤ کا مقابلہ کیا، اور 1990ء کی دہائی کے عالمی بحران میں بھی اپنا نظام برقرار رکھا۔ ان کے مطابق یہی سب سے بڑا فرق ہے۔

بائیں بازو کے انتشار کے متعلق وجے پراشاد نے کہا کہ اتحاد کے بغیر سیاسی جدوجہد ممکن نہیں۔ چین کی تاریخ میں ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کی مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے بھی بڑے مخالفین کے ساتھ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق دنیا بھر کے بائیں بازو کو اصولی موقف کے ساتھ عوام کے درمیان کام کرنا ہو گا، کیونکہ عوام کی ضروریات یعنی بھوک، محرومی، تنہائی وغیرہ انہیں اتحاد کی طرف لے جاتی ہیں، جبکہ نظریاتی گروہ بندی انہیں کمزور کرتی ہے۔

گفتگو کے آخر میں لی جِنگ جِنگ نے وجے پراشاد کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا کہ چین ڈیڑھ ارب انسانوں کی پیچیدہ اور متنوع دنیا ہے، جسے سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگ خود چین آئیں، شہروں اور دیہاتوں میں جا کر لوگوں سے بات کریں، ان کی زندگی، ان کی مشکلات اور ان کی کامیابیوں کو قریب سے دیکھیں۔

https://youtu.be/lnoewyz8lQg