ہندوستان اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات صدیوں پرانے ہیں، اور تجارتی راستوں اور ثقافتی تبادلوں کے ذریعے ان کے باہمی روابط کے حوالے سے دونوں خطوں کے ایک دوسرے پر اثرات تاریخ کا حصہ ہیں۔ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دور کے تعلقات کا آغاز 1947ء میں برطانوی راج سے ہندوستان کی آزادی کے بعد ہوا جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ 1955ء کے آخر میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود نے بھارت کا دورہ کیا جس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا ہی سے اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی اور سعودی عرب بھارت کو تیل مہیا کرنے والا ایک اہم ملک بن گیا۔ گزشتہ دہائیوں میں بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کئی اہم پیشرفتوں کے حوالے سے نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔ سعودی عرب بھارت کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے، جبکہ بھارت سعودی معیشت میں ایک بڑا سرمایہ کار ہے۔ دونوں ممالک نے توانائی اور انفراسٹرکچر سمیت مختلف اقتصادی منصوبوں کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل کے حوالے سے تعاون کیا ہے اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دیا ہے۔
2006ء میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کا دورہ بھارت ہوا جس نے دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ یہ دورہ ایک اہم سنگ میل تھا جس میں شاہ عبداللہ اور بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے دہلی اعلامیہ Delhi Declaration پر دستخط کیے۔ 2016ء کے دوران وزیر اعظم مودی کے دورہ سعودی عرب کے دوران شاہ سلمان نے وزیر اعظم مودی کو مملکت کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز ساش‘‘ سے نوازا۔ 2019ء کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو مزید مستحکم کیا۔ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے 2019ء میں اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل کا قیام ہوا جس نے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کیا۔
سعودی عرب بھارت کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار، جبکہ بھارت سعودی عرب کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار بتایا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بنیادی طور پر سعودی عرب سے خام تیل کا حصول ہے جو بھارت کی تیل کی درآمدات کا ایک اہم حصہ ہے۔ جبکہ بھارت سعودی عرب کو مختلف قسم کی مصنوعات مہیا کرتا ہے جن میں انجینئرنگ کا سامان، چاول، پیٹرولیم مصنوعات، کیمیکل، ٹیکسٹائل، کھانے کی مصنوعات اور سرامک پروڈکٹس شامل ہیں۔ مالی سال 2017-2018ء میں دو طرفہ تجارت 27 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ جبکہ جدہ میں کونسلیٹ جنرل آف انڈیا کے مطابق مالی سال 2022-2023ء کے دوران سعودی عرب سے بھارت کو برآمدات 42.03 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں، اور بھارت سے سعودی عرب کو برآمدات 10.72 بلین امریکی ڈالر کی تھیں جو گزشتہ سال (مالی سال 2021-2022ء) کے مقابلے میں 22.48 فیصد زیادہ ہے۔
تیل پیدا کرنے والے بڑے ملک کے طور پر سعودی عرب کا کردار بھارت کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہم رہا ہے۔ جبکہ بھارتی ماہرین اور محنت کشوں کی بڑی تعداد سعودی عرب میں مقیم ہے جو دوطرفہ تعاون کے حوالے سے اہم ہے۔ سعودی عرب میں لاکھوں بھارتی قیام پذیر ہیں جو مملکت میں تارکین وطن کی سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔
مجموعی طور پر بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اقتصادی تعاون اور دوطرفہ سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ عزم پر مشتمل ہیں، اور ان تعلقات کو وسعت دینے اور تعاون کے نئے شعبوں کی تلاش کے لیے کوششیں جاری رہتی ہیں۔ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں خصوصاً سیاسی اور اقتصادی دائروں میں تعاون کے حوالے سے تعلقات دیرینہ اور مضبوط ہیں۔