باراک حسین اوباما: شخصیت، امریکی نظام، سیاسی کردار

 باراک حسین اوباما امریکہ کی تاریخ میں ایک اہم اور منفرد شخصیت کے طور پر ابھرے۔ وہ 4 اگست 1961ء کو ہوائی کے شہر ہونولولو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کینیا سے تعلق رکھنے والے باراک اوباما سینئر تھے جبکہ والدہ این ڈنم امریکی تھیں۔ اوباما نے ابتدائی تعلیم ہوائی اور انڈونیشیا میں حاصل کی، بعدازاں کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ لاء سکول سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی جہاں وہ ہارورڈ لاء ریویو کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کمیونٹی آرگنائزر کے طور پر کیا اور پھر وکالت اور تدریس سے وابستہ رہے۔ 1996ء میں وہ اِلینوائے کی ریاستی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 2004ء میں امریکی سینیٹ تک پہنچے۔ 2008ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی انتخاب جیت کر وہ امریکہ کے پہلے افریقی نژاد صدر بنے اور مسلسل دو مدتوں تک (2009ء تا 2017ء) وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دیں۔ اوباما اپنی متوازن شخصیت، شفاف گفتار اور امید افزا سوچ کے باعث عالمی سطح پر بھی پہچانے گئے۔ اپنی اہلیہ مشیل اوباما اور دو بیٹیوں مالیا اور ساشا کے ساتھ ان کی خاندانی زندگی کو امریکی معاشرے میں ایک قابلِ تقلید مثال سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں امریکہ کی عالمی پالیسیوں پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، خاص طور پر خارجہ مداخلت، جنگی حکمتِ عملی، اور اقتصادی دباؤ کے حوالے سے۔ اگرچہ امریکی صدر دنیا کی طاقتور ترین کرسی پر براجمان ہوتا ہے لیکن فیصلہ سازی کا عمل محض اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کانگریس، پینٹاگون، خفیہ ادارے، طاقتور لابیاں اور بین الاقوامی حالات سب مل کر امریکی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اس نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے صدر کے پاس قیادت اور اثرانداز ہونے کی طاقت تو ضرور ہوتی ہے، مگر وہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتا۔ سیاہ فام امریکی صدر باراک اوباما کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ان کے دور میں مشرقِ وسطیٰ کی پالیسیوں، عراق و افغانستان کی جنگوں کے اثرات، اور ڈرون حملوں پر دنیا بھر میں تنقید ہوئی، جو کہ ایک وسیع تر حکومتی ڈھانچے کے فیصلوں اور تقاضوں کا حصہ تھے، چنانچہ اوباما کے اقدامات کو ان کے انفرادی نظریات کے بجائے اس نظام کی حدود اور ترجیحات کے تحت سمجھنا زیادہ درست ہو گا۔

اس کے باوجود اوباما نے اپنے دور میں کچھ ایسے اقدامات بھی کیے جنہیں مثبت اور اصلاحی کوششوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے نمایاں ان کا ہیلتھ کیئر ریفارم ’’اوباما کیئر‘‘ تھا جس نے لاکھوں امریکیوں کو صحت کی سہولتوں سے آراستہ کیا اور نچلے طبقے کے لیے انشورنس تک رسائی آسان بنائی۔ انہوں نے ماحولیات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے پیرس کلائمیٹ معاہدے میں امریکہ کو شامل کیا، جس سے ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی اتفاقِ رائے کو تقویت ملی۔ اسی طرح ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی ان کے دور کے نمایاں اقدامات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان پالیسیوں کے ذریعے انہوں نے کشیدگی کو کم کرنے اور عالمی تعاون کو بڑھانے کی کوشش کی۔ انسانی حقوق اور نسلی مساوات کے معاملات پر بھی ان کے دور میں بات چیت کو فروغ ملا، جس نے امریکہ کی داخلی سیاست اور عالمی تاثر دونوں پر اثر ڈالا۔

