طبابت کی مسلم تاریخ اور موجودہ صورتحال

طبابت کے شعبے میں مسلمانوں کی نمایاں موجودگی

شیخ عبد الحکیم مراد بتاتے ہیں کہ اگرچہ برطانیہ کی مجموعی آبادی میں مسلمان صرف ساڑھے چار سے پانچ فیصد ہیں، لیکن NHS (نیشنل ہیلتھ سروس، برطانیہ) میں کام کرنے والوں میں ان کی شرح گیارہ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ان کے مطابق یہ رجحان کسی معاشرتی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ خدمتِ خلق کا وہ جذبہ ہے جو ہر سنجیدہ مذہبی روایت میں پایا جاتا ہے۔ انسان کی تیمارداری، بوڑھوں کی دلجوئی، اور نوزائیدہ بچے کی ماں کے سامنے حوصلہ افزا بات کہنا صرف پیشہ نہیں بلکہ عظیم انسانی عمل ہے۔ جدید طب اگرچہ انسان کو کسی حد تک مشین سمجھ لیتی ہے، لیکن انسان محض جسم نہیں بلکہ جسم اور روح کے درمیان وہ لطیف رشتہ اور باہمی تعلق ہے جسے مذہب ہمیشہ بیان کرتا آیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کا طب کے شعبے میں آنا ان کے اسی فطری اور دینی میلان کی علامت ہے۔

ہم آہنگی اور بین المذاہب تعاون

شیخ مراد اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ طب ایک ایسا شعبہ رہا ہے جہاں مذہبی تفریق مدھم پڑ جاتی تھی، کیونکہ یہ انسانیت کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اسلامی دنیا کی ابتدائی صدیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ طبی شعبہ نہایت متنوع اور مذہبی اعتبار سے ہم آہنگ تھا۔ انہوں نے جرمن پروفیسر مینفریڈ اولمین کی اسلامی طب پر کتاب کا حوالہ بھی دیا۔ شیخ مراد نے بتایا کہ مسلم دور کے بہت سے ابتدائی اطباء دراصل عیسائی تھے۔ ایران کے ابنِ بختیشوع خاندان کی مثال دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہ خاندان اسلام کی آمد سے پہلے بھی طب میں ممتاز تھا اور اسلامی دور میں بھی بغیر کسی تعصب کے ان کی مہارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اسی طرح معروف مسلمان مجاہد صلاح الدین ایوبی جنہوں نے بیت المقدس آزاد کروایا تھا، انہوں نے اپنے ذاتی طبیب کے طور پر موسیٰ بن میمون کو منتخب کیا، جو یہودی مذہبی فکر کے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے ہیں۔ صلاح الدین نے کسی مذہبی امتیاز کے بجائے محض مہارت کو بنیاد بنایا کہ ’’جو بہتر کام کرے، وہی حق دار ہے‘‘۔

ہسپتالوں کی ابتدا اور اسلامی دنیا کا اثر

شیخ مراد بتاتے ہیں کہ یورپ میں ہسپتالوں کا جو تصور بعد میں پیدا ہوا، اس کی جڑیں مسلم تہذیب میں ملتی ہیں۔ سسلی کے نورمن حکمرانوں نے مسلمان اداروں سے متاثر ہو کر ہسپتالوں کی تنظیم کو آگے منتقل کیا، جو بعد میں پورے یورپ میں پھیلا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دور کے کئی اہم طبی انکشافات بھی اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابوبکر رازی کو موتیا کی سرجری کا اولین موجد کہا جاتا ہے۔ ابن نفیس نے خون کی پھیپھڑوں کے ذریعے گردش کی وضاحت کی۔ عجائب گھروں میں آج بھی اسلامی دور کے جراحی آلات دیکھے جا سکتے ہیں جو اس علمی ترقی کے گواہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارہویں صدی تک ایڈنبروکس کی نصابی کتابوں میں سے ایک دراصل ابن سینا کی تھی، جو قرونِ وسطیٰ کے ایک مسلمان طبیب اور فلسفی تھے۔ قرونِ وسطیٰ کی اسلامی دنیا کی یہ نصابی کتاب یہاں کیمبرج کے طبی نصاب میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔

