مرکبِ اضافی اور اس کی چند مثالیں

مرکبِ اضافی ایسا مرکب ہوتا ہے جس میں ایک اسم ’’مضاف‘‘ کہلاتا ہے اور دوسرا اسم ’’مضاف الیہ‘‘۔ ان دونوں اسموں کے درمیان ملکیت یا نسبت کا تعلق ہوتا ہے۔

  • مضاف: وہ اسم جس کی اضافت کی جائے، یعنی جس کا تعلق دوسرے سے ظاہر کیا جائے۔
  • مضاف الیہ: وہ اسم جس کی طرف اضافت کی جائے، یعنی جس سے تعلق ظاہر کیا جائے۔

ملکیت کے تعلق سے مراد یہ ہے کہ مضاف کا تعلق مضاف الیہ سے ملکیت کا ہو۔ مثلاً‌ ہادیہ کی گاڑی: یہاں گاڑی (مضاف) کی ملکیت ہادیہ (مضاف الیہ) کی ہے۔

نسبت کے تعلق سے مراد یہ ہے کہ مضاف کا تعلق مضاف الیہ سے کسی اور نوعیت کا ہو، جیسے وقت، جگہ، وجہ، یا کسی خصوصیت کی بنا پر۔ اس میں ملکیت کا براہ راست مفہوم نہیں ہوتا بلکہ محض ایک تعلق یا رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔ مثلاً‌ صبح کا وقت، اسلام آباد کا سفر، محبت کا جذبہ، رحمت کا فرشتہ۔

مثالیں

مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان تعلق ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں:

  • اردو میں ان دونوں کے درمیان چار طریقوں سے تعلق ظاہر ہوتا ہے:
    1.  اس کے لیے حروفِ اضافت (کا، کے، کی) استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ پاکستان کا جھنڈا۔ یہاں ’’جھنڈا‘‘ مضاف ہے اور ’’پاکستان‘‘ مضاف الیہ ہے۔
    2.  ضمیروں (میں، تم، ہم وغیرہ) کے ساتھ را، رے، ری استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ میرا قلم۔ یہاں ’’قلم‘‘ مضاف ہے اور ’’میرا‘‘ مضاف الیہ ہے۔ جبکہ میرا ’’میں کا‘‘ کی مختصر شکل ہے۔
    3.  ہمزہ (ء) کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب مضاف کے آخر میں تین حروف (ی، ہ، ا) میں سے کوئی ہو اور اسے اگلے لفظ سے جوڑنا ہو۔ مثلاً‌ شرمندگیٔ حالات، سلسلۂ روز و شب، دعائے خیر۔
    4.  مضاف کے آخری حرف کے نیچے زیر کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً‌ مالکِ مکان (مکان کا مالک)
  • فارسی میں یہ تعلق مضاف کے آخر میں زیر (کسرہ) لگا کر ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً‌ دردِ دل (دل کا درد)۔
  • عربی میں یہ تعلق مضاف الیہ کے آخر میں زیر (کسرہ) لگا کر ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً‌ کتابُ الولدِ (لڑکے کی کتاب)۔ اس میں لڑکے کی طرف نسبت ہے اس لیے وہ مضاف الیہ ہے اور اس کے آخر میں زیر یعنی کسرہ ہے۔