فاطمہ بھٹو سے مریم فرانسوا کا انٹرویو
مہمان کا تعارف اور سیاسی تشدد کا سوال
مریم فرانسوا نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فاطمہ بھٹو کا تعارف کروایا کہ وہ ایک ایسی خاتون ہیں جو سیاسی تشدد کو بہت قریب سے جانتی ہیں، ان کے دادا ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی بغاوت کے بعد سزائے موت دی گئی، ان کے والد قتل ہوئے جب وہ صرف چودہ سال کی تھیں، اور ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو کو بھی قتل کیا گیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سیاسی تشدد کیوں عام ہوتا جا رہا ہے، میڈیا کا کردار کیا ہے، اور عالمی انصاف کے ادارے آج کہاں کھڑے ہیں۔
فاطمہ نے کہا کہ ریاستی تشدد ہمیشہ موجود رہا ہے اور انسانوں کی روزمرہ کی زندگی میں یہی تشدد سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ویسے تو ہمیشہ غیر ریاستی تشدد پر توجہ مرکوز رکھی گئی، جیسے دہشت گردی وغیرہ، لیکن حقیقت میں زیادہ تر لوگ ریاستی طاقت کے ذریعے دبائے جاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ انصاف کے ادارے، عالمی عدالتیں اور بین الاقوامی ڈھانچے اکثر متاثرین کی حفاظت کرنے کی بجائے مجرموں کو بچاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے حقوق کے لیے لڑتا ہے وہ سب سے زیادہ خطرے میں ہوتا ہے۔
فاطمہ بھٹو نے اپنے خاندان کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے اپنا والد اور بھائی اسی تشدد کے نتیجے میں کھو دیا تھا، اور خود ان کے اپنے والد گھر کے سامنے قتل ہوئے، گواہوں اور زندہ بچ جانے والوں کو گرفتار کیا گیا، جبکہ جو پولیس والے اس کے ذمہ دار تھے انہیں اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی تشدد کا کوئی مواخذہ نہیں ہوتا، انصاف نہیں ہے۔
فاطمہ بھٹو نے کہا کہ یہ صرف ان کے خاندان کا قصہ نہیں، بلکہ دنیا بھر میں اور بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ریاستی تشدد کا سامنا کیا۔ اس لیے کہ جب اپنے والد کے بارے میں کتاب لکھ کر اس سلسلے میں وہ مختلف ممالک میں گئیں تو بہت سے ایسے لوگوں سے ملیں جو اسی درد کا شکار تھے۔ یعنی جو بھی طاقت کے خلاف جاتا ہے، خاص طور پر وہ جو نظام کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فاطمہ نے واضح کیا کہ عالمی سطح پر ہماری توجہ غلط جگہ رہی ہے، ہمیں عموماً غیر ریاستی تشدد دکھائی دیتا رہا ہے، جبکہ عام آدمی کی روز مرہ زندگی میں حقیقی خطرہ ریاستی تشدد کا ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس بات کی سب سے واضح مثال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اب اس بات کے شواہد ہیں کہ بین الاقوامی انصاف کا ڈھانچہ کمزور ہے اور اکثر انصاف کے مخالف سمت کھڑا ہوتا ہے۔ جو ادارے ہمیں تحفظ دینے والے تھے وہ اکثر مظالم کرنے والوں کو بچانے میں ملوث نکلے۔
مذہب، سیاسی دباؤ، آمرانہ حکومتیں
میزبان نے پوچھا کہ مذہب کو کس طرح استبداد یا استحصال کے لیے استعمال جاتا ہے، اور کیا امریکہ یا پاکستان جیسے مختلف سیاق و سباق رکھنے والے ممالک میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقے ایک جیسے ہیں؟ فاطمہ نے کہا کہ مذہب کو سیاسی جنون کے ساتھ جوڑنا ایک دھوکہ دہی ہے۔ حکمران عام طور پر مذہب کے اچھے، اخلاقی اور رفاہی پہلوؤں کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ نفرت، خوف اور تسلط کے بیانیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ کہ آج دنیا بھر کی حکومتیں، چاہے وہ مغربی ہوں یا مشرقی، ایک جیسے رویے اپناتی نظر آتی ہیں، جو کہ جبر و تسلط اور غیر جوابدہی پر مبنی ہیں۔مغربی دنیا میں اختلافِ رائے کی گنجائش میں کمی
