پاک افغان تعلقات: عمر خان علی شیرزئی کی یادداشتیں

یوٹیوب چینل ’’Voicepkdotnet‘‘ کے ایک سلسلہ ’’Frontline Pakistan‘‘ کے تحت 9 جون 2025ء کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس انٹرویو میں میزبان فرزانہ علی نے سابق پاکستانی سفارتکار عمر خان علی شیرزئی سے پاک افغان تعلقات کی حالیہ تاریخ کے حوالے سے اہم سوالات کیے، جس کے انہوں نے بہت معلومات افزا جوابات دیے۔ پروگرام کا ابتدائیہ اس طرح ہے:

’’فرنٹ لائن پاکستان وِد فرزانہ علی کے ساتھ ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور پلیٹ فارم ہے وائس پی کے ڈاٹ نیٹ کا۔ اور آج ہمارے ساتھ سٹوڈیو میں پوڈکاسٹ کے جو مہمان ہیں وہ ہیں عمر خان علی شیرزئی صاحب۔ سفارتکار رہ چکے ہیں، سفیر رہ چکے ہیں اِن فیکٹ اگر میں کہوں، مختلف ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں، اور ممالک جہاں پر انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی وہ بہت امپورٹنٹ ہیں، ان میں اگر میں چند ایک ممالک کا نام لوں تو افغانستان، سعودی عرب، یو اے ای کے ممالک جو ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ سر! آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہماری دعوت قبول کی اور آج آپ ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘

فرزانہ علی کے سوالات

میزبان فرزانہ علی نے گفتگو کا آغاز افغانستان سے متعلق حالیہ دو تین اہم پیش رفتوں پر سوالات سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پاکستان سے ایک وفد افغانستان گیا، پھر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ایک وفد کے ساتھ وہاں گئے، اور اس کے بعد چین میں مذاکرات ہوئے جہاں وفود کا تبادلہ ہوا اور کئی اہم امور زیرِ بحث آئے۔ فرزانہ علی نے پوچھا کہ ان تمام پیشرفتوں کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس کے بعد انہوں نے افغان عبوری حکومت کے اندر گروپ بندی پر سوال کیا، خاص طور پر قندھار گروپ اور کابل کے لوگوں کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فرق کا ذکر کیا، اور پوچھا کہ کیا واقعی یہ تقسیم اتنی گہری ہے؟ انہوں نے مزید استفسار کیا کہ اگر ماضی میں ملا عمر پاکستان کے قریب سمجھے جاتے تھے تو اب ان کے بیٹے ملا یعقوب پاکستان سے کیوں خفا ہیں؟ کیا یہ ہماری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا بھارت کے اثر و رسوخ کا؟ پھر انہوں نے چین کے کردار اور اس کی طرف سے افغانستان کو دیے گئے ’’انتباہ‘‘ پر بھی سوال اٹھایا کہ آیا یہ مؤثر ہوگا؟ فرزانہ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ سپر پاورز کے ماضی کے اثرات اب کم ہوں گے یا نہیں، اور افغانستان کے بارے میں پاکستان کی اپنی پالیسی کے فقدان پر رائے مانگی۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا پاکستان نے افغانستان کو ہمیشہ برابری کی بنیاد پر ایک خودمختار ملک سمجھا ہے، یا بعض حلقے اسے پانچواں صوبہ تصور کرتے رہے ہیں؟ گفتگو کے آخر میں میزبان فرزانہ علی نے عمر خان علی شیرزئی سے ان کے مزار شریف اور قندھار کے ادوار کے قصے سنانے کو کہا، خاص طور پر ملا عمر سے ملاقاتوں اور پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں۔

