جدیدیت کے بھیس میں مغربیت
غلبہ اور اثر اندازی کی کشمکش
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ انسان کبھی محض اپنی ذاتی زندگی یا ماحول تک محدود نہیں رہتا۔ یہ نفسیات انفرادی سطح پر بھی پائی جاتی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم، تہذیب یا فکر کو غلبہ ملتا ہے تو وہ لازماً دوسرے معاشروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ افراد کی طرح قومیں بھی اپنے اثر و نفوذ کو وسیع کرنے کی جستجو میں رہتی ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات بھی اسی حقیقت کی گواہ ہیں کہ دین کا پیغام صرف فرد کی نجی زندگی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اجتماعی نظامِ عدل اور نظمِ حیات تک پھیلا ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ اسی تناظر میں مذاہب، قوموں اور تہذیبوں کی کشمکش سے بھری پڑی ہے۔ مذاہب کے درمیان جنگوں سے لے کر آج کے فکری معرکوں تک، یہ تصادم کبھی رکا نہیں۔
مذہب سے بظاہر بے نیاز مغربی تہذیب کی نظریاتی یلغار
گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں سے دنیا کو ایک ایسی تہذیب کا سامنا ہے جو خود کو مذہب سے غیر متعلق ظاہر کرتی ہے، مگر درحقیقت اپنے تصورِ حیات کو اسی طرز پر پوری دنیا میں نافذ کرتی ہے۔ انسانی حقوق، جمہوریت، خواتین کی فعالیت، اظہارِ رائے کی آزادی جیسے دلکش عنوانات کے پیچھے ایک مکمل نظریاتی پیکج پوشیدہ ہے۔ ظاہر ہے ان عنوانات پر کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، مگر ان کے پس منظر اور عملی نتائج معاشروں میں تہذیبی اور اخلاقی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔
مغرب اپنے سیاسی تصورات کو بھی اپنی روایات کے ساتھ برآمد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی پارلیمنٹ کی ساڑھے آٹھ سو سال پرانی روایات کا تسلسل آج بھی جاری ہے: پارلیمنٹ کی اصطلاح، چند افراد کا سپیکر کو اٹھا کر اپنی کرسی پر بٹھانا، پارلیمنٹ کے آغاز میں ٹارچوں کے ساتھ عمارت کی جانچ، علامتی ہتھوڑے کا استعمال، یہ سب روایات کی پاسداری کا حصہ ہے۔ مغرب اپنی روایات پر اس حد تک قائم ہے، مگر دوسروں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی روایات ترک کر دیں۔
تعلیم، میڈیا اور فکری اداروں کے ذریعے ذہن سازی
جدید مغربی تہذیب ریاستی اداروں، تعلیمی نصاب، میڈیا اور علوم کو استعمال کر کے دنیا بھر میں اپنے خیالات راسخ کرتی ہے۔ اس عمل کو اقبال نے ’’قلب و نظر کا فساد‘‘ کہا تھا، یعنی سوچنے کے پیمانے اور محسوس کرنے کے زاویے دونوں بدلے جاتے ہیں۔ جب ذہنی سانچہ بدل جائے تو دلیل بھی وہی معتبر محسوس ہوتی ہے جو اسی سانچے سے ہم آہنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا مغربی تصورات کو اکثر ’’معقول‘‘ سمجھ کر قبول کرتی چلی جاتی ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کے تعلیمی نظام کی تقسیم
غلامی کے بعد مسلمان ریاستی وسائل سے محروم ہوئے تو جامع قومی تعلیم کا اپنا نظام تشکیل نہ دے سکے۔ مسلمانوں نے دینی مدارس تو قائم کر لیے تاکہ قرآن و سنت کے علوم کی حفاظت ہو سکے، مگر جدید علوم اور ریاستی نظام انگریزوں کے ہاتھ رہا۔ نتیجہ یہ کہ تعلیمی ڈھانچہ دو واضح حصوں میں بٹ گیا:
- دینی تعلیم: عوام کی نجی کاوش سے چلنے والی، محدود وسائل کی پابند
- دنیاوی تعلیم: ریاست کے پاس، مغربی نگرانی میں، ان کے مقاصد کے مطابق