فاطمہ بھٹو نے اس بات کی تائید کی کہ مغربی دنیا، جہاں اختلافِ رائے کی گنجائش تھی، اب وہ تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والوں پر کریک ڈاؤن، طلبہ کی ڈگریاں ختم ہونا، گرفتاریوں کا سلسلہ، حتیٰ کہ زندگیوں کا خطرے میں پڑ جانا، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ حکومتیں اور کارپوریشنز مل کر اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
مسئلہ فلسطین، جبر کے ایک سانچے کے طور پر
فاطمہ بھٹو کا کہنا تھا کہ فلسطین صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہا، وہ اب ایک مثال بن گیا ہے، جو دنیا کو بتا رہا ہے کہ طاقتیں کس حد تک ظلم کا نفاذ کر سکتی ہیں، اور اس ظلم کو بین الاقوامی حمایت کیسے مل سکتی ہے، یا اس سے چشم پوشی کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک جمہوری ملک یا اس کے حامی دنیا کے سامنے بے رحمی کا مظاہرہ کر کے کامیاب ہو سکتے ہیں، تو یہی ماڈل کہیں اور بھی نافذ کیا جا سکتا ہے: ہسپتالوں، سکولوں، گھروں پر بمباری، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری، یہ سب نمونہ بن کر دوسری تحریکوں جیسے ماحولیاتی، نسلی، یا صنفی حقوق والوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک جو ایک نسل کش ریاست کو فنڈنگ اور تعاون فراہم کر رہے ہیں، کیا وقت آنے پر وہ اپنے ملکوں میں یہی کچھ نہیں کریں گے؟
فلسطین کے ساتھ فاطمہ بھٹو کا دیرینہ تعلق
فاطمہ بھٹو نے اپنے بچپن کے مشاہدات کا ذکر کیا کہ وہ شام میں پروان چڑھیں، اور چھوٹی عمر میں ہی ان کے سامنے ایسے مناظر تھے جس میں انہوں نے فلسطینی بچوں کو پتھروں کے ساتھ ٹینکوں سے مقابلہ کرتے دیکھا گیا۔ ان کے لیے فلسطین ایک انسانی معاملہ ہے، یہ صرف مذہبی یا نسلی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی ایک جامع مثال ہیں۔ جب ایک قوم کو اس کے گھر سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، جب بچوں کو قید یا تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے، تو یہ خطرہ کہیں بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پانچ سال کی تھیں جب انہوں نے فلسطینی بچوں کو گولیوں کی زد میں دیکھنا شروع کیا اور اب وہ تینتالیس سال کی عمر میں بھی وہی منظر دیکھ رہی ہیں۔
میڈیا پر عوامی اعتماد کا انحطاط
فاطمہ نے کہا کہ روایتی میڈیا نے عموماً حقائق کو مسخ کیا، زبان کا غلط استعمال کیا، اور بعض بیانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مثال کے طور پر جب بھوک سے مرنے والے بچوں کی خبریں آئیں تو میڈیا نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جو اصل منظر نامے سے متصادم تھا۔ اس طرح کی رپورٹنگ نے عوام کا میڈیا پر اعتماد کم ترین سطح تک گرا دیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر میڈیا کا کردار تباہ ہو رہا ہے اور یہ ایک بہت سنجیدہ خطرہ ہے کیونکہ احتسابی عمل ٹوٹ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو ان خدشات سے پاک ہو۔
انصاف و احتساب اور مغربی دنیا کا دوہرا معیار
فاطمہ نے سوال اٹھایا کہ جب مضبوط ترین طاقتوں کے رہنما بین الاقوامی قوانین اور عدالتوں کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے تو آپ کیسے ان اداروں پر اعتماد کریں؟ انہوں نے عراق اور افغانستان کی مثالیں دیں جب طاقتور مغربی سیاسی رہنماؤں کے خلاف وہی احتساب نہیں ہوا جو دوسرے کمزور رہنماؤں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افریقی رہنماؤں اور مغربی رہنماوں سے نمٹنے کے حوالے سے معیار مختلف کیوں ہے؟ یہ دوہرے معیار عالمی انصاف کو غیر مؤثر بناتے ہیں اور لوگوں میں ناامیدی پیدا کرتے ہیں۔
جمہوریت اور ’’گہری ریاست‘‘ کا تصور