عمر خان علی شیرزئی کی گفتگو

مہمان عمر خان علی شیرزئی نے جواب میں کہا کہ حالیہ پیش رفتیں مثبت ہیں کیونکہ ماضی میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کچھ شکوے شکایتیں تھیں جن سے بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ لیکن اب دونوں ممالک کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کا فائدہ اتحاد میں ہے۔ اس لیے پاکستان نے پہل کرتے ہوئے وفود بھیجے اور چین کی ثالثی سے مذاکرات ہوئے جو خوش آئند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے افغان میڈیا پر کافی عرصہ کام کیا اور عوام میں پاکستان مخالف جذبات پیدا کیے، حالانکہ پاکستان نے روسی مداخلت کے بعد پچاس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پناہ دی اور ہر ممکن مدد فراہم کی۔ بھارت نے اس ماحول میں اپنے لیے جگہ بنائی، حتیٰ کہ کچھ طالبان رہنما مختلف بہانوں سے بھارت گئے اور وہاں پاکستان کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان میں دو بڑے دھڑے ہیں: ایک حقانی نیٹ ورک جو پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے، اور دوسرا ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کا گروپ جو حقانی نیٹ ورک پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتا اور بالواسطہ پاکستان پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ تاہم افغانستان کی زمینی حقائق اور تجارتی ضروریات کی وجہ سے وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ بلاشرط مدد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو اب احساس ہوگیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کے خلاف اقدامات نقصان دہ ہیں، اور عوامی دباؤ کے باعث انہوں نے رویہ بدلنا شروع کیا ہے۔

علی شیرزئی نے واضح کیا کہ قندھار کی قیادت میں دولت کی رغبت پیدا ہوئی جس کا بھارت نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، اور بعض مواقع پر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی اور حتیٰ کہ افغان فورسز کو پاکستان پر حملے کرنے کی چھوٹ دی۔ ان کے مطابق طالبان کا نظم اتنا سخت ہے کہ اعلیٰ قیادت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی ممکن نہیں، اس لیے ان حملوں میں قندھار گروپ کی رضامندی شامل رہی۔

انہوں نے کہا کہ دنیاوی مفادات کی رغبت ہر جگہ پائی جاتی ہے، جیسا کہ پاکستان میں بھی بعض سیاسی رہنما اسلامی ریاست کا نعرہ لگا کر کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ ان کے مطابق ملا عمر کے دور میں طالبان حکومت کا طرزِ حکمرانی واقعی اسلامی اصولوں کے قریب تھا، لیکن موجودہ قیادت پر دنیاوی رنگ نظر آتا ہے۔

چین کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان اس وقت تنہا ہے اور صرف چین وہاں بڑے پیمانے پر تیل، گیس اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کر رہا ہے، اس لیے اس کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان، تاجکستان یا اس کے اپنے مفادات کے خلاف استعمال ہو، اور اسی لیے اس نے سخت پیغام بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں وسطی ایشیا سے یورپ تک ریلوے رابطوں کا خواب بھی اسی تعاون سے ممکن ہوگا۔

سپر پاورز کے کردار پر انہوں نے کہا کہ روس کا خطے میں مفاد کم ہوا ہے، امریکہ کو چین مقابلہ نہیں کرنے دے گا، جبکہ ترکی، تاجکستان اور آذربائیجان بھی پاکستان کے قریب آرہے ہیں۔

افغانستان پالیسی پر سوال کے جواب میں انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ پاکستان نے کبھی دیرپا پالیسی نہیں اپنائی بلکہ ہر حکومت نے اپنے حساب سے معاملات چلائے اور افغان عوام کے ذہن بدلنے کی کوشش سنجیدگی سے نہیں کی۔

مزار شریف میں اپنے دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1993ء میں وہاں پاکستان مخالف فضا شدید تھی لیکن انہوں نے جنرل عبدالرشید دوستم کو کئی بار پاکستان بلایا، بے نظیر بھٹو سے ملاقاتیں کروائیں اور حتیٰ کہ انہیں اسلام آباد میں گھر بھی دلوایا۔ اس محنت کے نتیجے میں شمالی افغانستان میں پاکستان مخالف بیانات ختم ہوگئے، سوائے پنجشیر کے جہاں احمد شاہ مسعود کی پاکستان مخالف پالیسی قائم رہی۔

قندھار کے دور کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ 1998ء میں طالبان دور میں وہاں قونصل جنرل تھے اور ملا عمر سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ملا عمر نہایت سادہ، نیک اور سخت گیر منتظم تھے، پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے اور جانتے تھے کہ طالبان کو مضبوط کرنے میں پاکستان کا کردار اہم رہا ہے۔ وہ ہر پاکستانی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرتے اور عمل کرتے۔

علی شیرزئی نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ افغان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرے تاکہ بھارت کو وہاں جگہ نہ ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان قیادت نے بھی اب سمجھ لیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں سے تعلق ختم کرنا ضروری ہے اور اسی لیے انہوں نے حالیہ دنوں میں ان کے خلاف کارروائیاں اور گرفتاریاں کی ہیں۔

https://youtu.be/Xbv9tCPI0tc