انگریزی نظامِ تعلیم نے برصغیر کے ذہنوں کو ایسا بدلا کہ مسلمان اپنی تاریخ، اپنی فکری صلاحیت، اور اپنی علمی عظمت تک بھول گئے۔ مفتی سید عدنان کاکاخیل نے ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ مغل دور کے تین عظیم افراد ایک ہی جامع نظامِ تعلیم کے پیداوار تھے: (۱) مجدد الف ثانی (۲) مغل سلطنت کے وزیر نواب سعد اللہ خان (۳) اور تاج محل کے آرکیٹیکٹ احمد معمار۔ یہ اس دور کی شان تھی کہ عالمِ دین، معمار، اور منتظم وغیرہ ایک ہی نصابِ تعلیم پیدا کرتا تھا۔ یہی عظمت غلامی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔
مغربی تہذیب کے علمبردار ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کی اجازت نہیں دیتے
ڈاکٹر غازی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمانوں کی مغرب کے بارے میں کیا رائے ہے، تو انہوں نے تین رویے بتائے:
- مکمل انکار اور رَد
- مکمل قبولیت اور تقلید
- جائز حدود میں استفادہ
ایک کانفرنس کے حوالے سے ڈاکٹر غازی نے بتایا کہ مغربی دانشور اس بات پر دوٹوک تھے کہ ’’Pick & Choose ممکن نہیں، ہمارا پیکج پورا قبول کرنا پڑے گا‘‘۔ چنانچہ ہمارے معاشروں میں ویلنٹائن ڈے سے لے کر دیگر بہت سے معاملات میں مغربی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کھلے عام کیا جا سکتا ہے۔
اخلاقی بحران: جدید تہذیب کی سب سے خطرناک میراث
علامہ محمد اقبال کے مطابق مغرب نے دنیا کو نقصان پہنچانے والی چار چیزیں دیں جن میں سب سے پہلی چیز تصورِ خدا کا خاتمہ اور مادیت کا غلبہ تھا۔ مادیت کے بعد سب سے بڑا دھچکا اخلاقی نظام کا انہدام ہے۔ مفتی سید عدنان کاکاخیل نے ایک مصری عالم کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا جس میں مغربی معاشرے میں پروان چڑھے ایک نوجوان نے اپنی بہن کے بارے میں وہ جملہ کہا جو کسی مشرقی معاشرے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ اخلاقی بحران ہے جو مغربی فکری و تہذیبی یلغار نے پیدا کیا ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ فرق سمجھنا ضروری ہے کہ Modernization (سائنس، ٹیکنالوجی، ترقی) اور Westernization (مغربی تہذیب اور اقدار) دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسلام جدیدیت سے متصادم نہیں، مگر مغربی تہذیب کے اخلاقی و خاندانی ڈھانچے کو قبول نہیں کر سکتا۔
تہذیبی یلغار کا مذہبی پہلو: خفیہ تبلیغ اور مذہب کی تبدیلی
مفتی کاکاخیل نے یہ بھی بتایا کہ این جی اوز کے ذریعے پاکستان کے اندر سب سے زیادہ غریب آبادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جہاں چند سہولتوں کے بدلے لوگ نیا مذہب اختیار کر بیٹھتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تہذیبی اثرات کے پیچھے خالص مذہبی مقاصد بھی کارفرما ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل
سوال یہ نہیں کہ مغرب کیا دے رہا ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا بچا سکتے ہیں۔ اگر اگلی نسل کو مسلمان رکھنا ہے، اخلاق اور ایمان محفوظ رکھنا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی مضبوط رکھنی ہے تو پوری منصوبہ بندی، تعلیمی خود مختاری، اور تہذیبی شعور کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ کام جذبات سے نہیں بلکہ اجتماعی منصوبہ بندی اور فکری بیداری سے ہی ممکن ہے۔