پاکستان میں عدالتی نظام ایک درجہ بندی پر مشتمل ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عدالتیں چھوٹے قانونی تنازعات سے لے کر اہم دستوری معاملات تک وسیع پیمانے پر مسائل کو نمٹا سکیں۔ یہ درجہ بندی کچھ اس طرح ہے:
(۱) سپیریئر کورٹس (اعلیٰ عدلیہ)
سپریم کورٹ آف پاکستان (عدالتِ عظمیٰ)
ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت جسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دستورِ پاکستان کی تشریح کے ساتھ ساتھ اس کی پاسداری اور اس کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے حوالے سے مقدمات کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کسی قانون یا ضابطے کو دستور سے متصادم سمجھتے ہوئے ختم کر سکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ کر سکتی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے پاس بعض نوعیت کے مقدمات کی براہ راست سماعت کرنے کا اختیار ہے، جیسے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق مقدمات وغیرہ، یا سرکاری اداروں کے معیاری کام کو یقینی بنانے کے لیے رٹ جاری کر سکتی ہے۔ اسی طرح حکومتوں اور صوبوں کے درمیان اختلافات، مثلاً وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازعات کی سماعت اور فیصلہ کر سکتی ہے۔ صدر پاکستان، صوبائی گورنر، اور حکومت کی طرف سے بھیجے گئے قانونی معاملات پر مشاورتی رائے دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کر سکتی ہے، اور اسے نچلی عدالتوں کی سرگرمیوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنے کا اختیار حاصل ہے، مثلاً خصوصی عدالتوں اور ٹربیونلز کے فیصلوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ توہین عدالت کی سزا دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سربراہ کو چیف جسٹس آف پاکستان بھی کہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کو یہ اختیارات پاکستان کے دستور کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دیے گئے ہیں کہ وہ ملک میں اعلیٰ ترین عدالت کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔ مجموعی طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان ملک میں دستور و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ (وفاقی شرعی عدالت)
وفاقی شرعی عدالت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملک میں رائج قوانین اسلامی شریعت کے مطابق ہوں۔ اگر کوئی قانون اسلامی اصولوں کے خلاف پایا جاتا ہے تو یہ عدالت اسے غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ عدالت ہائی کورٹس کے شرعی بنچوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سن سکتی ہے۔ اسلامی قانون سے متعلق نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ حکومت کو اسلامی قانونی معاملات پر مشاورتی رائے فراہم کر سکتی ہے۔ حکومتی حکام کو اسلامی قانون کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بینکنگ، تجارت اور تعلیم سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی احکام کی پیروی کی جائے۔ یہ عدالت اپنے فیصلے شائع کرتی ہے تاکہ وکلاء، ججز، اور قانونی اسکالرز مستقبل میں اسی طرح کے مقدمات میں اسلامی قانون کی تشریح اور ان کا اطلاق کرنے کے لیے ان فیصلوں سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
ہائی کورٹس (عدالتِ عالیہ)