یوں باراک اوباما کی شخصیت اور دورِ صدارت کو ایک ہی وقت میں دو زاویوں سے دیکھنا چاہیے: ایک طرف وہ ایک پُرامید اور مثبت سوچ رکھنے والے رہنما نظر آتے ہیں جنہوں نے اصلاحات کی کوششیں کیں، اور دوسری طرف وہ اسی امریکی نظام کا حصہ تھے جس کی اپنی حدود اور تقاضے ہیں۔ یہی دوہرا تناظر ان کی قیادت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

سٹیو انسکیپ کا انٹرویو

یہ انٹرویو دسمبر 2016ء میں نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) کے معروف صحافی سٹیو انسکیپ نے اُس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے کیا۔ یہ گفتگو اُس وقت کے سیاسی ماحول، 2016ء کے صدارتی انتخابات، امریکی معاشرتی تقسیم، روسی مداخلت، ڈیموکریٹک پارٹی کی حکمتِ عملی، اور مستقبل کے امکانات پر مبنی تھی۔ ایسا مکالمہ جس میں سوالات اور جوابات مل کر ایک جامع بیانیہ تشکیل دیتے ہیں اور جس میں ایک صدر اپنے دورِ حکومت کے تجربات اور ملک کے چیلنجز پر کھل کر روشنی ڈالتا ہے۔

انسکیپ نے گفتگو کا آغاز انتخابات سے کیا۔ انہوں نے اوباما سے پوچھا کہ کیا 2016ء کے نتائج عوامی فیصلے کی قطعی آواز تھے یا اس میں غلطیوں اور حادثات کا بھی دخل تھا؟ پھر انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کی وجہ محض عوام تک پیغام نہ پہنچانا تھی یا خود پارٹی کے بیانیے میں کوئی کمزوری بھی موجود تھی۔ اس دوران انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کیا ڈیموکریٹس مقامی سطح پر لوگوں کے ساتھ ربط قائم کرنے میں ناکام رہے؟

انٹرویو میں انسکیپ نے اوباما کی مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی سوال کیا کہ کیا وہ انتخابی سیاست میں واپس آئیں گے یا صرف ایک مشیر کا کردار ادا کریں گے۔ اس کے بعد بڑی توجہ روسی ہیکنگ پر مرکوز رہی۔ انسکیپ نے دریافت کیا کہ کیا ڈیموکریٹک ای میلز کے لیک ہونے نے انتخابات کو متاثر کیا، اور کیا ٹرمپ کی مہم روسی حکام کے ساتھ ملی ہوئی تھی؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی رکھا کہ کیا امریکہ کو مستقبل میں غیر ملکی سائبر حملوں کے خلاف سخت ردِعمل دینا ہوگا؟

انٹرویو کے آخری حصے میں انسکیپ نے اوباما سے ’’پولیٹیکل کریکٹنس‘‘ یعنی سیاسی درستگی کے موضوع پر بات کی اور پوچھا کہ کیا اس کے باعث آزادئ اظہار متاثر ہو رہی ہے؟ پھر انہوں نے سوال کیا کہ کیا حالیہ برس کی سیاسی کشمکش، جو عوام کے لیے بہت تشویشناک رہی ہے، کسی مثبت نتیجے کی طرف بھی لے جا سکتی ہے؟ مزید یہ کہ بدلتی ہوئی معیشت، نسلوں کی تقسیم، پولیس اور سیاہ فام برادری کے تعلقات جیسے موضوعات پر ملک کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟ آخر میں انسکیپ نے اوباما سے ان خطوط کے بارے میں پوچھا جو انہیں عوام سے موصول ہوئے، خصوصاً انتخابات کے بعد۔