میزبان نے پوچھا کہ کیا ہم اپنے ملکوں میں ایک ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا منظر دیکھ رہے ہیں؟ فاطمہ کا جواب یہ تھا کہ شاید 'گہری ریاست' کوئی الگ چیز نہیں، ریاست ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے۔ فرق بس یہ تھا کہ پہلے ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید دنیا کے کسی حصے میں صورتحال بہتر ہے۔ اب وہ تصور ٹوٹ گیا ہے۔ صدر یا پارلیمنٹ بدل لینے سے انتظامی مشینری تبدیل نہیں ہوتی، طریقہ ہائے کار وہی رہتے ہیں۔ جب تک ہم بنیادی طاقت کے ڈھانچوں کو چیلنج نہیں کرتے، صورتحال ایسے ہی رہے گی۔
احتجاجی تحریکیں اور عالمی یکجہتی
فاطمہ نے احتجاج کی طاقت پر زور دیا مگر خبردار کیا کہ ثقافتی اظہار اکیلے کافی نہیں۔ ایسی تحریکیں کچھ حد تک مؤثر رہتی ہیں اور لوگوں کو منظم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، مگر عملی سیاسی صورتحال کو بدلنے کے لیے نظم، قربانی، اور نئے سیاسی اداروں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل کی تخلیقی طاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے مثال دی کہ جیسے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ایک سیاسی جلسے کے ٹکٹ خرید کر اسے متاثر کیا، اس طرح کے تخلیقی حربے ریاستی طاقت کے خلاف زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
انصاف کے عالمی ادارے اور گلوبل ساؤتھ
ترقی پذیر یا مغرب مخالف ممالک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فاطمہ بھٹو نے کہا کہ انہوں نے کبھی عالمی اداروں یا مغربی انصاف کے ڈھانچوں پر بھروسہ نہیں کیا، البتہ ایک قسم کا یہ رومانوی تصور ضرور موجود رہا ہے کہ دنیا میں ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں قانون واقعی کام کرتا ہے۔ اب وہ تاثر ختم ہو رہا ہے اور لوگ جان چکے ہیں کہ دنیا میں کوئی ’’محفوظ جزیرہ‘‘ نہیں ہے۔ یہ احساس لوگوں کو متحد تو کر رہا ہے مگر مایوسی بھی پیدا کر رہا ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ
فاطمہ بھٹو نے واضح کیا کہ مستقبل خوفناک بھی ہو سکتا ہے مگر بالکل مایوسی بھی نہیں ہے۔ انہیں نوجوانوں، اجتماعی تحریکوں، اور نئے روابطی طریقوں میں امید دکھائی دیتی ہے۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے میزبان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ قربانی درکار ہوگی اور ہمت دکھانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مشاہدے اور عملی تجربہ میں فرق ہے، جو انہوں نے تب محسوس کیا جب وہ اپنی کتاب کے سلسلہ میں ایک فلسطینی صحافی خاتون سے ملیں جو حال ہی میں ماں بنی تھیں، تو انہیں پتہ چلا کہ وہ خیمے اور بھوک کی زندگی میں اپنے بچے کے ساتھ کیسے رہ رہی ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے ایک بار پھر زور دیا کہ ریاستی طاقت کے خلاف بقا کے لیے لوگوں کو منظم ہونا ہوگا، ثقافت اور میڈیا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر اصل تبدیلی سیاسی تنظیم اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے آئے گی۔
انٹرویو کے کلیدی نکات
- ریاستی تشدد عالمی سطح پر سب سے بڑا خطرہ ہے۔ غیر ریاستی تشدد پر تمام تر توجہ نے اس مسئلے کو چھپائے رکھا۔
- بین الاقوامی انصاف اور میڈیا کے دوہرے معیار نے عوامی اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔
- فلسطین ایک نمونہ ہے، جو کچھ وہاں ہو رہا ہے، وہ کل کسی اور جگہ بھی دہرایا جا سکتا ہے۔
- سیاست میں مذہب کے حوالے سے صرف منفی باتیں کی جاتی ہیں۔ حقیقی مذہبی اقدار جیسے رحم، انصاف، رفاہ کو فراموش کیا جاتا ہے۔
- احتجاج، ثقافت، اور نئی ٹیکنالوجیز بہت اہم ہیں، مگر وہ کافی نہیں ہیں، مجموعی اور منظم سیاسی تبدیلی ضروری ہے۔
- امید دراصل نوجوانوں، عوامی یکجہتی، اور تخلیقی عمل میں ہے۔ اجتماعی قوت سے تبدیلی ممکن ہے مگر اس کے لیے قربانی درکار ہے۔