جسم و روح کا باہمی تعلق اور اسلامی تصورِ صحت

شیخ نے واضح کیا کہ اسلام جسم اور روح کو دو علیحدہ اکائیاں نہیں سمجھتا بلکہ انہیں باہم مربوط دیکھتا ہے۔ یہ سچائی آج کا جدید طبیب بھی جانتا ہے کہ انسان جب ذہنی طور پر افسردہ ہو تو بیشتر بیماریوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات آپ کے لیے شاید حیران کن ہو کہ احادیث میں ’’کتاب الطب‘‘ یعنی طب کے ابواب موجود ہیں، جن میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبی ہدایات اور علاج کے واقعات ملتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لقب ’’طبیب‘‘ بھی ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی کی دیواروں پر آپ کے سینکڑوں اسمائے مبارکہ میں ’’الطبیب‘‘ یعنی ’’معالج‘‘ بھی درج ہے۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ انسانی جسم کو سنبھالنا بھی ایک دینی فریضہ ہے۔

اسلامی تہذیب کی صحت افزا روایت

شیخ مراد نے والٹر کیگی کی ایک کتاب کے حوالے سے اس سوال کا ذکر کیا کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلم فتوحات کے بعد شہری آبادیوں میں غیر معمولی اضافہ کیسے ہوا؟ اس کی ایک بڑی وجہ دینی تعلیمات میں صفائی ستھرائی اور صاف پانی کے استعمال پر زور تھا۔ مسلمانوں کے لیے نماز سے پہلے باوضو ہونا لازمی ہے اور اس کے لیے پاکیزہ پانی درکار ہے۔ ایسا پانی جس میں نہ بو ہو، نہ رنگ، نہ ذائقہ۔ اس ضرورت نے ہر مسلمان شہر میں صاف پانی کی فراہمی کو ترجیحی مسئلہ بنا دیا۔ قرطبہ کی مسجد کے قریب ایک عمارت میں آج بھی وہ پانی کی گزرگاہیں دیکھی جا سکتی ہیں جو مسلمانوں نے وضو کے نظام کے لیے بنائیں۔ اس نظم و ضبط نے آبی بیماریوں میں نمایاں کمی پیدا کی اور آبادیوں میں اضافے کا باعث بنا۔

دورِ حاضر میں مسلمانوں کی صورتحال

اگرچہ مسلمانوں کی تاریخ طب کے میدان میں نہایت شاندار رہی ہے، لیکن آج کی صورتحال کچھ مثالی نہیں ہے۔ تاہم جدید سائنس اور طب کی ترقی سب انسانوں کی مشترکہ میراث ہے اور باہمی تعاون کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان کے مطابق NHS جیسے اداروں میں مختلف مذاہب اور طبقوں کے لوگ اکٹھے ہو کر ایک ایسا ماحول بنانے کا باعث بنتے ہیں جہاں انسانیت کا مشترکہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

طبابت: تعصبات کے خلاف انسانیت کا پل

شیخ مراد اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یورپ میں بڑھتے ہوئے تعصبات اور مسلم مخالف جذبات کے ماحول میں طب کا پیشہ ایک ’’انسانی پل‘‘ کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کووِڈ (کرونا) کے دوران NHS کے جو پہلے تین ڈاکٹر وفات پائے، وہ مسلمان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ چاہے مسلمان مخالف جذبات رکھتے ہوں، لیکن جب آپ مسلسل سانس لینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں اور سامنے حجاب پہنی نرس آپ کی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہو، تب آپ کی سوچ بدلتی ہے۔ اس لیے مسلمان طبی کارکن اپنی خدمات کی بدولت معاشرے میں مثبت تبدیلی کے سفیر بن سکتے ہیں۔

قرآن کا پیغام: تنوع ایک رحمت

شیخ مراد قرآن کی اس آیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں انسانوں کے قبائل، رنگوں اور زبانوں کے فرق کو باہمی تعارف اور پہچان کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، نہ کہ نفرت کا باعث۔ ہسپتال، کلینک اور چھوٹے بڑے میڈیکل مراکز وہ جگہیں ہیں جہاں یہ آیت سب سے زیادہ حقیقت بن کر سامنے آتی ہے۔ جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ ایک دوسرے کا علاج کرتے اور خدمت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

جسمِ انسانی: مذہب کی نگاہ میں ایک امانت

خطاب کے اختتام پر وہ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانی جسم محض گوشت کی مشین نہیں ہے بلکہ خدا کی عطا کردہ امانت اور ایک مقدس حقیقت ہے جس کا احترام اور حفاظت لازمی ہے۔ اسی مذہبیت اور روحانی روایات کے ذریعے محض مادیت پر مبنی سوچ کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔

https://youtu.be/3f0CbaYo9DU