تعلیمی کیریئر کا انتخاب کب اور کیسے ہو؟ فخر الاسلام اور ڈاکٹر ناصر محمود کا مکالمہ
’’پیغام ٹی وی آفیشل‘‘ کے میزبان فخر الاسلام اور پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کے مکالمہ کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ناصر محمود علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ورچوئل یونیورسٹی کے ریکٹر ہیں۔ یہ انٹرویو ۲۲ ستمبر ۲۰۲۵ء کو نشر ہوا۔
تعارف
تعلیم صرف ڈگری یا روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کے شعور، کردار، اور زندگی کے نصب العین کا تعین کرنے کا عمل ہے۔ اسی زاویے سے ایک فکری نشست میں معروف ماہرِ تعلیم فخر الاسلام صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر صاحب تعلیمی منصوبہ بندی، پالیسی سازی، اور تدریس کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اس مکالمے کا مرکزی موضوع تھا: ’’تعلیمی کیریئر کا فیصلہ کب اور کیسے کیا جائے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو نہ صرف طلبہ بلکہ والدین، اساتذہ اور تعلیمی رہنماؤں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے۔
فخر الاسلام صاحب نے گفتگو کا آغاز اس احساس سے کیا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر کیریئر کا انتخاب اس طرح سے کیا جاتا ہے جس سے زندگی کے اس اہم ترین فیصلہ کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ انہوں نے گفتگو کے دوران مختلف سوالات اور مشاہدات کے ساتھ اپنے تاثرات بھی پیش کیے۔ ڈاکٹر ناصر محمود نے متوازن اور حقیقت پسندانہ انداز میں تعلیمی کیریئر کے انتخاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، چاہے وہ طالب علم کے ذاتی رجحانات ہوں، والدین کی توقعات ہوں، یا نظامِ تعلیم کی ساخت ہو، ڈاکٹر صاحب نے اسباب اور نتائج کے ساتھ ساتھ ماہرانہ انداز میں حل بھی تجویز کیے۔
میزبان کے سوالات
فخر الاسلام صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کے سامنے چند بنیادی سوالات رکھے:
- ایک طالب علم کو اپنی تعلیمی سمت یا کیریئر کا فیصلہ کس مرحلے پر کرنا چاہیے؟
- کیا یہ فیصلہ بچپن میں والدین کی رہنمائی سے ہونا چاہیے، یا طالب علم کو خود شعور کی عمر میں پہنچ کر اپنی راہ متعین کرنی چاہیے؟
- ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ کی کیریئر کونسلنگ کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟
- موجودہ دور میں تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہیے: صرف نوکری حاصل کرنا یا علم و مہارت کے ذریعے خود کو معاشرے کا فعال رکن بنانا؟
- اگر کوئی طالب علم غلط مضمون یا غلط پیشہ چُن لے، تو کیا وہ بعد میں اپنا رخ بدل سکتا ہے؟
- اور سب سے اہم: والدین، اساتذہ اور نظامِ تعلیم، یہ تینوں کس طرح مل کر ایک ایسی راہ متعین کر سکتے ہیں جو بچے کی صلاحیت، دلچسپی، اور معاشرتی ضرورت میں توازن قائم کرے؟
مہمان کے جوابات و آراء
پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے ان سوالات کے جوابات مدلل، متوازن اور بصیرت افروز انداز میں دیے۔ انہوں نے کہا کہ کیریئر کا فیصلہ کسی ایک دن یا مرحلے میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے جو بچپن سے شروع ہوتا ہے۔ بچے کی دلچسپیوں، مشاہدے، اور تجربات سے رفتہ رفتہ ایک سمت ابھرتی ہے۔ ان سب مراحل میں والدین کا کردار یہاں کلیدی ہے یہ کردار فیصلہ تھوپنے کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ رہنمائی کے طور پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے تعلیمی نظام میں ایک بڑی کمی یہ ہے کہ کیریئر کونسلنگ کو ادارہ جاتی حیثیت نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر طلبہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے محض دوسروں کی نقل یا سماجی دباؤ میں کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مثالی صورت یہ ہوگی کہ اسکول اور کالج کے ابتدائی مرحلوں میں بچوں کی رجحان شناسی (aptitude testing) کی جائے تاکہ وہ اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔
ڈاکٹر ناصر نے زور دیا کہ تعلیمی کیریئر کا مقصد صرف معاشی فائدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے۔ اگر کوئی طالب علم کسی مضمون میں دلچسپی نہیں رکھتا تو وہ کبھی حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا، چاہے اس کے گریڈ کتنے ہی اچھے ہوں۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہے کہ تعلیم کسی عہدے یا تنخواہ کا راستہ نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے، خود کو اور معاشرے کو بہتر بنانے کی ذمہ داری۔’’
ایک اور نکتے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اتفاق کیا کہ بعض اوقات انسان ابتدا میں غلط راہ پر چل پڑتا ہے، مگر زندگی میں تبدیلی ہمیشہ ممکن ہے۔ اگر کسی طالب علم کو احساس ہو کہ اس کا انتخاب درست نہیں، تو اسے نیا راستہ اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔
پروفیسر صاحب نے اساتذہ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے نزدیک ایک اچھا استاد وہ ہے جو محض سبق نہیں پڑھاتا بلکہ طالب علم کو سمجھ کر اس کا مستقبل دیکھنے میں مدد دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تعلیمی ادارے، اساتذہ، والدین، معاشرہ، سب مل کر ایک متوازن فضا پیدا کریں گے، تب ہی نوجوان صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کر پائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کام کرنے والے ماہرین زیادہ تر بیرون دنیا سے وہاں گئے ہوئے ہیں، جو وہاں اس لیے کامیاب ہیں کہ انہیں ہر قسم کی سہولیات اور مواقع وہاں مل جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا ماحول ہمارے ہاں بن جائے تو یہاں کے ماہرین بھی توقعات کے مطابق نتائج دے سکتے ہیں۔
اختتامی تاثر
گفتگو کے اختتام پر یہ احساس نمایاں تھا کہ یہ محض ایک گفتگو نہیں بلکہ ایک فکری رہنمائی تھی، ایک ایسا مکالمہ جو ہر والدین، استاد اور طالب علم کو خود سے سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ فخرالاسلام صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گفتگو ہمارے معاشرے میں ایک تعلیمی بیداری پیدا کر سکتی ہے۔
اس نشست کی گفتگو ناظرین کے لیے جو پیغام چھوڑتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کیریئر کا فیصلہ شعور، مشاہدہ، اور درست رہنمائی کے ساتھ کیا جائے تو یہ صرف فرد کی نہیں بلکہ معاشرے کی بہتری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اور یہ کہ تعلیم کا اصل مقصد صرف یہ سمجھنا نہیں ہے کہ ’’کیا بننا ہے؟‘‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ ’’کیوں بننا ہے؟‘‘۔