باراک اوباما کا نقطۂ نظر

اوباما نے انتخابات کے نتائج کو ایک پیچیدہ حقیقت قرار دیا۔ ان کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی بنیادی طور پر درست نکات پیش کر رہی تھی لیکن کئی طبقات نے محسوس نہیں کیا کہ یہ نکات ان کی روزمرہ زندگی کے مسائل سے متعلق ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ڈیموکریٹس نے نچلی سطح کی سیاست اور مقامی کمیونٹیز میں اتنی محنت نہیں کی جتنی ریپبلکنز نے کی۔ اوباما نے اپنی ذاتی انتخابی مہم کی مثال دی کہ براہِ راست عوام سے ملنے اور ان کی بات سننے سے اعتماد قائم ہوتا ہے، اور یہی ایک بڑی کمی حالیہ مہم میں نظر آئی۔

روس کے معاملے پر اوباما نے کہا کہ ہیکنگ اور ای میل لیکس نے ماحول کو ضرور متاثر کیا اور میڈیا کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی، جس سے ٹرمپ کو سیاسی فائدہ ہوا۔ البتہ انہوں نے اس پر بات سے گریز کیا کہ ٹرمپ کی ٹیم نے روس سے براہِ راست تعاون کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ اپنے انتخابی نظام کو غیر ملکی مداخلت سے محفوظ کیسے بنائے۔

’’پولیٹیکل کریکٹنس‘‘ پر اوباما نے متوازن موقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ نسلی یا صنفی توہین پر لوگوں کی ناراضگی سامنے آنی چاہیے تو یہ اچھی بات ہے، کیونکہ یہ معاشرتی تہذیب اور شائستگی کی علامت ہے۔ لیکن اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہر اختلافِ رائے کو تعصب کہا جائے تو یہ غلط ہے اور مکالمے کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ محض ذاتی تنقید سے متاثر نہ ہوں، لیکن اگر کوئی شخص توہین کرے تو اس کا جواب ضرور دیں۔

ملک کے سماجی اور معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ معاشی بحران، بڑھتی ہوئی عدمِ مساوات، گلوبلائزیشن، اور ٹیکنالوجی نے عوام کو بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ مستقبل میں جب نوکریاں روبوٹکس اور ڈیجیٹلائزیشن سے متاثر ہوں گی تو نئے مواقع پیدا کرنا، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا بہت ضروری ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کی آبادیاتی حقیقتیں بدل رہی ہیں، ملک زیادہ متنوع ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ اگلی نسل کو معیاری تعلیم، مساوی مواقع، اور یکساں عزت دی جائے۔

نسلی مسائل اور پولیس کے ساتھ سیاہ فام کمیونٹی کے تعلقات پر اوباما نے کہا کہ اس کشیدگی کی جڑیں بہت پرانی ہیں، جبکہ اس فرق کو اب موبائل کیمروں نے مزید واضح کر دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک تکلیف دہ مگر ایک ضروری بحث ہے تاکہ معاشرہ زیادہ انصاف پر مبنی ہو سکے۔

انٹرویو کے اختتام پر اوباما نے بتایا کہ انتخابات کے بعد انہیں کئی خطوط ملے، بعض میں خوف اور مایوسی جھلکتی تھی، خصوصاً اقلیتوں کے حوالے سے۔ لیکن کچھ خطوط ایسے بھی تھے جن میں اُن لوگوں نے، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا، یہ تسلیم کیا کہ اوباما نے عزت و وقار کے ساتھ اپنی صدارت نبھائی۔ ان کے مطابق یہی چیز سب سے زیادہ اہم ہے کہ اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ میں نے منصب کو وقعت دی ہے۔

اوباما نے آخر میں کہا کہ امریکہ کی جمہوریت ’’اعلیٰ درجے کی جمہوریت‘‘ ہے جو صرف انتخابات سے نہیں چلتی بلکہ روزمرہ زندگی میں شہریوں کی ذمہ داری، قیادت، اور خوداحتسابی سے مضبوط ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر قوم اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھے کہ ہم سب مل کر مسائل حل کر سکتے ہیں تو امریکہ مزید طاقتور ہو کر ابھرے گا۔

https://youtu.be/lEjeKrZxDFQ