پاکستان میں پانچ ہائی کورٹس ہیں: ایک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے ہے۔ اور پھر ہر صوبہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے لیے ایک ایک ہے۔ کوئی بھی ہائی کورٹ اپنے صوبہ کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ ہائی کورٹ دستوری اور قانونی دفعات کی تشریح کر سکتی ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کرنے والے قوانین کو ختم کر سکتی ہے۔ ماتحت عدالتوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کر سکتی ہے، ان عدالتوں سے مقدمات واپس لے سکتی ہے، کسی مقدمہ کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کر سکتی ہے۔ سرکاری حکام کو ہدایات جاری کر سکتی ہے۔ عمومی طور پر ہائی کورٹس کا اپنے اپنے صوبوں میں دیوانی اور فوجداری مقدمات کا دائرہ اختیار ہے۔ ہائی کورٹ کے کسی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
(۲) سب آرڈینیٹ کورٹس (ماتحت عدلیہ)
ڈسٹرکٹ / سیشن کورٹس (ضلعی عدالتیں)
یہ عدالتیں ضلعی سطح پر دیوانی، فوجداری اور محصولات کے معاملات سمیت وسیع پیمانے پر مقدمات کو نمٹاتی ہیں۔ ان میں کچھ سول کورٹس ہوتی ہیں یعنی وہ عدالتیں جو دیوانی مقدمات کے لیے خاص ہوتی ہیں جیسے جائیداد کے تنازعات، عائلی قوانین، اور معاہدات کی خلاف ورزی وغیرہ۔ اور کچھ کریمنل کورٹس ہوتی ہیں یعنی وہ عدالتیں جو فوجداری یا مجرمانہ مقدمات کے لیے خاص ہوتی ہیں جیسے چوری، قتل اور حملہ وغیرہ۔
سپیشل کورٹس / ٹربیونلز (خصوصی عدالتیں)
یہ عدالتیں مخصوص قسم کے معاملات کے حوالے سے قائم کی جاتی ہیں، جیسے کہ بینکنگ، انشورنس،ٹیکسیشن، کسٹم، ایکسائز، سمگلنگ، منشیات، بدعنوانی، دہشت گردی، ماحولیات، اور ملازمین و صارفین کا تحفظ وغیرہ۔ مثال کے طور پر لیبر کورٹس (مزدوری کے تنازعات)، فیملی کورٹس (خاندان سے متعلقہ معاملات جیسے طلاق، بچوں کی تحویل اور دیکھ بھال)، کنزیومر کورٹس (صارفین کی شکایات و مشکلات)، ریونیو کورٹس (مالیات کے متعلق معاملات)، جووینائل کورٹس (۱۸ سال سے کم عمروں کے مقدمات) وغیرہ۔
جوڈیشل اکیڈمیز:
یہ ادارے عدلیہ کی تربیت اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ججوں، وکلاء، اور دیگر قانونی پیشہ ور افراد کے لیے خصوصی تعلیم اور تربیتی پروگرام فراہم کرتے ہیں۔ مختلف قانونی شعبوں میں خصوصی تربیت فراہم کرتے ہیں، جیسے آئینی قانون، فوجداری قانون، دیوانی قانون، اور اسلامی قانون۔ اس سے ان کے متعلقہ علاقوں میں قانونی پیشہ ور افراد کی مہارت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
(۳) ججوں کی تقرری
صدر پاکستان اپنے دستوری اختیار کے ساتھ ججوں کی تقرریاں کرتے ہیں، تاہم اس عمل میں وزیر اعظم، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، اور ججوں کی تقرریوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ مشاورت شامل ہے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ایک قومی کمیشن ہے جو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے لیے ججوں کی تقرری کی سفارش کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس میں سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اور ہائی کورٹس شامل ہیں۔ یہ نظام آئینی ترامیم کے ذریعے قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد عدالتی تقرریوں کے لیے زیادہ شفاف اور میرٹ پر مبنی عمل کو یقینی بنانا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، جو کہ ججوں اور وکلاء کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، امیدواروں کا ان کی قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر جائزہ لے کر سفارشات تیار کرتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی ان سفارشات کا جائزہ لے کر انہیں وزیر اعظم کے پاس بھیجتی ہے۔ وزیر اعظم اس پر غور و خوض کے بعد حتمی تقرری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجتے ہیں۔
(۴) چند عدالتی اصطلاحات
عدالتی عمل سے منسلک افراد
جسٹس / جج / مجسٹریٹ (Justice/Judge/Magistrate): عدالت کی سربراہی اور مقدمات کا فیصلہ کرنے والا فرد یا قاضی۔ جسٹس اور جج اعلیٰ عدالتوں کی سربراہی کرتے ہیں، جبکہ مجسٹریٹ نچلی سطح کی عدالتوں کی۔
بنچ (Bench): ججوں کا ایک گروپ جو مشترکہ طور پر عدالتی مقدمہ سنتے ہیں۔ یہ عموماً اپیل عدالتوں یا خصوصی عدالتوں میں ہوتا ہے۔
ایپلیٹ (Appellate): وہ عدالت یا اس کا بنچ جس کے پاس نچلی عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لینے اور اسے تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ عدالت ان اپیلوں کو نمٹاتی ہے جن کے ذریعے نچلی عدالت کے فیصلہ کو تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی ہو۔
اٹارنی جنرل (Attorney General): قانونی معاملات میں حکومت کا مشیر اور نمائندہ۔
پبلک پراسیکیوٹر (Public Prosecutor): سرکاری وکیل جو فوجداری مقدمات میں مختلف حوالوں سے تعاون کرتا ہے، مثلاً تفتیشی افسران کی رہنمائی، گواہوں کی پرکھ، اور ثبوتوں کے معیار کی جانچ وغیرہ۔
لیگل ایڈ کونسل (Legal Aid Counsel): وہ وکلاء جو ایسے افراد کو قانونی مدد فراہم کرتے ہیں جو اپنے طور پر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ رفاہی تعاون کے طور پر مختلف تنظیمیں کمزور اور پسماندہ افراد کو مفت قانونی نمائندگی کی سہولت مہیا کرتی ہیں تاکہ انہیں انصاف اور قانونی مدد تک رسائی حاصل ہو۔
بیلف (Bailiff): وہ عدالتی افسر جو کمرۂ عدالت میں نظم و نسق برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
لائر (Lawyer/Advocate): قانون کی تعلیم و تربیت کا حامل وکیل جو عدالت میں مؤکلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
کلائنٹ (Client): مؤکل جو قانونی معاملات میں اپنی نمائندگی کے لیے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ وکیل عدالت میں مؤکل کی طرف سے پیش ہوتا ہے اور اس کے مقدمہ کے تمام قانونی پہلوؤں کو سنبھالتا ہے۔
پلینٹف (Plaintiff): مدعی، یعنی وہ شخص یا فریق جو عدالت میں کسی دوسرے شخص یا فریق کے خلاف مقدمہ شروع کرتا ہے۔
ڈیفنڈنٹ (Defendant): مدعا علیہ، یعنی وہ شخص یا فریق جس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ جس پر مدعی کی طرف سے کوئی غلط کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
قانونی دستاویزات
پٹیشن (Petition): مدعی کی طرف سے عدالت کی خدمت میں کارروائی کے لیے پیش کی گئی باضابطہ درخواست۔
پلی (Plea): عرضی، یعنی مجرمانہ الزام لگنے پر مدعا علیہ کی طرف سے عدالت کی خدمت میں پیش کیا گیا باضابطہ جواب۔
ججمنٹ (Judgement): کسی مقدمہ میں عدالت کا فیصلہ۔
رِٹ (Writ): عدالت کا حکم جس کے ذریعے کسی شخص یا سرکاری ادارے کو کوئی اقدام کرنے، یا کسی اقدام سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی ہو۔
قانونی عمل یا طریقہ کار
لِٹیگیشن (Litigation): قانونی چارہ جوئی، یعنی عدالتی نظام کے ذریعے تنازعہ کو حل کرنے کا عمل۔
ٹرائل (Trial): عدالتی کارروائی، یعنی عدالت میں ثبوت اور دلائل پیش کرنے کا عمل۔
بیل (Bail): ضمانت، یعنی اس شرط پر حراست سے رہائی کہ مدعا علیہ مقدمے کی کارروائی کے لیے عدالت میں واپس آئے گا۔
سینٹنس (Sentence): الزام ثابت ہونے کے نتیجے میں مجرم پر عائد کی گئی سزا۔
اپیل (Appeal): نچلی عدالت کے فیصلہ پر نظرثانی کے لیے اعلیٰ عدالت سے کی گئی درخواست۔
جوریسڈکشن (Jurisdiction): دائرۂ اختیار، یعنی موضوع یا جغرافیائی اعتبار سے عدالت کا اختیار کہ وہ کونسے مقدمات کو سن سکتی ہے۔
یہ پاکستانی عدالتی نظام میں استعمال ہونے والی چند عام اصطلاحات ہیں، مخصوص قانونی صورتحال کے لحاظ سے بہت سی دوسری اصطلاحات ہیں جن کا سامنا کسی عدالتی عمل کے دوران ہو سکتا ہے۔